نیا معاشی ماڈل۔ صرف مسائل نہیں بلکہ حل۔

xshadow

Minister (2k+ posts)
نیا معاشی ماڈل یہ ہے کہ ڈالر تو پاکستانیوں کو مل رہے ہیں مگر صرف جرنیلوں کو۔ مقصد ہے کہ عوامی تحریک کو کچلا جائے۔ ایکسپورٹس پاکستانی کی بلکل نیچے آگئی ہیں اور ختم ہوجائیں گی جبکہ بجلی' کھادیں اور دوسرے وسائل عوامی کی پہنچ سے دور ہوجائینگے۔ یہ معاشی تباہی اگر فوج تک آگئی تو یہ حکومت گر جائیگی مگر کیونکہ جرنیلوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں اسلیے انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہےکہ یہ حکومت کتنی تباہی مچا چکی ہے اور اس سے عوام کا کتنا نقصان ہوچکا ہے۔ اسکا حل یہ ہے کہ اب عوام بھی ڈالروں سے نیچے کی بات نہ کرے' فوج کو وردیاں چاہیں تو عوام ڈالر میں پیمنٹ لے۔ پرائیوٹ ادارہ کوئی بھی ہے جس سے فوج کوئی مال خریدتی ہے تو ڈالر میں پیمنٹ لے اور یہ دیں گے۔ اور کیپٹن سے نیچے کے لوگوں کو اگر ڈالر میں تنخواہیں نہ ملیں تو یہ کام نہیں کریں گے۔

نتیجہ یہ ہوگا کہ جرنیلوں کو جو ڈالر مل رہے ہیں ظاہر ہے کہ انکو تقسیم کرنے پڑِیں گے ورنہ انکے غیر قانونی احکام کوئی مانے گا نہیں لہزا مزید ڈالروں کی ڈیمانڈ کی جائیگی۔ وہ بھی مل جائیں گے اگر تب تک یہ باقی رہے لیکن وہ بھی کم پڑ جائیں گے کیونکہ ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔ یا تو پھر زمباوے کی طرح نوٹوں کی بوریاں بھر بھر کر لوگ انڈے خریدیں گے یا پھر سیدھا سونا یا پھر ڈالر پر لوگوں کو آنا پڑے گا۔ یہ تو اب معاشی ارسطووں کو سوچنا چاہیے تھا کہ مراعات ہی لینی تھیں تو اسکے لیے معیشت خراب کرنا کیوں ضروری تھا۔

امریکی ڈالر ملتے رہے تو یہ جرنل اسی طرح سرکس لگا کررکھیں گے اور عملی طور پر قانون تو ختم ہوچکا ہے باوجود اسکے کے کچھ لوگ سپریم کورٹ کے ٹرک کی بتی دکھا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان ججوں کے بھی اساسے ملک سے باہر ہیں بشمول انکی اولادوں کے سوائے چند ایک کے۔

ویسے عام پاکستانی ناک رگڑتا رہے تو اسے ویزا نہیں ملتا مگر جتنے لفنٹر ہیں انہیں بڑی عزت سے ویزا ملتا ہے اور انکے خلاف کوئی معاشی بدعنوانی کے کیس بھی نہیں بنتے۔ مگر خیر' پاکستان میں رہتے ہوِئے ایک متبادل معاشی نظام پر جانا پڑے گا اور یہ عوام خود جاسکتی ہے۔


جب اصل معاشی بدحالی شروع ہوگی تو لوگ مجبورا گاوں دہات کا رخ کریں گے اور حقیقتا شہروں پر دباو کم ہوجائیگا۔ یہ بھی ایک پالیسی لگتی ہے کہ عوام کو اتنا معاشی بدحال کردو کے شہروں سے گاوں چلے جائیں اور انکے اقتدار کو آخری خطرہ بھی ختم ہوجائے۔ اسی طرح کی ایک ریپورٹ باجوہ کو بھی دی گئی تھی کہ عمران خان کی مقبولیت صرف 7 فیصد ہے اور اس بغلول نے سوچا کہ لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے۔ اسی طرح کی اگر رپورٹیں اگر آتی رہیں تو یہ کہنا ممکن ہے کہ لوگ واقعی دہاتوں کی طرف جانا شروع ہوجائیں گے یا پھر واقعی نظام لپیٹ دیں گے۔ کیونکہ آبادی ہے ہی اتنی زیادہ کہ ادھے لوگ دہاتوں میں بھی چلے جائیں تو پھر بھی باقی اتنے ہیں کہ ایک فیصد بھی باہر آگئے تو بچے گا کوئی نہیں۔


