ووٹنگ کو حرام کہنے والے سن لیں۔

xshadow

Minister (2k+ posts)
اکثر لوگ لمبی چوڑی پوسٹ پڑھنے سے کتراتے ہیں اسلیے تفصیل میں جانے سے پہلے ہی میں مدا بیان کردوں تاکہ لوگ اپنے اپنے کاموں پر واپس آجائیں۔ ووٹنگ حرام نہیں ہے۔۔


ووٹنگ کو حرام کرار دینے والوں میں آج کل سب سے چوٹی کے دانشوروں میں ہے ساحل عدیم کا نام۔ ساحل عدیم کے ہی من پسند عالم مرحوم مولانا اسحاق صاحب خود بھی ووٹنگ کے حق میں تھے۔ اب ساحل صاحب کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی عالم غلطی کرسکتا ہے۔ یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ ساحل عدیم بھی غلطی کرسکتا ہے۔ ساحل صاحب نے ویسے زیادہ تر جو اعتراض کیے ہیں انکی بنیاد ہے مغربی جمہوریت جہاں غیر اسلامی اور غیر فطری قوانین بن رہے ہیں جیسے ہم جنس پرستی وغیرہ تو بھول جاتے ہیں کہ دو بڑی مثالیں موجود ہیں ایران اور ترکی جہاں پر ووٹنگ ہوتی ہے جہاں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ہم جنس پرستی جیسا قانون پاس ہوسکے۔ پاکستان میں یہ جھک ماری گئی تھی خاقان عباسی کی حکومت کے آخری دنوں میں جب ختم نبوت کے قانون پر بھی حملہ کیا گیا تھا جسکا پہلے دفاع کیا گیا اور نون لیگ کتنی اسلامی یا عوامی جماعت ہے آج یہ بھی سب کے سامنے ہے اسلیے یہ مثال بھی غلط ہے۔ خالصتا عوامی رائے کا احترام کرنے کے بعد اگر کوئی غیر اسلامی قانون بنے تو ساحل عدیم کی بات میں جان پڑ سکتی ہے۔ جہاں تک بات ہے ایران اور ترکی میں جمہوریت تو یقیناً وہاں بھی 100 فیصد اسلامی قوانین رائج ہیں ہیں۔ اسکی وجہ انکی قوم میں اسلام دوری ہے۔ اسکے باوجود آج ترکی زیادہ اسلامی ہے بہ نسبت اس دور کے جبکہ عوامی حکومت نہیں تھی۔ ایران کی جہاں تک بات ہے تو وہ اہل تشہیہ حضرات ہیں جو ویسے ہی کبھی قرآن کی حفاظت پر شک کردیتے ہیں کبھی حضرت عمر کے ایمان پر تو بہت سارے اسلامی نقاط جو حضرت عمر کے دور کے ہیں انہیں ویسے ہی نہیں مانتے۔ اسکے باوجود جتنا عوامی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اس حساب سے اتنا اسلام انکی حکومت میں ضرور ہے۔ باقی کوئی ایسا مسلم ملک نہیں جہاں عوامی رائے کا صحیع معنوں میں احترام ہو اسلیے کوئی مثال بھی موجود نہیں ہے۔

