
ٹھٹہ: وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹہ کے قریب نامعلوم افراد کی جانب سے حملہ کیا گیا تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما کھیئل داس کوہستانی ٹھٹہ سے کراچی جا رہے تھے کہ اسی دوران کچھ شرپسندوں نے ان کی گاڑی پر حملہ کر دیا۔ وزیر مملکت نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سجاول کی جانب روانہ تھے کہ ایک قوم پرست جماعت کے درجن بھر کارکنان نے اچانک ان کی گاڑی پر حملہ کیا، جن کے ہاتھوں میں پارٹی کے جھنڈے تھے اور وہ کینالوں کی تعمیر کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔
کھیئل داس کوہستانی نے کہا کہ جیسے ہی حملہ کیا گیا، ان کے ڈرائیور نے فوراً گاڑی نکالی، تاہم حملہ آوروں نے ان کے قافلے میں موجود دیگر گاڑیوں پر بھی حملہ کیا۔ وزیر مملکت نے بتایا کہ حملے کے دوران گاڑیوں پر پتھراؤ اور ڈنڈوں سے حملے کیے گئے، جس کے نتیجے میں ان کے کچھ ساتھی زخمی ہو گئے اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔
کھیئل داس نے کہا کہ یہ حملہ سوچی سمجھی سازش کا حصہ تھا جس کا مقصد انہیں نقصان پہنچانا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر مملکت کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عوامی نمائندوں پر حملے ناقابل برداشت ہیں۔ انہوں نے وزیر مملکت سے ٹیلیفونک رابطہ کر کے ہمدردی کا اظہار کیا اور واقعے کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس حملے میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بھی اس حملے کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی سیکریٹری داخلہ سے رپورٹ طلب کی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے رابطہ کیا اور واقعہ کی تفصیلات معلوم کی ہیں۔ عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ عوامی نمائندوں پر حملے ناقابل برداشت ہیں اور سندھ حکومت سے درخواست کی کہ وہ اس واقعہ کی مکمل اور شفاف تحقیقات کرے اور ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
مسلم لیگ (ن) سندھ کے ترجمان اسد عثمانی نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کھیئل داس کوہستانی پر حملہ ٹھٹہ سے کراچی جاتے ہوئے کیا گیا، تاہم ان کے قافلے میں موجود پولیس نے بروقت کارروائی کر کے حملے کو ناکام بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو اس حملے سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور پاکستان مسلم لیگ ہاؤس سندھ میں تمام رہنماؤں کو طلب کر لیا گیا ہے تاکہ فوری طور پر حکمت عملی طے کی جائے اور اس معاملے پر پریس کانفرنس کی جائے۔
اس حملے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور کارکنوں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور اس کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