ایسے معاشی مظام کے اندر تحریکیں بڑی آسانی سے پروان چڑھتی ہیں کیونکہ زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ مگر کیونکہ فل حال انٹرنیٹ چل رہا ہے تو لوگ ابھی بھی کپل شرما شو دیکھ رہے ہوں گے اور انہیں ہوش اس وقت آئیگا جبکہ انکی فون کمپنی یعنی یوفون بھی اپنا بوریا بسترا گول کرلے گی۔ یوفون کی مثال اسلیے دی ہے کہ یہ پاکستانی موبائل کمپنی ہے اور اگر یہ بند ہوگئی تو وارد' زونگ اور ٹیلی نار تو ختم ہی سمجھیں۔

نظام لپیٹا جائے یا یہی افلاطون کے پٹھے مسلط رہیں مگر عوام کو چاہیے روزگار۔ اسلیے زراعت سے بہتر تو کوئی حل نہیں ہے۔ کیونکہ اوسطاً 6 سے 12 مہینے کے اندر اندر نئی فصل تیار ہوجاتی ہے اور اگر جانور رکھے جائیں تو وہ بھی 3 سے 6 ماہ میں اپنی پیداوار دینا شروع کردیتے ہیں۔ مرغیاں ضرور رکھیں مگر جلد پیداوار کے لیے خرگوش پالیں جو دنوں میں اپکو غزائی قلت سے باہر نکال سکتے ہیں۔ اسکی وجہ انکی افزائش نسل کی رفتار اور تعداد ہے اور ہر موسم میں انکی افزائش نسل ممکن ہے۔
رہ گئی بات ترقی کرنے کی تو روپے کی قدر کم ہونے کے باعث لوگ اس میں لین دین شاید نہ کریں اسی لیے ایک حل تو ہے بارٹر سسٹم جو کہ تاریخ انسانی کا سب سے پہلا معاشی ماڈل تھا یعنی اشیاء کے بدلے اشیاء مگر نئ کرنسی بھی متعارف کروائی جاسکتی ہے جسکی قیمت حکومت پاکستان طے کردے البتہ حکومت وہ ہو جو کہ مخلص ہو کیونکہ پی ڈی ایم جیسی حکومت کے ہوتے ہوئے میں بارٹر پر ہی جانا پسند کروں گا یا پھر سیدھا ڈالر یا سونے کو بطور کرنسی استعمال کرنا۔

خطے کے ممالک کی کرنسی بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں اسکی مانگ کچھ کم ہوتی ہے مگر روپے کے مقابلے میں اسکی قیمت بھی نہیں گرتی۔ مگر اسکے لیے سمگلنگ کرنا پڑے گی جسکا مشورہ میں نہیں دوں گا۔ اسلیے نہیں کے قانون ٹوٹنے کا خطرہ ہے کیونکہ قانون تو باقی ہے ہی نہیں۔ البتہ سمگلنگ کرکے آپکی زات کو تو فائدا ہوسکتا ہے مگر ملک کے اندر غزائی قلت ہوجائیگی۔ ہاں اگر آپ اپنے علاقے میں غزائی قلت ختم کردیں پھر آپ اپنا مال سرحد پار بھی بیج سکتے ہیں۔ اس صورت میں بھی ترجیح دیں گے ڈالر میں پیمنٹ لیں۔ لیکن اگر سرحد پار کرنسی میں بھی پیمنٹ لی جائے تو چلے گا۔

ایکسپورٹس تو بھول جائیں کیونکہ ایکسپورٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ ملکی بنکوں میں پیمنٹ لینا اور پی ڈی ایم کی حکومت کے ہوتے ہوئے بنک بھی دیوالیہ ہوں گے۔ اسکے علاوہ جب تک عوام انرجی کی ضروریات میں خود کفیل نہیں ہوتی تب تک عالمی سطح پر اپنی چیز کیسے بکے گی جبکہ اس سے سستی قیمت پر خطے کے ممالک بیچ رہے ہوں۔ اسکا حل یہ ہے کہ واپڈا کی بجلی کاٹ کر اپنا سولر سسٹم لگائیں' الیکٹرک گاڑی اور موٹرسائیکل یا سائیکل رکھیں کیونکہ آنے والے وقت میں بیٹری ٹیکنولوجی میں انقلاب آنے والا ہے جسکے بعد پیٹرول اور ڈیزل کی ویسے ہی چھٹی ہوجائیگی۔ فیکٹروں کی انرجی کی ضروریات بہت زیادہ ہوتی ہیں جنکا فوری حل تو ہے بند کردینا کیونکہ گھاٹے پر کون چیز پیدا کرے جبکہ اسکے خریدنے والا کوئی نہ ملے۔ اسلیے جتنا کام سولر سے چل سکتا ہے چلائیں اور باقی کمی بائیوگیس سے پوری کریں۔ اسکے بعد جو کمی ہے وہ ڈیزل یا واپڈا سے پوری کی جاسکتی ہے۔ کم از کم فیکٹری بچ سکتی ہے چاہے منافع کم بھی ہو۔