اسکے علاوہ ڈاکٹر اسرار کا نام ہیں جنہیں اللہ تعالہ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ ڈاکٹر اسرار کی جہاں تک بات ہے تو انہوں نے بھی ووٹنگ کو مطلقاً حرام نہیں کہا۔ اگر انکا کوئی بیان ایسا ہے تو میںرے علم میں نہیں ہے۔ لیکن فرض کرلیں کے انہوں نے ایسا کہا بھی ہے تو یہ بھی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ ڈاکٹر اسرار خود بھی اپنے آپ کو کوئی مفتی نہیں کہتے تھے۔ حالانکہ مفتی بھی غلط فتوے دے سکتے ہیں اور یہ بھی کوئی دلیل نہیں ہے کہ کوئی فتوہ دے کر ووٹنگ کو حرام کرار دیدے۔ ڈاکٹر اسرار کام زیادہ تر رہا ہے تہزیبوں کے تصادم پر جو انہوں نے تاریخ کے تناظر میں جاری رکھا۔ انکا نظریہ تھا کہ انتخابی نہیں بلکہ انقلابی سیاست جبکہ انکا جو حکومتی ڈھانچا جوانہوں نے متبادل کے طور پر یا کہیں کہ اسلام حکومتی نظام جو نقشہ انہوں نے پیش کیا اسکے مطابق مزہبی جماعتیں پارلیمنٹ میں آئیں جنہیں عوام منتخب کریں۔ یہ بات اپنے آپ میں ایک تضاد رکھتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب بات انقلاب کی کرتے تھے مگر اسکے نتیجے میں ہونا انتخاب ہی تھا۔ یقینا اس پر بحث ہوسکتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب جس انتخاب کی بات کرتے تھے وہ اس انتخاب سے مختلف ہے جسکے مطابق ایک آدمی ایک ووٹ کا حق رکھتا ہے۔ چلیں یہ بھی مان لیا کہ ایک آدمی کو اسکی ہلیت کے مطابق ووٹ کا حق ہو تو بھی اعتراض تو ووٹنگ کے نظام پر ہوا نہ کہ مطلقاً ووٹنگ پر۔ یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ کوئی نظام ہو جس میں ووٹر کی اہلیت سخت ہو یا نرم' آخر میں تو اسکی رائے ہی لی جائیگی نہ۔ اتنی سی بات کو آخر کیوں اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ ووٹنگ کے عمل کو ہی حرام کرار دے دی جاتا ہے۔

باوجود کوشش کے میں اختصار سے بیان نہیں کرسکا جو میں چاہتا تھا لیکن اگر ابھی تک آپ میرے ساتھ ہیں تو اب میں آپکو تاریخی پس منظر میں لاکر دلائل دینا چاہتا ہوں جو بڑی وضاحت سے ووٹنگ یا رائے عامہ کے حلال ہونے پر دلیل دیں گے۔
آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے وسال سے پہلے کسی کو خلفیہ نامزد نہیں فرمایا۔ کرسکتے تھے نہ' جھڑا ہی ختم ہوجاتا۔ کیا اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی چاہتے تھے کہ لوگ اپنا خلفیہ خود منتخب کریں۔ فرض کریں اگر کوئی جماعت بھی بنتی ہے جو خلیفہ کو نامزد یا منتخب کرنے کا اختیار رکھتی ہے تو اس جماعت میں شمولیت کا میعار بھی تو کسی رائے سے ہی لیا جائیگا نہ کہ وہاں بھی فرشتوں کے اترنے کا انتظار کیا جائیگا۔
دوسری دلیل میں پیش کررہا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فورا بعد پیدا ہونے والے حالات پر مبنی ہے۔ مہاجرین اور انصار میں تنازعہ پیدا ہوگیا کہ خلیفہ کون ہوگا جبکہ انصار اس بات پر معصر تھے کہ خلافہ انصار میں سے ہونا چاہیے۔ اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالہ نے آگے بڑھ کر بلند آواز سے دو لوگوں کو نامزد کیا جن میں ایک نام انصاری تھا اور دوسرا نام تھا حضرت عمر کا۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ ان میں سے اپنا خلیفہ چن لو۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے کس کو کہا تھا کہ ان دونوں امیدواران میں سے کسی کو منتخب کرنے کا؟ عوام کے علاوہ کون تھا جس سے حضرت ابو بکر مخاطب تھے؟ خیر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر ابوبکر سے ہاتھ نڑھانے کا کہا جس پر حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ آگے بڑہایا جیسے حضرت عمر نے پکڑ کر بلند آواز سے فرمایا کہ آج سے میرے خلیفہ حضرت ابوبکر ہیں۔ اس پر سارے مجمے نے یک زبان ہوکر حضرت ابوبکر کو خلیفہ تسلیم کرلیا۔

