حکومت، عمران خان سے منسوب مضمون کے متعلق برطانوی اشاعتی ادارے کو خط لکھے گی,مرتضی سولنگی کو جھوٹا قرار دے دیا گیا
’حکومت، عمران خان سے منسوب مضمون کے متعلق برطانوی اشاعتی ادارے کو خط لکھے گی,نگران وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ ”دی اکانومسٹ“ کے ساتھ عمران خان کے گھوسٹ آرٹیکل کی اشاعت کا معاملہ اٹھایا جائے گا, پاکستانی انفارمیشن منسٹر کی ٹویٹ جھوٹی اور حقائق کے منافی قرار دے دی گئی۔
سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے تبصرہ کیا جارہاہے,بے عزتی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے,انفارمیشن منسٹر مرتضٰی سولنگی نے اکانومسٹ کے خلاف ٹویٹ کی کہ اکانومسٹ نے عمران خان کا جھوٹا اور غلط آرٹیکل چھاپا، ٹویٹر نے اس ٹویٹ کے نیچے لکھ دیا کہ پاکستانی انفارمیشن منسٹر کی ٹویٹ جھوٹی اور حقائق کے منافی ہے۔
سلمان درانی نے لکھا اور ایکس کا مرتضیٰ سولنگی کے کان کے نیچے مارا گیا زوردار تھپڑ جس کی گونج واشنگٹن سے اسلام آباد تک سنی گئی۔ @murtazasolangi اب آرام ہے؟
ارسلان صدیقی نے لکھامرتضیٰ سولنگی کا جھوٹ اسکے منہ پر مار دیا گیا,کیمیونٹی نوٹ لگ گیا اسکی ٹویٹ پر۔اسکا مطلب ہوتا ہے کہ یہ بندہ بکواس کر رہا ہے،جھوٹ بول رہا ہے,غجب بے عجتی ہے۔
میر محمد علی نے کہا لوجی سولنگی کے ٹُوئیٹ کو ٹُوئیٹر کمیونٹی نوٹس نے جُھوٹ قرار دیدیا,سولنگی دُنیا کا پہلا وزیرِ اطلاعات بن گیا جس کا ٹُوئیٹ ٹوئیٹر نے ہی جُھوٹ قرار دیدیا۔۔۔۔ثُبوت کے ساتھ,یہ ہے اصل کھلواڑ پاکستان کی عزت کے ساتھ ان نِکمّوں کو ہم پر لاد کر دُنیا میں بدنامی۔
ڈاکٹر ضیا خان نے سولنگی دُنیا کا پہلا وزیرِ اطلاعات بن گیا جس کا ٹُوئیٹ ٹوئیٹر نے ہی جُھوٹ قرار دیدیا۔۔۔۔ ان جیسے لوگوں کی وجہ سے پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے.
کامران واحد نے لکھامرتضی سولنگی والے ٹویٹ پر غریدہ فاروقی نے قوٹ کیا اس پر بھی کمیونٹی نوٹ لگ گیا جو جو کرے گا سب پہ لگے گا، وڑ گئے مکمل طور پر.
