نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑجبری گمشدہ افراد کےکیسز کی تعداد سے لاعلم نکلے

8anekakakrlailmi.png

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 31 اگست تک 9ہزار 967 کیسز ریکارڈ کیے جن میں سے 2ہزار 253 زیرالتواء : رپورٹ

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے جبری گمشدگیوں کی تعداد کے حوالے سے دعوے کی حقیقت جیو فیکٹ چیک نے بے نقاب کر دی۔ چند دن پہلے بین الاقوامی خبر ایجنسی بی بی بی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے ان سے جبری گمشدگیوں بارے سوال کیا گیا تو نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کی ذیلی کمیٹی کے مطابق جبری گمشدگیوں کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدہ شہریوں کی تعداد 50 کے قریب جبکہ بھارت میں جبری گمشدہ شہریوں کی تعداد 8 ہزار ہے۔

نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا ایک طریقہ کار ہے جس سے آپ لوگوں کا ڈیٹا لیتے ہیں اور پھر یہ بات سٹیبلش کرتے ہیں کہ کون سے لوگ جبری گمشدہ ہیں جبکہ جبری گمشدگیوں کی بڑی تعداد ظاہر کر کے ریاستی اداروں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نگران وزیراعظم کے اس دعوے کو اقوام متحدہ کی عوامی سطح پر موجود رپورٹس ان کے اس دعوے کی غلط قرار دے رہی ہیں۔

نگران وزیراعظم نے انٹرویو کے دوران اقوام متحدہ کی جس ذیلی کمیٹی کی رپورٹ کا ذکر کیا ہے اسے کمیٹی برائے جبری گمشدگی (CED) کہا جاتا ہے ایک ایسا ادارہ ہے جو آزاد ماہرین پر مشتمل ہے اور مختلف ملکوں میں جبری گمشدگیوں کے خلاف تمام شہریوں کے تحفظ کے کنونشن پر عملدرآمد کی نگرانی کا کام کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے 2006ء میں منظور کردہ کنونشن کے مطابق جبری گمشدگی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ "ریاستی اہلکاروں یا اجازت سے کام کرنیوالے افراد یا افراد کے گروہ کے ذریعہ حراست، اغوا، گرفتاری یا آزادی سے محرومی کی کوئی قسم ریاستی رضامندی سے جس کے بعد آزادی کی محرومی تسلیم کرنے سے انکار یا گمشدہ شہری کے ٹھکانے کو چھپانے سے جو ایسے شہری کو قانونی تحفظ سے باہر رکھتا ہے"

جیو کے مطابق اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے جبری گمشدگی کی ویب سائٹ پر ایسی کوئی رپورٹ موجود ہی نہیں ہے جس میں صوبہ بلوچستان کے جبری گمشدہ شہریوں کی تعداد 50 بتائی گئی ہو۔ کمیٹی کی ویب سائٹ کی تازہ ترین رپورٹ میں 13 مئی 2022ء اور 12 مئی 2023ء کے عرصہ کے دوران کیسز کا جائزہ لیا گیا ہے۔


رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اس عرصے کے دوران جبری گمشدگی کی 1635 شکایات پاکستان کو بھیجی گئیں۔ 2016ء میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن انفورسڈ یا ان ولنٹری گمشدگیوں (WGEID) کی رپورٹ شائع کی گئی تھی جس میں بلوچستان کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔ بلوچستان کے ذرائع سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ 14 ہزار شہری اب بھی لاپتہ ہیں لیکن صوبائی حکومت 100 سے بھی کم شہریوں کی گمشدگی کو تسلیم کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں اور حکومتی اعدادوشمار میں تضاد کے باعث کیسز کی صحیح تعداد کا پتہ لگانا مشکل ہے تاہم تحقیقات میں سیاسی عزم اور حکومتی تعاون کی کمی کو کوتاہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیوفیکٹ چیک کے ساتھ شیئر اعدادوشمار کے مطابق کمیشن آف انفورسڈ ڈس اپیئر پرنز پاکستان کے مطابق 31 اگست 2023ء تک بلوچستان سے 7082 شہری گمشدہ ہوئے۔

کیشن کا دعویٰ ہے کہ آج تک 2 ہزار 257 کیسز نپٹائے جا چکے ہیں جن میں سے کچھ شہریوں کے اپنے گھر واپس آنے، کچھ کے جیلوں یا حراستی مراکز میں ہونے کے باعث زیرالتواء کیسز 451 رہ گئے ہیں اور ان کی تعداد نگران وزیراعظم کے دعویٰ کے مطابق 50 نہیں ہے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق کمیشن نے 31 اگست تک 9ہزار 967 کیسز ریکارڈ کیے جن میں سے 2ہزار 253 زیرالتواء ہیں۔

جبری گمشدگیوں کے پاکستانی انکوائری کمیشن کے سیکرٹری فرید احمد کے مطابق کمیشن میں استعمال کی جانے والی جبری گمشدگیوں کی تعریف اقوام متحدہ کی تعریف جیسی ہی ہے۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات کی سہ ماہی رپورٹ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کو بھیجی جاتی ہے تاہم انہوں نے نگران وزیراعظم کے دعویٰ کو غلط کہنے سے احتراز کیا۔

انہوں نے کاہ کہ زیرالتواء مقدمات کی نوعیت بدلتی رہتی ہے، آج کچھ ہے کل کچھ اور ہو سکتی ہے، تعداد میں اضافہ یا کمی ہو سکتی ہے جبکہ اقوام متحدہ کی طرف سے کمیشن کو رپورٹ کیے گئے کیسز کی تعداد شیئر کرنے سے انکار کیا۔ کمیشن کے رکن نے شناخت چھپاتے ہوئے بتایا کہ نگران وزیراعظم کی طرف سے بتائی گئی تعداد درست نہیں لگتی، زیرالتواء مقدمات 451 والی تعداد ٹھیک ہو سکتی ہے۔
 

samisam

Chief Minister (5k+ posts)
اس کرپٹ ککڑ کو تو یہ بھی نہیں پتہ اسکی کتنی ککڑیاں جبری گمشدہ ہوئی ہیں
 

stranger

Chief Minister (5k+ posts)
chabi walay bandar ko kisi waitress ke saath selfie lene se fursat ho to wo kuch or sochay
CxIiqk2WIAA02WO.jpg