اب کوئی میرے علم میں اضافہ کرے کہ اور انتخاب یا عام انتخاب کسی کہتے ہیں؟ کیا آج بیس کروڑ چھوڑیں' ایک علاقے کے سارے لوگوں سے ہاتھ کھڑا کروا کر رائے لی جائے یا پھر پرچی پر ان کی رائے لی جائے جسے بعد میں گنا بھی جاسکے۔ کونسا طریقہ زیادہ قابل عمل ہے؟ یقینا پرچی ہی وہ طریقہ ہے سوائے اسکے کہ ساحل عدیم صاحب کوئی نئی جدد لیکر آنا چاہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراض کرنے والوں کو بھی آج یقینا پتا چل گیا ہوگا کہ کون یہ لانا چاہتا تھا اور کون اصل میں اسکا مخالف تھا جو کہ جدید طریقے سے ووٹنگ کروانے کا ایک بہترین طریقہ تھا۔ بلکہ کئی ممالک میں تو اب یہ آن لائن بھی ہوگیا ہے مگر پاکستان جیسے ملک میں اگر یہ مشین پر براہراست بھی شروع کردیا جائے تو دھاندلی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ البتہ حالیہ انتخابات میں جسطرح لوگوں کو فارم 45 اور 47 کی سمجھ آگئی ہے اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ کیوں طاقتور حلقے عوام کو جاہل رکھنا چاہتے تھے۔

بہرحال' یہ جتنے لوگ ووٹنگ کو حرام کہہ رہے ہیں وہ رجوع کریں کیونکہ انکا اعتراض ہونا چاہیے ووٹنگ کے نظام پر یا ووٹر کی اہلیت کے معیار پر۔ مطلقاً ووٹنگ کو غلط کہنا بلکل غلط ہے اور بنیادی اصول رائے کے خلاف ہے کیونکہ جو بھی نظام مرتب کیا جائے آخر میں وہ لوگ ہی ہوں گے جو رائے دے کر کسی نظام کو یا طریقہ کو جائز یا ناجائز کرار دیں گے۔

قرآن کی ایک آیت پیش کی جاتی ہے جسکا متن کچھ یوں ہے۔ اللہ نبی' اگر آپ اکثریت کی رائے پر فیصلہ دیں گے تو یقیناً گمراہ ہوجائیں گے۔
اس آیت کا مفہوم بھی وہ نہیں ہے جو کہ بیان کیا جاتا ہے۔ اکثریت کا ہر فیصلہ غلط نہیں ہوتا۔ اس آیت کا صحیع مفہوم ہے کہ صرف اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہوگا۔ اس اکثریت کے زکر کرنا بھی یہاں اللہ کی بے پناہ حکمت کا ثبوت ہے کہ عمومی طور پر اکثریت ہی فیصلہ کرے گی کیونکہ یہ انسانی فطرت میں ہے کہ جب بھی کچھ لوگوں میں اختلاف ہو تو وہ اپنے ہم خیال دھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس آیت میں اکثریت کا زکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اکثریت ہونا اچھی بات ہے اور اسے اہمیت بھی دی جائیگی البتہ صرف اکثریت پر کوئی فیصلہ کرنا صحیع نہیں۔ یہی ہر زی شعور انسان کہے گا کہ فیصلہ کسی اصول پر ہوگا نہ کہ اکثریت پر۔ تو حضور یہی تو اس پوری بحث کا نچوڑ ہے کہ جب ایک ووٹنگ کا نظام مرتب ہوگا تو اس میں یہ بات طے ہوگی کہ ووٹنگ یا رائے عامہ کس بات پر لی جائیگی۔ ظاہر ہے کہ سود کو حلال کرار دینے پر کونسا مسلمان ہے جو ووٹنگ کروانا جائز سمجھے گا؟ ظاہر ہے کہ اکثریت کی رائے کہاں چلے گی کہاں نہیں یہی نظام بنانے کے لیے بھی تو ایک رائے لی جائیگی ان لوگوں کی جو اسکے اہل ہیں یا اپنے حصے کی رائے منوانا جانتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار نے بھی اس پر رائے دیتے ہوئے یہی فرمایا ہے کہ جن باتوں پر اللہ کا حکم آچکا ہے ان پر کوئی رائے عامہ نہیں ہوگی جبکہ باقی معاملات میں ایسا کیا جاسکتا ہے۔ یعنی اگر ایک غلط قانون بن بھی جائے اکثریت کے فیصلے پر جو قرآن یا حدیث سے ٹکراتا ہوتو شرعیت کونسل اسے رد کرسکتی ہے۔
کئی احادیث ہیں جنکے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا اور مشورہ کرنے کی حدایت کی۔ تو یہ ووٹنگ کروانا بھی ایک مشورہ لینا ہی ہے جس میں ووٹنگ کے اہل لوگ اپنا مشورہ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پاگل خانے میں کون ووٹنگ کروانے کو جائز کہے گا؟

