نیا معاشی ماڈل یہ ہے کہ ڈالر تو پاکستانیوں کو مل رہے ہیں مگر صرف جرنیلوں کو۔ مقصد ہے کہ عوامی تحریک کو کچلا جائے۔ ایکسپورٹس پاکستانی کی بلکل نیچے آگئی ہیں اور ختم ہوجائیں گی جبکہ بجلی' کھادیں اور دوسرے وسائل عوامی کی پہنچ سے دور ہوجائینگے۔ یہ معاشی تباہی اگر فوج تک آگئی تو یہ حکومت گر جائیگی مگر کیونکہ جرنیلوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں اسلیے انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہےکہ یہ حکومت کتنی تباہی مچا چکی ہے اور اس سے عوام کا کتنا نقصان ہوچکا ہے۔ اسکا حل یہ ہے کہ اب عوام بھی ڈالروں سے نیچے کی بات نہ کرے' فوج کو وردیاں چاہیں تو عوام ڈالر میں پیمنٹ لے۔ پرائیوٹ ادارہ کوئی بھی ہے جس سے فوج کوئی مال خریدتی ہے تو ڈالر میں پیمنٹ لے اور یہ دیں گے۔ اور کیپٹن سے نیچے کے لوگوں کو اگر ڈالر میں تنخواہیں نہ ملیں تو یہ کام نہیں کریں گے۔
نتیجہ یہ ہوگا کہ جرنیلوں کو جو ڈالر مل رہے ہیں ظاہر ہے کہ انکو تقسیم کرنے پڑِیں گے ورنہ انکے غیر قانونی احکام کوئی مانے گا نہیں لہزا مزید ڈالروں کی ڈیمانڈ کی جائیگی۔ وہ بھی مل جائیں گے اگر تب تک یہ باقی رہے لیکن وہ بھی کم پڑ جائیں گے کیونکہ ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔ یا تو پھر زمباوے کی طرح نوٹوں کی بوریاں بھر بھر کر لوگ انڈے خریدیں گے یا پھر سیدھا سونا یا پھر ڈالر پر لوگوں کو آنا پڑے گا۔ یہ تو اب معاشی ارسطووں کو سوچنا چاہیے تھا کہ مراعات ہی لینی تھیں تو اسکے لیے معیشت خراب کرنا کیوں ضروری تھا۔
امریکی ڈالر ملتے رہے تو یہ جرنل اسی طرح سرکس لگا کررکھیں گے اور عملی طور پر قانون تو ختم ہوچکا ہے باوجود اسکے کے کچھ لوگ سپریم کورٹ کے ٹرک کی بتی دکھا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان ججوں کے بھی اساسے ملک سے باہر ہیں بشمول انکی اولادوں کے سوائے چند ایک کے۔
ویسے عام پاکستانی ناک رگڑتا رہے تو اسے ویزا نہیں ملتا مگر جتنے لفنٹر ہیں انہیں بڑی عزت سے ویزا ملتا ہے اور انکے خلاف کوئی معاشی بدعنوانی کے کیس بھی نہیں بنتے۔ مگر خیر' پاکستان میں رہتے ہوِئے ایک متبادل معاشی نظام پر جانا پڑے گا اور یہ عوام خود جاسکتی ہے۔
جب اصل معاشی بدحالی شروع ہوگی تو لوگ مجبورا گاوں دہات کا رخ کریں گے اور حقیقتا شہروں پر دباو کم ہوجائیگا۔ یہ بھی ایک پالیسی لگتی ہے کہ عوام کو اتنا معاشی بدحال کردو کے شہروں سے گاوں چلے جائیں اور انکے اقتدار کو آخری خطرہ بھی ختم ہوجائے۔ اسی طرح کی ایک ریپورٹ باجوہ کو بھی دی گئی تھی کہ عمران خان کی مقبولیت صرف 7 فیصد ہے اور اس بغلول نے سوچا کہ لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے۔ اسی طرح کی اگر رپورٹیں اگر آتی رہیں تو یہ کہنا ممکن ہے کہ لوگ واقعی دہاتوں کی طرف جانا شروع ہوجائیں گے یا پھر واقعی نظام لپیٹ دیں گے۔ کیونکہ آبادی ہے ہی اتنی زیادہ کہ ادھے لوگ دہاتوں میں بھی چلے جائیں تو پھر بھی باقی اتنے ہیں کہ ایک فیصد بھی باہر آگئے تو بچے گا کوئی نہیں۔