کسانوں کو خاص طور پر ڈیزل کا متبادل تلاش کرنا چاہیے۔ پودوں اور نامیادتی مادوں سے بھی تیل بنایا جاسکتا ہے جو ڈیزل کا متبادل ہے البتہ سولر سیل سے بھی ٹیوب ویل چل سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بائیو گیس بھی ایک متبادل ہے جس پر جتنا جلدی متنقل ہوا جائے اچھا ہے۔
 
Last edited by a moderator:

Siberite

Chief Minister (5k+ posts)
نیا معاشی ماڈل یہ ہے کہ ڈالر تو پاکستانیوں کو مل رہے ہیں مگر صرف جرنیلوں کو۔ مقصد ہے کہ عوامی تحریک کو کچلا جائے۔ ایکسپورٹس پاکستانی کی بلکل نیچے آگئی ہیں اور ختم ہوجائیں گی جبکہ بجلی' کھادیں اور دوسرے وسائل عوامی کی پہنچ سے دور ہوجائینگے۔ یہ معاشی تباہی اگر فوج تک آگئی تو یہ حکومت گر جائیگی مگر کیونکہ جرنیلوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں اسلیے انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہےکہ یہ حکومت کتنی تباہی مچا چکی ہے اور اس سے عوام کا کتنا نقصان ہوچکا ہے۔ اسکا حل یہ ہے کہ اب عوام بھی ڈالروں سے نیچے کی بات نہ کرے' فوج کو وردیاں چاہیں تو عوام ڈالر میں پیمنٹ لے۔ پرائیوٹ ادارہ کوئی بھی ہے جس سے فوج کوئی مال خریدتی ہے تو ڈالر میں پیمنٹ لے اور یہ دیں گے۔ اور کیپٹن سے نیچے کے لوگوں کو اگر ڈالر میں تنخواہیں نہ ملیں تو یہ کام نہیں کریں گے۔

نتیجہ یہ ہوگا کہ جرنیلوں کو جو ڈالر مل رہے ہیں ظاہر ہے کہ انکو تقسیم کرنے پڑِیں گے ورنہ انکے غیر قانونی احکام کوئی مانے گا نہیں لہزا مزید ڈالروں کی ڈیمانڈ کی جائیگی۔ وہ بھی مل جائیں گے اگر تب تک یہ باقی رہے لیکن وہ بھی کم پڑ جائیں گے کیونکہ ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔ یا تو پھر زمباوے کی طرح نوٹوں کی بوریاں بھر بھر کر لوگ انڈے خریدیں گے یا پھر سیدھا سونا یا پھر ڈالر پر لوگوں کو آنا پڑے گا۔ یہ تو اب معاشی ارسطووں کو سوچنا چاہیے تھا کہ مراعات ہی لینی تھیں تو اسکے لیے معیشت خراب کرنا کیوں ضروری تھا۔

امریکی ڈالر ملتے رہے تو یہ جرنل اسی طرح سرکس لگا کررکھیں گے اور عملی طور پر قانون تو ختم ہوچکا ہے باوجود اسکے کے کچھ لوگ سپریم کورٹ کے ٹرک کی بتی دکھا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان ججوں کے بھی اساسے ملک سے باہر ہیں بشمول انکی اولادوں کے سوائے چند ایک کے۔

ویسے عام پاکستانی ناک رگڑتا رہے تو اسے ویزا نہیں ملتا مگر جتنے لفنٹر ہیں انہیں بڑی عزت سے ویزا ملتا ہے اور انکے خلاف کوئی معاشی بدعنوانی کے کیس بھی نہیں بنتے۔ مگر خیر' پاکستان میں رہتے ہوِئے ایک متبادل معاشی نظام پر جانا پڑے گا اور یہ عوام خود جاسکتی ہے۔