ایک ہیجان میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے پوری قوم کو حالانکہ بنیادی منطق کے اصول بڑے واضح ہیں۔ امید ہے کہ کم از کم ایک بندا ضرور ہوگا جو ان دلائل کی روشنی میں حق پر آجائیگا۔ باقی اپنی رائے دیں دلائل کے ساتھ تاکہ انکا علمی طور پر جواب دیا جاسکے۔
 
Last edited by a moderator:

xshadow

Minister (2k+ posts)
حدیث نبوی ہے کہ جب دو میں سے ایک مشکل چننی ہو تو وہ چنو جو کم مشکل ہو۔
چلیں یہ بھی چھوڑیں۔ سکا رائج الوقت ہے کرنسی نوٹ۔ یہ بھی حرام ہے کیونکہ اسلام اس چیز کو کرنسی مانتا ہے جسکے اندر اسکی قیمت موجود ہو جیسے درہم و دینار یا کوئی قابل استعمال شے جسے متبادل قیمت کے طور پر پیش کیا جاسکے۔
مگر آج لوگ کیا خود ساحل صاحب بھی وہی استعمال کررہے ہیں۔ یقینا غلط نہیں کررہے کیونکہ فلسفہ یہ ہے کہ جو موجودہ حالات ہوتے ہیں ان میں رہ کر تبدیلی لانا اسلام ہے ورنہ تو ایک صحابی ویرانے میں جاکر رہنے چاہتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسکو منع فرمایا۔
آج ساحل صاحب کے نزدیک اگر کوئی صحیع چوائس نہیں ہے تو خود کو نامزد کردیں؟ اور کیا چاہتے ہیں؟ یا عوام کہے کہ اصل مالک تو ویسے ہیں جی ایچ کیو میں ہیں تو انکے خلاف اعلان جنگ کردیں۔ یعنی کھل کر بات کیوں نہیں کرتے۔ جمہوریت کو حرام بھی کہتے ہیں مگر ووٹنگ کو بھی کھل کر حرام نہیں کہتے۔ غیر مسلم کی جمہوریت اسلام کے خلاف قانون سازی کرے گی اور مسلمانوں کی جمہوریت اسلامی قوانین بنائے گی تو مسئلہ کیا ہے۔
رہ گیا عمران خان یا موجودہ سیاستدان تو عمران خان نام تو لے ہی رہا ہے نہ کہ اسلامی قوانین بنائے گا۔ باقی تو یہ بھی نہیں کہتے۔
پھر مسئلہ کیا ہے یہ میں ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہوں۔
 

Mocha7

Minister (2k+ posts)
اکثر لوگ لمبی چوڑی پوسٹ پڑھنے سے کتراتے ہیں اسلیے تفصیل میں جانے سے پہلے ہی میں مدا بیان کردوں تاکہ لوگ اپنے اپنے کاموں پر واپس آجائیں۔ ووٹنگ حرام نہیں ہے۔۔