ایسے معاشی مظام کے اندر تحریکیں بڑی آسانی سے پروان چڑھتی ہیں کیونکہ زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ مگر کیونکہ فل حال انٹرنیٹ چل رہا ہے تو لوگ ابھی بھی کپل شرما شو دیکھ رہے ہوں گے اور انہیں ہوش اس وقت آئیگا جبکہ انکی فون کمپنی یعنی یوفون بھی اپنا بوریا بسترا گول کرلے گی۔ یوفون کی مثال اسلیے دی ہے کہ یہ پاکستانی موبائل کمپنی ہے اور اگر یہ بند ہوگئی تو وارد' زونگ اور ٹیلی نار تو ختم ہی سمجھیں۔
نظام لپیٹا جائے یا یہی افلاطون کے پٹھے مسلط رہیں مگر عوام کو چاہیے روزگار۔ اسلیے زراعت سے بہتر تو کوئی حل نہیں ہے۔ کیونکہ اوسطاً 6 سے 12 مہینے کے اندر اندر نئی فصل تیار ہوجاتی ہے اور اگر جانور رکھے جائیں تو وہ بھی 3 سے 6 ماہ میں اپنی پیداوار دینا شروع کردیتے ہیں۔ مرغیاں ضرور رکھیں مگر جلد پیداوار کے لیے خرگوش پالیں جو دنوں میں اپکو غزائی قلت سے باہر نکال سکتے ہیں۔ اسکی وجہ انکی افزائش نسل کی رفتار اور تعداد ہے اور ہر موسم میں انکی افزائش نسل ممکن ہے۔
رہ گئی بات ترقی کرنے کی تو روپے کی قدر کم ہونے کے باعث لوگ اس میں لین دین شاید نہ کریں اسی لیے ایک حل تو ہے بارٹر سسٹم جو کہ تاریخ انسانی کا سب سے پہلا معاشی ماڈل تھا یعنی اشیاء کے بدلے اشیاء مگر نئ کرنسی بھی متعارف کروائی جاسکتی ہے جسکی قیمت حکومت پاکستان طے کردے البتہ حکومت وہ ہو جو کہ مخلص ہو کیونکہ پی ڈی ایم جیسی حکومت کے ہوتے ہوئے میں بارٹر پر ہی جانا پسند کروں گا یا پھر سیدھا ڈالر یا سونے کو بطور کرنسی استعمال کرنا۔
خطے کے ممالک کی کرنسی بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں اسکی مانگ کچھ کم ہوتی ہے مگر روپے کے مقابلے میں اسکی قیمت بھی نہیں گرتی۔ مگر اسکے لیے سمگلنگ کرنا پڑے گی جسکا مشورہ میں نہیں دوں گا۔ اسلیے نہیں کے قانون ٹوٹنے کا خطرہ ہے کیونکہ قانون تو باقی ہے ہی نہیں۔ البتہ سمگلنگ کرکے آپکی زات کو تو فائدا ہوسکتا ہے مگر ملک کے اندر غزائی قلت ہوجائیگی۔ ہاں اگر آپ اپنے علاقے میں غزائی قلت ختم کردیں پھر آپ اپنا مال سرحد پار بھی بیج سکتے ہیں۔ اس صورت میں بھی ترجیح دیں گے ڈالر میں پیمنٹ لیں۔ لیکن اگر سرحد پار کرنسی میں بھی پیمنٹ لی جائے تو چلے گا۔
ایکسپورٹس تو بھول جائیں کیونکہ ایکسپورٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ ملکی بنکوں میں پیمنٹ لینا اور پی ڈی ایم کی حکومت کے ہوتے ہوئے بنک بھی دیوالیہ ہوں گے۔ اسکے علاوہ جب تک عوام انرجی کی ضروریات میں خود کفیل نہیں ہوتی تب تک عالمی سطح پر اپنی چیز کیسے بکے گی جبکہ اس سے سستی قیمت پر خطے کے ممالک بیچ رہے ہوں۔ اسکا حل یہ ہے کہ واپڈا کی بجلی کاٹ کر اپنا سولر سسٹم لگائیں' الیکٹرک گاڑی اور موٹرسائیکل یا سائیکل رکھیں کیونکہ آنے والے وقت میں بیٹری ٹیکنولوجی میں انقلاب آنے والا ہے جسکے بعد پیٹرول اور ڈیزل کی ویسے ہی چھٹی ہوجائیگی۔ فیکٹروں کی انرجی کی ضروریات بہت زیادہ ہوتی ہیں جنکا فوری حل تو ہے بند کردینا کیونکہ گھاٹے پر کون چیز پیدا کرے جبکہ اسکے خریدنے والا کوئی نہ ملے۔ اسلیے جتنا کام سولر سے چل سکتا ہے چلائیں اور باقی کمی بائیوگیس سے پوری کریں۔ اسکے بعد جو کمی ہے وہ ڈیزل یا واپڈا سے پوری کی جاسکتی ہے۔ کم از کم فیکٹری بچ سکتی ہے چاہے منافع کم بھی ہو۔