جب اصل معاشی بدحالی شروع ہوگی تو لوگ مجبورا گاوں دہات کا رخ کریں گے اور حقیقتا شہروں پر دباو کم ہوجائیگا۔ یہ بھی ایک پالیسی لگتی ہے کہ عوام کو اتنا معاشی بدحال کردو کے شہروں سے گاوں چلے جائیں اور انکے اقتدار کو آخری خطرہ بھی ختم ہوجائے۔ اسی طرح کی ایک ریپورٹ باجوہ کو بھی دی گئی تھی کہ عمران خان کی مقبولیت صرف 7 فیصد ہے اور اس بغلول نے سوچا کہ لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے۔ اسی طرح کی اگر رپورٹیں اگر آتی رہیں تو یہ کہنا ممکن ہے کہ لوگ واقعی دہاتوں کی طرف جانا شروع ہوجائیں گے یا پھر واقعی نظام لپیٹ دیں گے۔ کیونکہ آبادی ہے ہی اتنی زیادہ کہ ادھے لوگ دہاتوں میں بھی چلے جائیں تو پھر بھی باقی اتنے ہیں کہ ایک فیصد بھی باہر آگئے تو بچے گا کوئی نہیں۔


ایسے معاشی مظام کے اندر تحریکیں بڑی آسانی سے پروان چڑھتی ہیں کیونکہ زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ مگر کیونکہ فل حال انٹرنیٹ چل رہا ہے تو لوگ ابھی بھی کپل شرما شو دیکھ رہے ہوں گے اور انہیں ہوش اس وقت آئیگا جبکہ انکی فون کمپنی یعنی یوفون بھی اپنا بوریا بسترا گول کرلے گی۔ یوفون کی مثال اسلیے دی ہے کہ یہ پاکستانی موبائل کمپنی ہے اور اگر یہ بند ہوگئی تو وارد' زونگ اور ٹیلی نار تو ختم ہی سمجھیں۔

نظام لپیٹا جائے یا یہی افلاطون کے پٹھے مسلط رہیں مگر عوام کو چاہیے روزگار۔ اسلیے زراعت سے بہتر تو کوئی حل نہیں ہے۔ کیونکہ اوسطاً 6 سے 12 مہینے کے اندر اندر نئی فصل تیار ہوجاتی ہے اور اگر جانور رکھے جائیں تو وہ بھی 3 سے 6 ماہ میں اپنی پیداوار دینا شروع کردیتے ہیں۔ مرغیاں ضرور رکھیں مگر جلد پیداوار کے لیے خرگوش پالیں جو دنوں میں اپکو غزائی قلت سے باہر نکال سکتے ہیں۔ اسکی وجہ انکی افزائش نسل کی رفتار اور تعداد ہے اور ہر موسم میں انکی افزائش نسل ممکن ہے۔
رہ گئی بات ترقی کرنے کی تو روپے کی قدر کم ہونے کے باعث لوگ اس میں لین دین شاید نہ کریں اسی لیے ایک حل تو ہے بارٹر سسٹم جو کہ تاریخ انسانی کا سب سے پہلا معاشی ماڈل تھا یعنی اشیاء کے بدلے اشیاء مگر نئ کرنسی بھی متعارف کروائی جاسکتی ہے جسکی قیمت حکومت پاکستان طے کردے البتہ حکومت وہ ہو جو کہ مخلص ہو کیونکہ پی ڈی ایم جیسی حکومت کے ہوتے ہوئے میں بارٹر پر ہی جانا پسند کروں گا یا پھر سیدھا ڈالر یا سونے کو بطور کرنسی استعمال کرنا۔

خطے کے ممالک کی کرنسی بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں اسکی مانگ کچھ کم ہوتی ہے مگر روپے کے مقابلے میں اسکی قیمت بھی نہیں گرتی۔ مگر اسکے لیے سمگلنگ کرنا پڑے گی جسکا مشورہ میں نہیں دوں گا۔ اسلیے نہیں کے قانون ٹوٹنے کا خطرہ ہے کیونکہ قانون تو باقی ہے ہی نہیں۔ البتہ سمگلنگ کرکے آپکی زات کو تو فائدا ہوسکتا ہے مگر ملک کے اندر غزائی قلت ہوجائیگی۔ ہاں اگر آپ اپنے علاقے میں غزائی قلت ختم کردیں پھر آپ اپنا مال سرحد پار بھی بیج سکتے ہیں۔ اس صورت میں بھی ترجیح دیں گے ڈالر میں پیمنٹ لیں۔ لیکن اگر سرحد پار کرنسی میں بھی پیمنٹ لی جائے تو چلے گا۔