ووٹنگ کو حرام کرار دینے والوں میں آج کل سب سے چوٹی کے دانشوروں میں ہے ساحل عدیم کا نام۔ ساحل عدیم کے ہی من پسند عالم مرحوم مولانا اسحاق صاحب خود بھی ووٹنگ کے حق میں تھے۔ اب ساحل صاحب کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی عالم غلطی کرسکتا ہے۔ یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ ساحل عدیم بھی غلطی کرسکتا ہے۔ ساحل صاحب نے ویسے زیادہ تر جو اعتراض کیے ہیں انکی بنیاد ہے مغربی جمہوریت جہاں غیر اسلامی اور غیر فطری قوانین بن رہے ہیں جیسے ہم جنس پرستی وغیرہ تو بھول جاتے ہیں کہ دو بڑی مثالیں موجود ہیں ایران اور ترکی جہاں پر ووٹنگ ہوتی ہے جہاں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ہم جنس پرستی جیسا قانون پاس ہوسکے۔ پاکستان میں یہ جھک ماری گئی تھی خاقان عباسی کی حکومت کے آخری دنوں میں جب ختم نبوت کے قانون پر بھی حملہ کیا گیا تھا جسکا پہلے دفاع کیا گیا اور نون لیگ کتنی اسلامی یا عوامی جماعت ہے آج یہ بھی سب کے سامنے ہے اسلیے یہ مثال بھی غلط ہے۔ خالصتا عوامی رائے کا احترام کرنے کے بعد اگر کوئی غیر اسلامی قانون بنے تو ساحل عدیم کی بات میں جان پڑ سکتی ہے۔ جہاں تک بات ہے ایران اور ترکی میں جمہوریت تو یقیناً وہاں بھی 100 فیصد اسلامی قوانین رائج ہیں ہیں۔ اسکی وجہ انکی قوم میں اسلام دوری ہے۔ اسکے باوجود آج ترکی زیادہ اسلامی ہے بہ نسبت اس دور کے جبکہ عوامی حکومت نہیں تھی۔ ایران کی جہاں تک بات ہے تو وہ اہل تشہیہ حضرات ہیں جو ویسے ہی کبھی قرآن کی حفاظت پر شک کردیتے ہیں کبھی حضرت عمر کے ایمان پر تو بہت سارے اسلامی نقاط جو حضرت عمر کے دور کے ہیں انہیں ویسے ہی نہیں مانتے۔ اسکے باوجود جتنا عوامی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اس حساب سے اتنا اسلام انکی حکومت میں ضرور ہے۔ باقی کوئی ایسا مسلم ملک نہیں جہاں عوامی رائے کا صحیع معنوں میں احترام ہو اسلیے کوئی مثال بھی موجود نہیں ہے۔

اسکے علاوہ ڈاکٹر اسرار کا نام ہیں جنہیں اللہ تعالہ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ ڈاکٹر اسرار کی جہاں تک بات ہے تو انہوں نے بھی ووٹنگ کو مطلقاً حرام نہیں کہا۔ اگر انکا کوئی بیان ایسا ہے تو میںرے علم میں نہیں ہے۔ لیکن فرض کرلیں کے انہوں نے ایسا کہا بھی ہے تو یہ بھی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ ڈاکٹر اسرار خود بھی اپنے آپ کو کوئی مفتی نہیں کہتے تھے۔ حالانکہ مفتی بھی غلط فتوے دے سکتے ہیں اور یہ بھی کوئی دلیل نہیں ہے کہ کوئی فتوہ دے کر ووٹنگ کو حرام کرار دیدے۔ ڈاکٹر اسرار کام زیادہ تر رہا ہے تہزیبوں کے تصادم پر جو انہوں نے تاریخ کے تناظر میں جاری رکھا۔ انکا نظریہ تھا کہ انتخابی نہیں بلکہ انقلابی سیاست جبکہ انکا جو حکومتی ڈھانچا جوانہوں نے متبادل کے طور پر یا کہیں کہ اسلام حکومتی نظام جو نقشہ انہوں نے پیش کیا اسکے مطابق مزہبی جماعتیں پارلیمنٹ میں آئیں جنہیں عوام منتخب کریں۔ یہ بات اپنے آپ میں ایک تضاد رکھتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب بات انقلاب کی کرتے تھے مگر اسکے نتیجے میں ہونا انتخاب ہی تھا۔ یقینا اس پر بحث ہوسکتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب جس انتخاب کی بات کرتے تھے وہ اس انتخاب سے مختلف ہے جسکے مطابق ایک آدمی ایک ووٹ کا حق رکھتا ہے۔ چلیں یہ بھی مان لیا کہ ایک آدمی کو اسکی ہلیت کے مطابق ووٹ کا حق ہو تو بھی اعتراض تو ووٹنگ کے نظام پر ہوا نہ کہ مطلقاً ووٹنگ پر۔ یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ کوئی نظام ہو جس میں ووٹر کی اہلیت سخت ہو یا نرم' آخر میں تو اسکی رائے ہی لی جائیگی نہ۔ اتنی سی بات کو آخر کیوں اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ ووٹنگ کے عمل کو ہی حرام کرار دے دی جاتا ہے۔

