
لاہور: پنجاب حکومت نے ایک متنازع قانون منظور کر کے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو تحلیل کر دیا اور اس کی جگہ ایک نئی اتھارٹی قائم کر دی ہے، جو براہ راست وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے ماتحت ہوگی اور زیادہ تر بیوروکریٹس پر مشتمل ہوگی۔ ماہرین اور قانونی حلقے اس فیصلے کو فرانزک سروسز کی خودمختاری ختم کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، جس سے انصاف کے نظام پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
بے نظیر شاہ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب اسمبلی میں 12 فروری کو وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمان نے "پنجاب فرانزک سائنس اتھارٹی ایکٹ 2025" پیش کیا، جسے 14 مارچ کو منظور کر لیا گیا۔ یہ قانون 2007 میں بنائی گئی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو ختم کر کے ایک نئی اتھارٹی قائم کرتا ہے، جو فرانزک سروسز فراہم کرے گی۔ پہلے یہ ادارہ ایک ماہر ڈائریکٹر جنرل کے تحت چل رہا تھا، مگر اب اس کا براہ راست کنٹرول وزیراعلیٰ کے پاس ہوگا، جو اتھارٹی کی سربراہ ہوں گی۔
https://twitter.com/x/status/1901500583292334542
اتھارٹی میں کل 13 اضافی ارکان ہوں گے، جن میں مختلف محکموں کے سیکرٹریز، انسپکٹر جنرل پولیس یا ان کا نمائندہ، ایک ڈائریکٹر جنرل، اور پانچ ماہرین شامل ہوں گے۔
ڈائریکٹر جنرل کے لیے فرانزک سائنس میں مہارت کی شرط ختم کر دی گئی ہے، جو پہلے لازم تھی۔ اب یہ تقرر وزیراعلیٰ کی صوابدید پر ہوگا اور وہ کسی بھی وقت برطرف کیے جا سکیں گے۔ اگر یہ عہدہ خالی ہوتا ہے تو کسی بھی BS-20 گریڈ کے بیوروکریٹ کو ڈائریکٹر جنرل لگایا جا سکے گا۔
اتھارٹی کے 14 میں سے کم از کم 9 ارکان حکومتی بیوروکریٹس یا حکومتی نامزد کردہ افراد پر مشتمل ہوں گے۔ فیصلہ سازی اکثریتی ووٹنگ کے ذریعے ہوگی، جس میں حکومتی ارکان کو واضح برتری حاصل ہوگی۔
https://twitter.com/x/status/1901641321401422018
نئے قانون میں فرانزک شواہد کی تعریف میں توسیع کرتے ہوئے حیاتیاتی نمونے، دستاویزات، سائبر کرائم مواد، اور آڈیو ویڈیو ریکارڈنگز کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1900576257693151500
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد ادارے کو زیادہ خودمختاری دینا اور اس کی مالی و انتظامی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے تحت اتھارٹی لانے سے مالی اور انتظامی کنٹرول بہتر ہوگا اور کیسز کے حل میں تیزی آئے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2016 سے PFSA کی عمارت، آلات اور دیگر سہولیات اپڈیٹ نہیں ہوئیں، جبکہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے 8 ارب روپے مختص کیے ہیں تاکہ نئے آلات، انفراسٹرکچر اور اپ گریڈیشن کے منصوبے مکمل کیے جا سکیں۔
https://twitter.com/x/status/1900584880586760472
عظمیٰ بخاری نے یہ بھی وضاحت کی کہ ڈائریکٹر جنرل کے لیے فرانزک سائنس میں مہارت کی شرط ہٹانے کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی ماہرین اس عہدے کے لیے درخواست نہیں دیتے تھے۔
قانونی ماہرین اس تبدیلی کو فرانزک سائنس کی خودمختاری پر سنگین حملہ قرار دے رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کی وکیل، ردا حسین کا کہنا ہے کہ یہ قانون ایک ایسی فرانزک اتھارٹی بنا رہا ہے جو حکومت کے مفادات کے تحت کام کرے گی، نہ کہ آزادانہ طور پر۔
انہوں نے کہا کہ نئے قانون کے تحت، اگر کوئی رکن حکومت کے خلاف آزادانہ فیصلے لیتا ہے تو اسے برطرف کیا جا سکتا ہے۔ پہلے ڈائریکٹر جنرل کو صرف بدعنوانی یا نااہلی ثابت ہونے پر ہٹایا جا سکتا تھا، لیکن اب اس کی برطرفی وزیراعلیٰ کی خواہش پر ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پانچ ماہرین بھی حکومت کی مرضی کے مطابق تعینات کیے جائیں گے، جو فرانزک تجزیے کی غیرجانبداری کو متاثر کر سکتا ہے۔
قانونی ماہر اسد رحیم خان نے بھی اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ PFSA نے ماضی میں جرائم کی تفتیش میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی تھیں، لیکن اب اس ادارے کی خودمختاری کمزور کر دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل کے لیے فرانزک مہارت کی شرط ہٹانا درحقیقت بیوروکریسی کے بے جا سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش ہے، جو پہلے ہی حکومت کے دیگر اداروں کو مفلوج کر چکی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ PFSA کو جدید سہولیات اور بہتر فنڈنگ کی ضرورت تھی، لیکن اس کا حل اسے براہ راست سیاسی کنٹرول میں لانا نہیں تھا۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اب فرانزک رپورٹس حکومتی دباؤ کے تحت تبدیل کی جا سکتی ہیں، کیونکہ بیوروکریٹس اور حکومتی اہلکار اس ادارے کو کنٹرول کریں گے، جبکہ ماہرین کا کردار محدود کر دیا گیا ہے۔
یہ معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جب دیکھا جائے کہ پاکستان میں عدالتوں میں فرانزک شواہد کا کلیدی کردار ہوتا ہے، خاص طور پر کرپشن، دہشت گردی، اور دیگر اہم مقدمات میں۔
پنجاب حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ قانون فرانزک سروسز کی بہتری کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن قانونی ماہرین اور تجزیہ کار اسے ادارے کی غیر جانبداری پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، اگر فرانزک اتھارٹی کو حکومتی کنٹرول میں لا کر اس کی آزادی محدود کر دی گئی، تو یہ عدالتی نظام پر سنگین اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت اس قانون میں مزید ترامیم کرے گی یا عدالتی نظام پر اس کے ممکنہ اثرات کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