ایکسپورٹس تو بھول جائیں کیونکہ ایکسپورٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ ملکی بنکوں میں پیمنٹ لینا اور پی ڈی ایم کی حکومت کے ہوتے ہوئے بنک بھی دیوالیہ ہوں گے۔ اسکے علاوہ جب تک عوام انرجی کی ضروریات میں خود کفیل نہیں ہوتی تب تک عالمی سطح پر اپنی چیز کیسے بکے گی جبکہ اس سے سستی قیمت پر خطے کے ممالک بیچ رہے ہوں۔ اسکا حل یہ ہے کہ واپڈا کی بجلی کاٹ کر اپنا سولر سسٹم لگائیں' الیکٹرک گاڑی اور موٹرسائیکل یا سائیکل رکھیں کیونکہ آنے والے وقت میں بیٹری ٹیکنولوجی میں انقلاب آنے والا ہے جسکے بعد پیٹرول اور ڈیزل کی ویسے ہی چھٹی ہوجائیگی۔ فیکٹروں کی انرجی کی ضروریات بہت زیادہ ہوتی ہیں جنکا فوری حل تو ہے بند کردینا کیونکہ گھاٹے پر کون چیز پیدا کرے جبکہ اسکے خریدنے والا کوئی نہ ملے۔ اسلیے جتنا کام سولر سے چل سکتا ہے چلائیں اور باقی کمی بائیوگیس سے پوری کریں۔ اسکے بعد جو کمی ہے وہ ڈیزل یا واپڈا سے پوری کی جاسکتی ہے۔ کم از کم فیکٹری بچ سکتی ہے چاہے منافع کم بھی ہو۔

کسانوں کو خاص طور پر ڈیزل کا متبادل تلاش کرنا چاہیے۔ پودوں اور نامیادتی مادوں سے بھی تیل بنایا جاسکتا ہے جو ڈیزل کا متبادل ہے البتہ سولر سیل سے بھی ٹیوب ویل چل سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بائیو گیس بھی ایک متبادل ہے جس پر جتنا جلدی متنقل ہوا جائے اچھا ہے۔



😆 😆 😆 😆

 

Awan S

Chief Minister (5k+ posts)
اس میں محاشی ماڈل کہاں ہے جو اس تھریڈ کا ٹائٹل ہے ؟ ملک کیسے چلے گا اس کے لئے بہت بڑی رقم درکار ہے اور پرانے قرضے کیسے واپس کئے جائنگے اس کا حل چاہئے -
Siberite
ranaji
xshadow
 

AbbuJee

Chief Minister (5k+ posts)
بھائی پاکستان 1 سال میں ایشئن ٹائیگر بن گیا ہے اور امیر المعمنین جناب نواز لعل نہرو لندن سے تشریف لائیں گےتو امریکی صدر بائیڈن ایئر پورٹ پر استقبار کرے گا اور پاکستان سے امداد اور قرضے کی اپیل کرے گا
 

MHAMZA

Minister (2k+ posts)
اے الله ہم بہت گناہگار ہیں ہمیں معاف فرما ۔ اے الله ہمارے وہ گناہ بلخصوص معاف فرما جن کی وجہ سے ظالم ہم پر مصلط ہیں۔ آمین​
 

tahirmajid

Chief Minister (5k+ posts)
Oh My God, kitna farigh aadmi hay, itna lamba lecture likh dala or kaam ki baat aik bhi nahi
 

xshadow

Minister (2k+ posts)
اس میں محاشی ماڈل کہاں ہے جو اس تھریڈ کا ٹائٹل ہے ؟ ملک کیسے چلے گا اس کے لئے بہت بڑی رقم درکار ہے اور پرانے قرضے کیسے واپس کئے جائنگے اس کا حل چاہئے -
Siberite
ranaji
xshadow
او بھائی' نیا معاشی ماڈل آپکے سامنے ہے۔
جب ڈالرز صرف جرنیلوں کو آرہے ہیں' تو ظاہر ہے کہ حکومت کو کوئی پیکج نہیں ملے گا یعنی ملک دیوالیہ۔
ایک دیوالیہ ملک کے اساسے بیچے جاتے ہیں نہ کے اس سے قرض واپس مانگا جاتا ہے۔
ایسی صورت میں کوئی معاشی پالیسی بنائی ہی نہیں جاسکتی کیونکہ اختیار تو حکومت کے پاس ہے ہی نہیں۔
آپ یا تو مزاق کررہے ہیں یا پھر نیپال رہتے ہیں جسے اتنی بنیادی باتوں کا پتا نہیں ہے۔