باوجود کوشش کے میں اختصار سے بیان نہیں کرسکا جو میں چاہتا تھا لیکن اگر ابھی تک آپ میرے ساتھ ہیں تو اب میں آپکو تاریخی پس منظر میں لاکر دلائل دینا چاہتا ہوں جو بڑی وضاحت سے ووٹنگ یا رائے عامہ کے حلال ہونے پر دلیل دیں گے۔
آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے وسال سے پہلے کسی کو خلفیہ نامزد نہیں فرمایا۔ کرسکتے تھے نہ' جھڑا ہی ختم ہوجاتا۔ کیا اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی چاہتے تھے کہ لوگ اپنا خلفیہ خود منتخب کریں۔ فرض کریں اگر کوئی جماعت بھی بنتی ہے جو خلیفہ کو نامزد یا منتخب کرنے کا اختیار رکھتی ہے تو اس جماعت میں شمولیت کا میعار بھی تو کسی رائے سے ہی لیا جائیگا نہ کہ وہاں بھی فرشتوں کے اترنے کا انتظار کیا جائیگا۔
دوسری دلیل میں پیش کررہا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فورا بعد پیدا ہونے والے حالات پر مبنی ہے۔ مہاجرین اور انصار میں تنازعہ پیدا ہوگیا کہ خلیفہ کون ہوگا جبکہ انصار اس بات پر معصر تھے کہ خلافہ انصار میں سے ہونا چاہیے۔ اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالہ نے آگے بڑھ کر بلند آواز سے دو لوگوں کو نامزد کیا جن میں ایک نام انصاری تھا اور دوسرا نام تھا حضرت عمر کا۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ ان میں سے اپنا خلیفہ چن لو۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے کس کو کہا تھا کہ ان دونوں امیدواران میں سے کسی کو منتخب کرنے کا؟ عوام کے علاوہ کون تھا جس سے حضرت ابو بکر مخاطب تھے؟ خیر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر ابوبکر سے ہاتھ نڑھانے کا کہا جس پر حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ آگے بڑہایا جیسے حضرت عمر نے پکڑ کر بلند آواز سے فرمایا کہ آج سے میرے خلیفہ حضرت ابوبکر ہیں۔ اس پر سارے مجمے نے یک زبان ہوکر حضرت ابوبکر کو خلیفہ تسلیم کرلیا۔

اب کوئی میرے علم میں اضافہ کرے کہ اور انتخاب یا عام انتخاب کسی کہتے ہیں؟ کیا آج بیس کروڑ چھوڑیں' ایک علاقے کے سارے لوگوں سے ہاتھ کھڑا کروا کر رائے لی جائے یا پھر پرچی پر ان کی رائے لی جائے جسے بعد میں گنا بھی جاسکے۔ کونسا طریقہ زیادہ قابل عمل ہے؟ یقینا پرچی ہی وہ طریقہ ہے سوائے اسکے کہ ساحل عدیم صاحب کوئی نئی جدد لیکر آنا چاہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراض کرنے والوں کو بھی آج یقینا پتا چل گیا ہوگا کہ کون یہ لانا چاہتا تھا اور کون اصل میں اسکا مخالف تھا جو کہ جدید طریقے سے ووٹنگ کروانے کا ایک بہترین طریقہ تھا۔ بلکہ کئی ممالک میں تو اب یہ آن لائن بھی ہوگیا ہے مگر پاکستان جیسے ملک میں اگر یہ مشین پر براہراست بھی شروع کردیا جائے تو دھاندلی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ البتہ حالیہ انتخابات میں جسطرح لوگوں کو فارم 45 اور 47 کی سمجھ آگئی ہے اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ کیوں طاقتور حلقے عوام کو جاہل رکھنا چاہتے تھے۔

