نوابزادہ نصراللہ خان کا نکلسن روڈ میں واقع گھر لنڈا بازار میں تبدیل

nasabah11h22.jpg

نوابزادہ نصر اللہ خان جنہیں بابائے جمہوریت کہا جاتا ہے، انہوں نے ہر آمریت کے خلاف جنگ لڑی ہے، پہلے ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف نبردآزمارہے پھر مشرف کی آمریت کے خلاف۔

ان کا نکلسن روڈ میں واقع گھر اب لنڈا بازار میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں پرانی جیکٹس، جرسیاں اور جوتے فروخت ہوتے ہیں، انکی وفات کے بعد انکے گھر کو گرا کر پلازہ بنایا گیا تھا۔

ضیاء الحق اور مشرف کی آمریت کے دوران انکے گھر پر رش لگا ہوتا تھا، اہم سیاسی شخصیات انکے گھر پر موجود رہتی تھیں۔ یہاں تک کہ کئی سابق وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ اور اہم عہدوں پر براجمان شخصیات کی انکے گھر آمد ہوتی تھی۔
https://twitter.com/x/status/1876862248825536982
نوابزادہ نصر اللہ اپنے آبائی حلقے سے دو بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 1956 کے دستور کی تیاری میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ 1954 ء کی تحریک ختم نبوت اور قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دلانے میں ان کا خصوصی کردار تھا۔

نوابزادہ نصر اللہ ہر مارشل لاء کے دوران جمہوریت کے لیے تگ و دو کرتے اور جمہوریت میں ہر حکومت کو گرانے کی تگ و دو کرتے رہتے۔ جب کسی حکومت کے آخری دن نظر آ رہے ہوتے تو وہ یوں تبصرہ کرتے، جی کا جانا ٹھہر گیا صبح گیا شام گیا۔ مختلف الخیال سیاستدانوں کو ایک ساتھ بٹھا کر تحریک چلانا یا کوئی سیاسی اتحاد بنانا ان کا خاص مشغلہ تھا۔

بھٹو کے خلاف پی این اے اور ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحاریک فیصلہ کن رہیں۔ وہ عوام میں تو ایک مقبول سیاسی رہنما نہ بن سکے، لیکن رہنماؤں کے رہنما ضرور بن گئے۔ حسین سہروردی، مجیب الرحمن، پیر صاحب پگاڑا، ولی خان، ذوالفقار علی بھٹو، ابو الاعلیٰ مودودی، شاہ احمد نورانی، عبدالستار نیازی، شیر باز مزاری، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو اور دوسرے اہم سیاسی رہنماؤں سے ان کے خصوصی تعلقات تھے۔


انکی وفات 2003 میں ہوئی تھی مگر انکی وفات کے بعد انکی سیاسی وراثت آپس میں جھگڑوں کی وجہ سے نہ سنبھال سکے، اس وقت حالت یہ ہے کہ ایک بیٹا تحریک انصاف میں ہے اور دوسرا پیپلزپارٹی میں اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن میں نبردآزما ہوتے ہیں۔
 

Back
Top