میں نے جو حل بتائے ہیں وہ عام آدمی کے لحاظ سے بتائے ہیں کیونکہ پی ڈی ایم جیسی حکومت ہو تو معاشی پالیسی نہیں چل سکتی سوائے بکھاریوں کی طرح ایک ملک سے دوسرے ملک۔ ایسی صورت میں اپنی مدد آپ کی جاتی ہے تاکہ ملکی معیشت کے برے اثرات سے بچا جاسکے۔

ہاں جب یہ افلاطون کے پٹھے اپنا شوق پورا کرلیں یا پھر عوامی دباو انہیں نکال باہر کرے گا تو پھر معاشی پالیس بھی بن سکتی ہے۔ فل حال تو ملک میں خانہ جنگی اسلیے کروائی جارہی ہے تاکہ آئی ایم سے کہا جاسکے کہ ہم کوئی قرض ادا نہیں کرسکتے۔

اور کیونکہ آئی ایم امریکی اور یورپین اقوام کے زیر اثر ہے تو اس بہانے کو مان بھی لیں گے۔ کیونکہ یہ ممالک بھی نہیں چاہتے کہ ملک میں حکومت بدلے اور کوئی عوامی حکومت آئے جو انکو انکار کرسکے۔
 

xshadow

Minister (2k+ posts)
Oh My God, kitna farigh aadmi hay, itna lamba lecture likh dala or kaam ki baat aik bhi nahi
فکر نہ کرو' انقریب بڑا فارغ وقت ملے گا جب انٹرنیٹ بند ہوگا۔
یا پھر کیبل دیکھنا بیٹھ کر اور سننا کہ کیسے عمران خان ہر فساد کی جڑ ہے۔
پھر کیبل بھی بند ہوگی اور تم عمران سیرز پڑھ لینا اور خوابوں خیالوں میں ہی دنیا فتح کرلینا۔
اور جب ہوش آئے نہ پھر نکلنا کام پر کیونکہ راشن نہیں ملے گا دکانوں پہ۔
 

Awan S

Chief Minister (5k+ posts)
او بھائی' نیا معاشی ماڈل آپکے سامنے ہے۔
جب ڈالرز صرف جرنیلوں کو آرہے ہیں' تو ظاہر ہے کہ حکومت کو کوئی پیکج نہیں ملے گا یعنی ملک دیوالیہ۔
ایک دیوالیہ ملک کے اساسے بیچے جاتے ہیں نہ کے اس سے قرض واپس مانگا جاتا ہے۔
ایسی صورت میں کوئی معاشی پالیسی بنائی ہی نہیں جاسکتی کیونکہ اختیار تو حکومت کے پاس ہے ہی نہیں۔
آپ یا تو مزاق کررہے ہیں یا پھر نیپال رہتے ہیں جسے اتنی بنیادی باتوں کا پتا نہیں ہے۔

میں نے جو حل بتائے ہیں وہ عام آدمی کے لحاظ سے بتائے ہیں کیونکہ پی ڈی ایم جیسی حکومت ہو تو معاشی پالیسی نہیں چل سکتی سوائے بکھاریوں کی طرح ایک ملک سے دوسرے ملک۔ ایسی صورت میں اپنی مدد آپ کی جاتی ہے تاکہ ملکی معیشت کے برے اثرات سے بچا جاسکے۔

ہاں جب یہ افلاطون کے پٹھے اپنا شوق پورا کرلیں یا پھر عوامی دباو انہیں نکال باہر کرے گا تو پھر معاشی پالیس بھی بن سکتی ہے۔ فل حال تو ملک میں خانہ جنگی اسلیے کروائی جارہی ہے تاکہ آئی ایم سے کہا جاسکے کہ ہم کوئی قرض ادا نہیں کرسکتے۔

