ٹرک تو میں چلا سکتی ہوں،میرے والد ایک فریڈم فائٹر تھے: جسٹس مسرت ہلالی

1740649208836.png


سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے انسداد دہشتگردی عدالتوں کے ججز کی انگریزی میں کافی مسائل ہیں۔


جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔


سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کمانڈنگ افسرز نے ملزمان کی حوالگی کے لیے درخواستیں دیں، جن کا آغاز اس الفاظ سے ہوا کہ ابتدائی تفتیش میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا جرم بنتا ہے۔ یہ الفاظ درخواست میں اعتراف ہیں کہ تفتیش مکمل نہیں ہوئی تھی۔ انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کی حوالگی کے لیے جو وجوہات فراہم کیں وہ مضحکہ خیز ہیں۔


فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے ایڈمنسٹریٹو جج نے ملزمان کی حوالگی کے احکامات دیے، اور انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کو تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی قصوروار لکھ دیا۔


جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ راولپنڈی اور لاہور کی عدالتوں کے حکم ناموں کے الفاظ بالکل ایک جیسے ہیں، جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ "لگتا ہے انسداد دہشتگردی عدالتوں کے ججز کی انگریزی میں کافی مسائل ہیں۔"


فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزمان کی حوالگی کا حکم عدالت دے سکتی ہے، ایڈمنسٹریٹو جج نہیں۔ آرمی ایکٹ کی سیکشن 59(1) کے تحت فوجی افسران کے قتل یا دیگر جرائم میں سول عدالت سے کسٹڈی لی جا سکتی ہے۔


جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ "میرے حساب سے تو 59(4) کا اطلاق بھی ان پر ہوتا ہے جو آرمی ایکٹ کے تحت ہوں، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہو گی۔"


فیصل صدیقی نے کہا کہ جن مقدمات میں حوالگی کی درخواستیں دی گئیں، ان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات عائد نہیں تھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک ایف آئی آر میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات بھی عائد تھیں، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ ایف آئی آر مجھے ریکارڈ میں نظر نہیں آئی۔


جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ "حوالگی والی ایف آئی آر پڑھیں، اس میں الزام فوجی تنصیب کے باہر توڑ پھوڑ کا ہے۔"


فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ "عدالتیں اسی لیے ہوتی ہیں کہ قانون کا غلط استعمال روکا جا سکے، احمد فراز کو شاعری کرنے پر گرفتار کیا گیا، عدالت نے ریلیف دیا۔" فیصل صدیقی نے احمد فراز کیس میں عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ احمد فراز پر الزام تھا کہ شاعری کے ذریعے آرمی افسر کو اکسایا گیا، اور یہ کہ "احمد فراز اور فیض احمد فیض کے ڈاکٹر میرے والد تھے۔"


فیصل صدیقی نے کہا کہ "مجھ پر بھی اکسانے کا الزام لگا لیکن میں گرفتار نہیں ہوا۔" جسٹس جمال مندوخیل نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا کہ "آپ کو اب گرفتار کروا دیتے ہیں۔"


جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ "احمد فراز کی کونسی نظم پر کیس بنا تھا؟ مجھے تو ساری یاد ہیں۔" فیصل صدیقی نے کہا کہ "آپ ججز کے ہوتے ہوئے، مجھے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔"


جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ "بطور وکیل کیس ہارنے کے بعد میں بار میں بہت شور کرتی تھی، میں کہتی تھی ججز نے ٹرک ڈرائیورز کی طرح اشارہ کہیں اور کا لگایا اور گئے کہیں اور۔"


جسٹس مسرت ہلالی نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ "میری بات کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔" جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس مسرت ہلالی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ "کیا آپ بھی ٹرک چلاتی ہیں؟" جسٹس مسرت ہلالی نے جواب دیا کہ "ٹرک تو میں چلا سکتی ہوں، میرے والد ایک فریڈم فائٹر تھے، ان کی ساری عمر جیلوں میں گزری۔"


