ونی ہونے والی لڑکی کے باپ کی خودکشی، پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر لیا

screenshot_1741620036998.png


ڈیرہ اسماعیل خان: خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک شخص نے مبینہ طور پر زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کر لی، جب مقامی سطح پر منعقد ایک جرگے نے زبردستی ان کی 13 سالہ بیٹی کو ونی کرنے کا حکم دیا۔ واقعہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک دور افتادہ علاقے تھانہ پہاڑ پور کی حدود میں پیش آیا ہے۔

حادثے کے بعد ایک وائس پیغام سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، جس میں عادل نامی شخص نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔ پولیس کے مطابق، یہ پیغام عادل نے خودکشی سے پہلے ریکارڈ کیا تھا۔ وائس پیغام میں عادل نے بتایا کہ ان کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، اور وہ پیشے کے لحاظ سے حجام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے علاقے میں ایک جرگے نے ان کی 13 سالہ بیٹی کو ونی کرنے کا حکم دیا، جس کے سامنے وہ بے بس ہیں۔ عادل نے کہا کہ وہ اپنی زندگی بیٹی کے لیے قربان کر رہے ہیں۔

وائس پیغام میں عادل نے ملزمان کے نام بھی لیے اور اپیل کی کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کو بچنا نہیں چاہیے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں پہاڑ پور کے ایس پی گوہر خان نے عادل کی وائس پیغام کی تصدیق کی اور بتایا کہ سوشل میڈیا پر وائرل پیغام پر پولیس حرکت میں آ گئی۔ پولیس کے مطابق، چند دن پہلے شادی کی ایک تقریب کے دوران عادل کے بھانجے کو ایک لڑکی کے ساتھ نازیبا حرکات کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ اس معاملے پر جرگہ بٹھایا گیا، جس نے عادل کے بھانجے کو 6 لاکھ روپے جرمانہ کیا۔ تاہم، لڑکی کے باپ نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے جرگے سے عادل کی 13 سالہ بیٹی کو ونی کرنے کا حکم دلوایا۔ عادل سے زبردستی تحریری اقرار نامہ بھی لیا گیا۔

عادل نے بے بسی کی حالت میں ایک وائس پیغام میں ملزمان کے خلاف کارروائی کی اپیل کرتے ہوئے زہریلی گولیاں کھائیں اور مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔ سوشل میڈیا پر خودکشی کرنے والے شخص کا آڈیو وائرل ہونے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان پولیس حرکت میں آ گئی، اور ایف آئی آر درج کرکے کارروائی شروع کر دی۔

پولیس نے بتایا کہ ایف آئی آر میں ملزمان کو نامزد کرکے مرکزی ملزم سمیت دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں جرگے کے ذریعے ونی کرکے کمسن بچی کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کرانے والا غلام فرید بھی شامل ہے۔ پولیس نے بتایا کہ ونی ہونے والی کمسن بچی کو بھی بازیاب کرا لیا گیا ہے، اور اسے اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے کہا کہ کیس میں نامزد دیگر ملزمان کی گرفتاری بھی جلد کی جائے گی۔

یہ واقعہ سماجی میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پیدا کر گیا ہے۔ لوگوں نے غیر قانونی جرگوں اور ونی جیسی غیر انسانی رسومات کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ کئی سماجی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

ونی کی رسم، جو پاکستان کے کچھ علاقوں میں اب بھی رائج ہے، کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔ اس رسم کے تحت لڑکیوں کو تنازعات کے حل کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، جسے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

پولیس نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس معاملے میں سخت قانونی کارروائی کرے گی اور باقی ماندہ ملزمان کو بھی جلد از جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی جرگوں اور ونی جیسی رسومات کے خلاف سخت قوانین بنائے اور ان کے خلاف موثر اقدامات کرے۔

یہ واقعہ سماجی ناانصافی اور غیر قانونی روایات کے خلاف جنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ حکومت اس معاملے میں فوری اور شفاف کارروائی کرے گی تاکہ ایسے واقعات کو مستقبل میں روکا جا سکے۔
 

Aliimran1

Prime Minister (20k+ posts)

Police —— NOORON MURDARION Aur MUNIRAY DALAY 🐖🐷🐍💩ko 9 May kay Incident mein Griftar Thousands of Innocent Awam aur 26 November mein 100s of Innocents Awam ky Qatal mein kab GRIFTAR karay gi ? 🔥🔥🔥

 

Back
Top