اور کیونکہ آئی ایم امریکی اور یورپین اقوام کے زیر اثر ہے تو اس بہانے کو مان بھی لیں گے۔ کیونکہ یہ ممالک بھی نہیں چاہتے کہ ملک میں حکومت بدلے اور کوئی عوامی حکومت آئے جو انکو انکار کرسکے۔
ملک دیوالیہ نہیں ہو رہا تو آپ کو جو بھی حل دینا ہے یہ فرض کر کے دینا ہو گا کہ ملک دیوالیہ نہیں ہو گا - ہمارے ساتھ چین بیٹھا ہے جس کے بہت سے مفاد پاکستان کے ساتھ جڑے ہے وہ پاکستان کو کبھی بھی دیوالیہ نہیں ہونے دے گا - فلحال تو ایک آدھ مہینے میں آئی ایم ایف سے ایگریمنٹ ہو جائے گا جس کے بھد دوست ممالک سے بھی پانچ چھ ارب ڈالر مل جائیں گے جس سے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر اسٹیٹ بینک کے پاس دس ارب ڈالر اور مجموہی یہ سولہ ارب ڈالر کے قریب پوھنچ جائیں گے - اس سے ڈالر مستحکم ہو جائے گا اور ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہو جائے گا - یہ سب مگر ایک عارضی حل ہے - جب پرانے قرضے واپس کرنے کی وجہ سے زر مبادلہ کے ذخائر پھر کم ہو کر موجودہ چار ارب ڈالر پر چلے گئے تو پھر ہم کیا کریں گے کیا دوست ممالک ہر چھ مہینے بھد ہماری مدد کریں گے ؟ میں ایسے ہی ایک حل کی بات کر رہا ہوں جس سے ہم قرض بھی واپس کر سکیں اور ملک بھی چل سکے - کیا کوئی ایسا حل ہے آپ کے پاس ؟ کوئی ایسا محاشی ماڈل ؟
 

xshadow

Minister (2k+ posts)
ملک دیوالیہ نہیں ہو رہا تو آپ کو جو بھی حل دینا ہے یہ فرض کر کے دینا ہو گا کہ ملک دیوالیہ نہیں ہو گا - ہمارے ساتھ چین بیٹھا ہے جس کے بہت سے مفاد پاکستان کے ساتھ جڑے ہے وہ پاکستان کو کبھی بھی دیوالیہ نہیں ہونے دے گا - فلحال تو ایک آدھ مہینے میں آئی ایم ایف سے ایگریمنٹ ہو جائے گا جس کے بھد دوست ممالک سے بھی پانچ چھ ارب ڈالر مل جائیں گے جس سے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر اسٹیٹ بینک کے پاس دس ارب ڈالر اور مجموہی یہ سولہ ارب ڈالر کے قریب پوھنچ جائیں گے - اس سے ڈالر مستحکم ہو جائے گا اور ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہو جائے گا - یہ سب مگر ایک عارضی حل ہے - جب پرانے قرضے واپس کرنے کی وجہ سے زر مبادلہ کے ذخائر پھر کم ہو کر موجودہ چار ارب ڈالر پر چلے گئے تو پھر ہم کیا کریں گے کیا دوست ممالک ہر چھ مہینے بھد ہماری مدد کریں گے ؟ میں ایسے ہی ایک حل کی بات کر رہا ہوں جس سے ہم قرض بھی واپس کر سکیں اور ملک بھی چل سکے - کیا کوئی ایسا حل ہے آپ کے پاس ؟ کوئی ایسا محاشی ماڈل ؟
یار اپکی مثال اس شخص کی سی ہے جو بار بار گناہ کرکے طوبہ کرنے آجاتا ہے۔
اللہ تو معاف کرنے والا ہے اور آپکو پھر موقع دے دیتا ہے۔
یہی سلسلہ رمضان سے اگلے رمضان تک چلتا رہتا ہے۔
مگر اس بار اگلا رمضان بڑا دور ہے پاکستانی معیشت کے لیے۔
مجھے تو اسی رمضان میں معافی ملتی نظر نہیں آرہی۔
کوشش کرکے دیکھ لیں کیونکہ امریکی امداد تو آئیگی نہیں کیونکہ اسکی معیشت ہچکولے کھارہی ہے۔ وہاں سے تو ایک ایک ڈالر کا حساب رکھا جاتا ہے تو پاکستان کو کیا ملے گا۔
آئی ایم ایف ہو یا کوئی بھی قرض دینے والا' اس سے امداد مل سکتی ہے مگر قرض وہ اسے دیگا جو اسکو اتار سکے یعنی کام کاج کرتا ہو۔ پاکستانی معیشت جیسی گہری کھائی میں پھینکی جاچکی ہے اسکے بعد یہ ممکن نہیں لگتا کہ ملکی خرچ بھی پورا کرسکے کجا کہ قرضے ادا کرنا۔ یہی آئی ایم ایف کا پلان تھا۔
کسی کو ابھی بھی آئی ایم ایف سے امید ہے تو اپنا شوق پورا کرلے مگر آئی ایم ایف پر خود دباو ہوگا کہ کیسے ایک ایسے ملک کو پیسے دے رہا ہے جس نے اپنی سونے کا انڈا دینے والی مرغی یعنی ٹیکسٹائل کو برباد کردیا اور اب زراعت کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔
جو ملک غزائی قلت کا شکار ہونے لگا ہے اس ملک کو آئی ایم ایف ایک ٹکا نہیں دے گا۔
اب بہانہ ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ تو بنانا ہے اسلیے مدا ڈال دیا کہ عرب ممالک چند ٹکے دیں تاکہ آئی ایم ایف کے اندر اتنی اخلاقی ہمت پیدا ہوسکے ڈوبتے ہوئے ملک کو قرض دینے کی۔
کوئی پہلی بار پاکستان کو ضرورت ہوتی نہ پیسوں کی تو بھی وجہ سمجھ آتی تھی۔ یہاں پاکستان نے ساری کجھوریں نچوڑ لی ہیں۔ اسلیے کہیں سے کچھ مل بھی گیا تو چوہارے ہی ملیں گے جس سے کچھ نہیں بنے گا۔
اسی لیے اپکو اسی ماڈل پر واپس آنا پڑے گا۔
امریکہ کو خطے میں اپنے مفادات سے غرض ہے جو عمران خان پورے نہیں ہونے دے رہا تھا۔ اب عمران خان نہ بھی رہے تو عوام اتنی سیخ پا ہوچکی ہے کہ کوئی عوامی لیڈر آگیا تو امریکہ کی دم پر پاوں اجائے گا۔ کیونکہ عوامی لیڈر لانے سے روکنے کے ہی تو ڈالر مل رہے ہیں جرنیلوں کو۔
اسی لیے جرنیلوں کے ڈالر جب تک بند نہیں ہوں گے تب تک یہی سرکس چلتا رہے گا چاہے کوئی کتنا ہی خود کو دھوکا دیتا رہے۔