بہرحال' یہ جتنے لوگ ووٹنگ کو حرام کہہ رہے ہیں وہ رجوع کریں کیونکہ انکا اعتراض ہونا چاہیے ووٹنگ کے نظام پر یا ووٹر کی اہلیت کے معیار پر۔ مطلقاً ووٹنگ کو غلط کہنا بلکل غلط ہے اور بنیادی اصول رائے کے خلاف ہے کیونکہ جو بھی نظام مرتب کیا جائے آخر میں وہ لوگ ہی ہوں گے جو رائے دے کر کسی نظام کو یا طریقہ کو جائز یا ناجائز کرار دیں گے۔

قرآن کی ایک آیت پیش کی جاتی ہے جسکا متن کچھ یوں ہے۔ اللہ نبی' اگر آپ اکثریت کی رائے پر فیصلہ دیں گے تو یقیناً گمراہ ہوجائیں گے۔
اس آیت کا مفہوم بھی وہ نہیں ہے جو کہ بیان کیا جاتا ہے۔ اکثریت کا ہر فیصلہ غلط نہیں ہوتا۔ اس آیت کا صحیع مفہوم ہے کہ صرف اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہوگا۔ اس اکثریت کے زکر کرنا بھی یہاں اللہ کی بے پناہ حکمت کا ثبوت ہے کہ عمومی طور پر اکثریت ہی فیصلہ کرے گی کیونکہ یہ انسانی فطرت میں ہے کہ جب بھی کچھ لوگوں میں اختلاف ہو تو وہ اپنے ہم خیال دھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس آیت میں اکثریت کا زکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اکثریت ہونا اچھی بات ہے اور اسے اہمیت بھی دی جائیگی البتہ صرف اکثریت پر کوئی فیصلہ کرنا صحیع نہیں۔ یہی ہر زی شعور انسان کہے گا کہ فیصلہ کسی اصول پر ہوگا نہ کہ اکثریت پر۔ تو حضور یہی تو اس پوری بحث کا نچوڑ ہے کہ جب ایک ووٹنگ کا نظام مرتب ہوگا تو اس میں یہ بات طے ہوگی کہ ووٹنگ یا رائے عامہ کس بات پر لی جائیگی۔ ظاہر ہے کہ سود کو حلال کرار دینے پر کونسا مسلمان ہے جو ووٹنگ کروانا جائز سمجھے گا؟ ظاہر ہے کہ اکثریت کی رائے کہاں چلے گی کہاں نہیں یہی نظام بنانے کے لیے بھی تو ایک رائے لی جائیگی ان لوگوں کی جو اسکے اہل ہیں یا اپنے حصے کی رائے منوانا جانتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار نے بھی اس پر رائے دیتے ہوئے یہی فرمایا ہے کہ جن باتوں پر اللہ کا حکم آچکا ہے ان پر کوئی رائے عامہ نہیں ہوگی جبکہ باقی معاملات میں ایسا کیا جاسکتا ہے۔ یعنی اگر ایک غلط قانون بن بھی جائے اکثریت کے فیصلے پر جو قرآن یا حدیث سے ٹکراتا ہوتو شرعیت کونسل اسے رد کرسکتی ہے۔
کئی احادیث ہیں جنکے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا اور مشورہ کرنے کی حدایت کی۔ تو یہ ووٹنگ کروانا بھی ایک مشورہ لینا ہی ہے جس میں ووٹنگ کے اہل لوگ اپنا مشورہ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پاگل خانے میں کون ووٹنگ کروانے کو جائز کہے گا؟

ایک ہیجان میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے پوری قوم کو حالانکہ بنیادی منطق کے اصول بڑے واضح ہیں۔ امید ہے کہ کم از کم ایک بندا ضرور ہوگا جو ان دلائل کی روشنی میں حق پر آجائیگا۔ باقی اپنی رائے دیں دلائل کے ساتھ تاکہ انکا علمی طور پر جواب دیا جاسکے۔
As far as I know, there is no renowned scholar who has declared voting as unislamic, including Dr. Israr. During election periods, numerous fatwas circulate on social media emphasizing the importance of selecting candidates in accordance with Islamic principles. Who the heck Sahil is and how is he worthy enough that you have dedicated a whole thread to his isolated opinions.