انہوں نے مزید کہا کہ "میرے والد جو شاعری کرتے تھے، وہ ان کی وفات کے بعد ایک پشتون جرگہ میں کسی نے پڑھی، جرگے میں میرے والد کی شاعری پڑھنے والا گرفتار ہوگیا۔ شاعری پڑھنے والے نے بتایا کہ کس کا کلام ہے اور اس کی بیٹی آج کون ہے۔"


جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ "میرے والد کی شاعری پڑھنے والے کو بہت مشکل سے رہائی ملی۔" جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ "وقت کے حساب سے شاعری اچھی یا بری لگتی رہتی ہے۔" جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ "اب تو چرسی تکہ والے کو بھی اصلی چرسی تکہ لکھنا پڑتا ہے۔"


فیصل صدیقی نے کہا کہ "مجھے آپ تمام ججز سے اچھے کی امید ہے۔" جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھنے والے ہیں۔"


جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ "ہلکے پھلکے انداز میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، شاعر احمد فراز نے تو عدالت میں یہ کہہ دیا تھا کہ یہ نظم میری ہے ہی نہیں۔" جسٹس افضل ظُلہ نے احمد فراز سے کہا کہ "آپ کوئی ایسی نظم لکھ دیں جس سے فوجی کے جذبات کی ترجمانی ہو جائے۔"


آئینی بینچ کے ججز نے ریمارکس دیے کہ "احمد فراز نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ میرے پاس تو وسائل ہی نہیں کہ اپنی نظم کی تشہیر سکوں، آج کل تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، اس دور میں اگر احمد فراز ہوتے تو وہ یہ دفاع نہیں لے سکتے تھے۔"


اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
 

ocean5

Minister (2k+ posts)
View attachment 9050

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے انسداد دہشتگردی عدالتوں کے ججز کی انگریزی میں کافی مسائل ہیں۔


جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔


سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کمانڈنگ افسرز نے ملزمان کی حوالگی کے لیے درخواستیں دیں، جن کا آغاز اس الفاظ سے ہوا کہ ابتدائی تفتیش میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا جرم بنتا ہے۔ یہ الفاظ درخواست میں اعتراف ہیں کہ تفتیش مکمل نہیں ہوئی تھی۔ انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کی حوالگی کے لیے جو وجوہات فراہم کیں وہ مضحکہ خیز ہیں۔


فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے ایڈمنسٹریٹو جج نے ملزمان کی حوالگی کے احکامات دیے، اور انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کو تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی قصوروار لکھ دیا۔


جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ راولپنڈی اور لاہور کی عدالتوں کے حکم ناموں کے الفاظ بالکل ایک جیسے ہیں، جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ "لگتا ہے انسداد دہشتگردی عدالتوں کے ججز کی انگریزی میں کافی مسائل ہیں۔"


فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزمان کی حوالگی کا حکم عدالت دے سکتی ہے، ایڈمنسٹریٹو جج نہیں۔ آرمی ایکٹ کی سیکشن 59(1) کے تحت فوجی افسران کے قتل یا دیگر جرائم میں سول عدالت سے کسٹڈی لی جا سکتی ہے۔


جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ "میرے حساب سے تو 59(4) کا اطلاق بھی ان پر ہوتا ہے جو آرمی ایکٹ کے تحت ہوں، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہو گی۔"


فیصل صدیقی نے کہا کہ جن مقدمات میں حوالگی کی درخواستیں دی گئیں، ان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات عائد نہیں تھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک ایف آئی آر میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات بھی عائد تھیں، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ ایف آئی آر مجھے ریکارڈ میں نظر نہیں آئی۔


جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ "حوالگی والی ایف آئی آر پڑھیں، اس میں الزام فوجی تنصیب کے باہر توڑ پھوڑ کا ہے۔"


فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ "عدالتیں اسی لیے ہوتی ہیں کہ قانون کا غلط استعمال روکا جا سکے، احمد فراز کو شاعری کرنے پر گرفتار کیا گیا، عدالت نے ریلیف دیا۔" فیصل صدیقی نے احمد فراز کیس میں عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ احمد فراز پر الزام تھا کہ شاعری کے ذریعے آرمی افسر کو اکسایا گیا، اور یہ کہ "احمد فراز اور فیض احمد فیض کے ڈاکٹر میرے والد تھے۔"