ہاں جیسے مین نے تفصیل سے بتایا کہ اب ایک متوازی معیشت یا پیرالل اکانمی بنانی پڑے گی جس میں عوام مضبوط ہو۔ نجی کمپنیاں مضبوط ہوں جو فوج کو ائینہ دکھا سکیں اور وقت پڑنے پر عسکری طور پر بھی نپٹ سکیں۔
یعنی خانہ جنگی ہوئے بغیر اب یہ مسئلہ حل ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا۔
اللہ تعالہ کوئی موجزہ فرمادے تو آپ بھی ہاتھ اٹھائیں اور میں بھی۔ معافی تو مل جائیگی مگر مقام اسوقت ملے گا جب میں اور آپ میدان عمل میں نکلیں گے۔
صرف معافی چاہیے تو جائیں اپنے پاس کے گاوں میں' کچھ بھیڑ بکریاں پالیں اور کچھ خرگوش' اور پھر مرغیاں۔ اور اگائیں اپنی گندم۔ میں نے بھی تو یہی حل دیا ہے۔ مارا ماری کی ترغیب تو میں نہیں نہیں دلائی کیونکہ اگر ابھی تک آپ ائی ایم ایف کی آس میں بیٹھے ہیں تو میدان عمل میں نکلنا آپ کے لیے تو مشکل نظر آتا ہے۔
آگے آپکی مرضی۔
 

tahirmajid

Chief Minister (5k+ posts)
فکر نہ کرو' انقریب بڑا فارغ وقت ملے گا جب انٹرنیٹ بند ہوگا۔
یا پھر کیبل دیکھنا بیٹھ کر اور سننا کہ کیسے عمران خان ہر فساد کی جڑ ہے۔
پھر کیبل بھی بند ہوگی اور تم عمران سیرز پڑھ لینا اور خوابوں خیالوں میں ہی دنیا فتح کرلینا۔
اور جب ہوش آئے نہ پھر نکلنا کام پر کیونکہ راشن نہیں ملے گا دکانوں پہ۔
ab tum jaisey gadho se kon behs karey