کسانوں کو خاص طور پر ڈیزل کا متبادل تلاش کرنا چاہیے۔ پودوں اور نامیادتی مادوں سے بھی تیل بنایا جاسکتا ہے جو ڈیزل کا متبادل ہے البتہ سولر سیل سے بھی ٹیوب ویل چل سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بائیو گیس بھی ایک متبادل ہے جس پر جتنا جلدی متنقل ہوا جائے اچھا ہے۔
نتیجہ یہ ہوگا کہ جرنیلوں کو جو ڈالر مل رہے ہیں ظاہر ہے کہ انکو تقسیم کرنے پڑِیں گے ورنہ انکے غیر قانونی احکام کوئی مانے گا نہیں لہزا مزید ڈالروں کی ڈیمانڈ کی جائیگی۔ وہ بھی مل جائیں گے اگر تب تک یہ باقی رہے لیکن وہ بھی کم پڑ جائیں گے کیونکہ ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔ یا تو پھر زمباوے کی طرح نوٹوں کی بوریاں بھر بھر کر لوگ انڈے خریدیں گے یا پھر سیدھا سونا یا پھر ڈالر پر لوگوں کو آنا پڑے گا۔ یہ تو اب معاشی ارسطووں کو سوچنا چاہیے تھا کہ مراعات ہی لینی تھیں تو اسکے لیے معیشت خراب کرنا کیوں ضروری تھا۔
امریکی ڈالر ملتے رہے تو یہ جرنل اسی طرح سرکس لگا کررکھیں گے اور عملی طور پر قانون تو ختم ہوچکا ہے باوجود اسکے کے کچھ لوگ سپریم کورٹ کے ٹرک کی بتی دکھا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان ججوں کے بھی اساسے ملک سے باہر ہیں بشمول انکی اولادوں کے سوائے چند ایک کے۔
ویسے عام پاکستانی ناک رگڑتا رہے تو اسے ویزا نہیں ملتا مگر جتنے لفنٹر ہیں انہیں بڑی عزت سے ویزا ملتا ہے اور انکے خلاف کوئی معاشی بدعنوانی کے کیس بھی نہیں بنتے۔ مگر خیر' پاکستان میں رہتے ہوِئے ایک متبادل معاشی نظام پر جانا پڑے گا اور یہ عوام خود جاسکتی ہے۔
جب اصل معاشی بدحالی شروع ہوگی تو لوگ مجبورا گاوں دہات کا رخ کریں گے اور حقیقتا شہروں پر دباو کم ہوجائیگا۔ یہ بھی ایک پالیسی لگتی ہے کہ عوام کو اتنا معاشی بدحال کردو کے شہروں سے گاوں چلے جائیں اور انکے اقتدار کو آخری خطرہ بھی ختم ہوجائے۔ اسی طرح کی ایک ریپورٹ باجوہ کو بھی دی گئی تھی کہ عمران خان کی مقبولیت صرف 7 فیصد ہے اور اس بغلول نے سوچا کہ لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے۔ اسی طرح کی اگر رپورٹیں اگر آتی رہیں تو یہ کہنا ممکن ہے کہ لوگ واقعی دہاتوں کی طرف جانا شروع ہوجائیں گے یا پھر واقعی نظام لپیٹ دیں گے۔ کیونکہ آبادی ہے ہی اتنی زیادہ کہ ادھے لوگ دہاتوں میں بھی چلے جائیں تو پھر بھی باقی اتنے ہیں کہ ایک فیصد بھی باہر آگئے تو بچے گا کوئی نہیں۔
ایسے معاشی مظام کے اندر تحریکیں بڑی آسانی سے پروان چڑھتی ہیں کیونکہ زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ مگر کیونکہ فل حال انٹرنیٹ چل رہا ہے تو لوگ ابھی بھی کپل شرما شو دیکھ رہے ہوں گے اور انہیں ہوش اس وقت آئیگا جبکہ انکی فون کمپنی یعنی یوفون بھی اپنا بوریا بسترا گول کرلے گی۔ یوفون کی مثال اسلیے دی ہے کہ یہ پاکستانی موبائل کمپنی ہے اور اگر یہ بند ہوگئی تو وارد' زونگ اور ٹیلی نار تو ختم ہی سمجھیں۔