فیصل صدیقی نے کہا کہ "مجھ پر بھی اکسانے کا الزام لگا لیکن میں گرفتار نہیں ہوا۔" جسٹس جمال مندوخیل نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا کہ "آپ کو اب گرفتار کروا دیتے ہیں۔"


جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ "احمد فراز کی کونسی نظم پر کیس بنا تھا؟ مجھے تو ساری یاد ہیں۔" فیصل صدیقی نے کہا کہ "آپ ججز کے ہوتے ہوئے، مجھے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔"


جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ "بطور وکیل کیس ہارنے کے بعد میں بار میں بہت شور کرتی تھی، میں کہتی تھی ججز نے ٹرک ڈرائیورز کی طرح اشارہ کہیں اور کا لگایا اور گئے کہیں اور۔"


جسٹس مسرت ہلالی نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ "میری بات کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔" جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس مسرت ہلالی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ "کیا آپ بھی ٹرک چلاتی ہیں؟" جسٹس مسرت ہلالی نے جواب دیا کہ "ٹرک تو میں چلا سکتی ہوں، میرے والد ایک فریڈم فائٹر تھے، ان کی ساری عمر جیلوں میں گزری۔"


انہوں نے مزید کہا کہ "میرے والد جو شاعری کرتے تھے، وہ ان کی وفات کے بعد ایک پشتون جرگہ میں کسی نے پڑھی، جرگے میں میرے والد کی شاعری پڑھنے والا گرفتار ہوگیا۔ شاعری پڑھنے والے نے بتایا کہ کس کا کلام ہے اور اس کی بیٹی آج کون ہے۔"


جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ "میرے والد کی شاعری پڑھنے والے کو بہت مشکل سے رہائی ملی۔" جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ "وقت کے حساب سے شاعری اچھی یا بری لگتی رہتی ہے۔" جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ "اب تو چرسی تکہ والے کو بھی اصلی چرسی تکہ لکھنا پڑتا ہے۔"


فیصل صدیقی نے کہا کہ "مجھے آپ تمام ججز سے اچھے کی امید ہے۔" جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھنے والے ہیں۔"


جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ "ہلکے پھلکے انداز میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، شاعر احمد فراز نے تو عدالت میں یہ کہہ دیا تھا کہ یہ نظم میری ہے ہی نہیں۔" جسٹس افضل ظُلہ نے احمد فراز سے کہا کہ "آپ کوئی ایسی نظم لکھ دیں جس سے فوجی کے جذبات کی ترجمانی ہو جائے۔"


آئینی بینچ کے ججز نے ریمارکس دیے کہ "احمد فراز نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ میرے پاس تو وسائل ہی نہیں کہ اپنی نظم کی تشہیر سکوں، آج کل تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، اس دور میں اگر احمد فراز ہوتے تو وہ یہ دفاع نہیں لے سکتے تھے۔"


اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
AGAR TRUCK CHALANA ATA HEY TU MUNIR MECHANIC KO CHALAO WO EK KHASEE TRUCK HEY JIS KA ENGINE FARAK HEY MAGER WO PHIR BE ZABARDASTEE TRUCK CHALANAY KEE KOSHISH KER RAHA HEY MUNIR MECHANIC KO TAIL LAGAO AUR CHALANA SHURU KER DO NAEE TU RUNDEE FARAREE GA4AJAN KEE MADAT LO WO KAFEE MAHIR HEY TRUCK CHALANAY MAIN
 

Lathi-Charge

Senator (1k+ posts)
اس بےشرم عورت کو ٹرک بہت یاد آ رہے ہیں - یہ تو اسی دن کسی فوجی ٹرک کے نیچے آ گئی تھی جس دن اس نے بدنام زمانہ فراڈ عیسا کے ساتھ مل کر آئین اور قانون کا بلادکار کر دیا تھا
 

Back
Top