دی اکانومسٹ میں مبینہ طور پر عمران خان کے حوالے سے شائع ہونے والے مضمون کے حوالے سے جمعہ کو سماجی رابطہ کے پلیٹ فارم ”ایکس“ پر اپنے ٹویٹ میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ”دی اکانومسٹ“ کے ایڈیٹر کو مبینہ طور پر عمران خان کی جانب سے تحریر کردہ آرٹیکل کے بارے میں لکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات حیران اور پریشان کن ہے کہ میڈیا کے ایک معزز ادارے نے ایک ایسے فرد کے نام سے مضمون شائع کیا جو جیل میں ہے اور اسے سزا ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اخلاقی معیارات کو برقرار رکھنا اور ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم جاننا چاہیں گے کہ ”دی اکانومسٹ“ کی جانب سے مضمون کی اشاعت کے حوالے سے ادارتی فیصلہ کیسے کیا گیا؟
مواد کی قانونی حیثیت اور اعتبار کے حوالے سے کن باتوں کو مدنظر رکھا؟ انہوں نے کہا کہ کیا ”دی اکانومسٹ“ نے دنیا کے کسی اور حصے سے جیل میں بند سیاستدانوں کے گھوسٹ آرٹیکل شائع کئے ہیں؟ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اگر جیل میں بند مجرم میڈیا کو لکھنے کے لیے آزاد ہوتے تو وہ اپنی یکطرفہ شکایات کو نشر کرنے کے لیے ہمیشہ اس موقع کا استعمال کرتے۔
عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں 5 اگست کو مجرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 28 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر دی تھی۔ تاہم، ان کے خلاف درج دیگر مقدمات کے باعث وہ جیل میں ہیں۔
جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے برطانوی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ میں دعوت پر لکھے گئے مضمون سے عندیہ ملتا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو شدید شکوک و شبہات ہیں کہ آیا آئندہ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔
مضمون میں عمران خان نے ان الزامات کو دہرایا ہے کہ کس طرح امریکی حکومت کے دباؤ کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت تبدیل ہوئی، انہوں نے 9 مئی کے فسادات کو ’جھوٹا پروپیگنڈا‘ قرار دیا۔
آرٹیکل کے اختتام پر ایڈیٹر کی جانب سے ایک نوٹ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان اور امریکی محکمہ خارجہ نے امریکی مداخلت کے الزامات کی تردید کی، اور حکومت عمران خان کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلا رہی ہے۔
اگرچہ پارٹی کے اندر ذرائع اس بات پر تبصرہ کرنے میں ہچکچا رہے ہیں کہ تحریر کو جیل کے اندر سے کس طرح شائع کیا گیا، انہوں نے اصرار کیا کہ یہ الفاظ واقعی عمران خان کے ہیں۔
کچھ مبصرین نے شکوک کا اظہار کیا کہ آیا یہ مضمون واقعی عمران خان کا ہے، لیکن بہت سے لوگوں نے نوٹ کیا کہ مضمون کا لہجہ اور مواد ان کے خیالات سے مطابقت رکھتا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر پوسٹ میں نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ ’ہم دی اکانومسٹ کے ایڈیٹر کو ایک مضمون کے بارے میں لکھ رہے ہیں جو مبینہ طور پر عمران خان نے لکھا تھا۔
سابق صحافی مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ ’یہ حیران کن اور پریشان کن ہے کہ اس طرح کے ایک معزز میڈیا آؤٹ لیٹ نے ایک ایسے فرد کے نام سے مضمون شائع کیا جو جیل میں ہے اور اسے سزا سنائی گئی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ اخلاقی معیارات کو برقرار رکھنا اور ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جاننا چاہیں گے کہ ادارتی فیصلہ کیسے کیا گیا، اور دی اکانومسٹ کی طرف سے مواد کی قانونی حیثیت اور اعتبار کے حوالے سے کن باتوں کو مدنظر رکھا گیا۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ ’ہمیں یہ جاننے میں بھی دلچسپی ہو گی کہ کیا دی اکانومسٹ نے کبھی دنیا کے کسی دوسرے حصے سے جیل میں قید سیاستدانوں کے ایسے گھوسٹ مضامین شائع کیے ہیں۔ اگر جیل میں قید مجرم میڈیا کو لکھنے کے لیے آزاد ہوتے، تو وہ اپنی یک طرفہ شکایات کو نشر کرنے کے لیے ہمیشہ موقع کا استعمال کرتے۔‘
اوریامقبول جان نے کہا کہ مرتضے سولنگی جیسے کردار پاکستان کی تاریخ کے وہ غلیظ کردار ہیں جنہوں نے ہمیشہ بے شرمی کی حد تک کاسہ لیسی کی اور عوام کے مخالف کھڑے ہوئے