نظام لپیٹا جائے یا یہی افلاطون کے پٹھے مسلط رہیں مگر عوام کو چاہیے روزگار۔ اسلیے زراعت سے بہتر تو کوئی حل نہیں ہے۔ کیونکہ اوسطاً 6 سے 12 مہینے کے اندر اندر نئی فصل تیار ہوجاتی ہے اور اگر جانور رکھے جائیں تو وہ بھی 3 سے 6 ماہ میں اپنی پیداوار دینا شروع کردیتے ہیں۔ مرغیاں ضرور رکھیں مگر جلد پیداوار کے لیے خرگوش پالیں جو دنوں میں اپکو غزائی قلت سے باہر نکال سکتے ہیں۔ اسکی وجہ انکی افزائش نسل کی رفتار اور تعداد ہے اور ہر موسم میں انکی افزائش نسل ممکن ہے۔
رہ گئی بات ترقی کرنے کی تو روپے کی قدر کم ہونے کے باعث لوگ اس میں لین دین شاید نہ کریں اسی لیے ایک حل تو ہے بارٹر سسٹم جو کہ تاریخ انسانی کا سب سے پہلا معاشی ماڈل تھا یعنی اشیاء کے بدلے اشیاء مگر نئ کرنسی بھی متعارف کروائی جاسکتی ہے جسکی قیمت حکومت پاکستان طے کردے البتہ حکومت وہ ہو جو کہ مخلص ہو کیونکہ پی ڈی ایم جیسی حکومت کے ہوتے ہوئے میں بارٹر پر ہی جانا پسند کروں گا یا پھر سیدھا ڈالر یا سونے کو بطور کرنسی استعمال کرنا۔
خطے کے ممالک کی کرنسی بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں اسکی مانگ کچھ کم ہوتی ہے مگر روپے کے مقابلے میں اسکی قیمت بھی نہیں گرتی۔ مگر اسکے لیے سمگلنگ کرنا پڑے گی جسکا مشورہ میں نہیں دوں گا۔ اسلیے نہیں کے قانون ٹوٹنے کا خطرہ ہے کیونکہ قانون تو باقی ہے ہی نہیں۔ البتہ سمگلنگ کرکے آپکی زات کو تو فائدا ہوسکتا ہے مگر ملک کے اندر غزائی قلت ہوجائیگی۔ ہاں اگر آپ اپنے علاقے میں غزائی قلت ختم کردیں پھر آپ اپنا مال سرحد پار بھی بیج سکتے ہیں۔ اس صورت میں بھی ترجیح دیں گے ڈالر میں پیمنٹ لیں۔ لیکن اگر سرحد پار کرنسی میں بھی پیمنٹ لی جائے تو چلے گا۔
ایکسپورٹس تو بھول جائیں کیونکہ ایکسپورٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ ملکی بنکوں میں پیمنٹ لینا اور پی ڈی ایم کی حکومت کے ہوتے ہوئے بنک بھی دیوالیہ ہوں گے۔ اسکے علاوہ جب تک عوام انرجی کی ضروریات میں خود کفیل نہیں ہوتی تب تک عالمی سطح پر اپنی چیز کیسے بکے گی جبکہ اس سے سستی قیمت پر خطے کے ممالک بیچ رہے ہوں۔ اسکا حل یہ ہے کہ واپڈا کی بجلی کاٹ کر اپنا سولر سسٹم لگائیں' الیکٹرک گاڑی اور موٹرسائیکل یا سائیکل رکھیں کیونکہ آنے والے وقت میں بیٹری ٹیکنولوجی میں انقلاب آنے والا ہے جسکے بعد پیٹرول اور ڈیزل کی ویسے ہی چھٹی ہوجائیگی۔ فیکٹروں کی انرجی کی ضروریات بہت زیادہ ہوتی ہیں جنکا فوری حل تو ہے بند کردینا کیونکہ گھاٹے پر کون چیز پیدا کرے جبکہ اسکے خریدنے والا کوئی نہ ملے۔ اسلیے جتنا کام سولر سے چل سکتا ہے چلائیں اور باقی کمی بائیوگیس سے پوری کریں۔ اسکے بعد جو کمی ہے وہ ڈیزل یا واپڈا سے پوری کی جاسکتی ہے۔ کم از کم فیکٹری بچ سکتی ہے چاہے منافع کم بھی ہو۔
کسانوں کو خاص طور پر ڈیزل کا متبادل تلاش کرنا چاہیے۔ پودوں اور نامیادتی مادوں سے بھی تیل بنایا جاسکتا ہے جو ڈیزل کا متبادل ہے البتہ سولر سیل سے بھی ٹیوب ویل چل سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بائیو گیس بھی ایک متبادل ہے جس پر جتنا جلدی متنقل ہوا جائے اچھا ہے۔