Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
کہتے ہیں کہ ایک شخص مرنے کے بعد جب عالم ارواح میں پہنچا تو اس کے اعمال کے وزن میں صرف ایک برائی نیکیوں کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ طے یہ ہوا کہ دوزخ میں جانا تو پڑے گا، لیکن معمولی بے اعتدالی کی وجہ سے اس شخص کو یہ رعایت مل گئی کہ دوزخ کے جس حصّے میں چاہے قیام کرے۔
تو جناب، فرشتے اسے لے کر دوزخ کے مختلف حصوں میں گئے، کہیں گرس مارے جارہے تھے، کہیں گندا پانی پلایا جارہا تھا، کہیں آگ میں جلایا جارہا تھا ۔۔۔۔۔ آخر وہ سب ایک ایسی جگہہ آ کر رُک گئے جہاں سب لوگ سینے تک مٹی میں دبے ہوئے تھے اور ان سب کے ہاتھ میں چائے کی پیالی تھی۔ وہ شخص یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا، کہ یہ سزا سب سے اچھی ہے، اسے جھٹ سے قبول کر لیا۔ فرشتے اسے وہاں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔
فوراً اس شخص کو بھی ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑا دیا گیا اور دیگر لوگوں نے اسے خوش آمدید کہا۔ ابھی چائے پیتے ہوئے لوگوں سے تعارف ہو ہی رہا تھا کہ اچانک ایک گھنٹی بجنے کی آواز آئی ، اس شخص نے ساتھ والے سے پوچھا ’’ یہ کیا ہے؟‘‘
دوسرا شخص: بھائی یہ ہمارا ٹی ٹائم تھا
پہلا: ٹی ٹائم؟ تو اب کیا ہوگا؟
دوسرا: اب ٹانگیں اوپر اور سر نیچے
جی میرا یہ لطیفہ سنانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سپریم کورٹ سے ملے ایک دن کے دکھاوے کے ریلیف، جس میں عمران خان کو رہا کرنے کے باوجود پولیس کی ہی کسٹڈی میں رکھا گیا ہے، نہ انٹرنیٹ فعال ہونے دیا ہے اور نہ تحریک انصاف کی قیادت کی گرفتاریاں روکی گئی ہیں، ایسے میں یہ ریلیف کچھ ٹی ٹائم جیسا لگتا ہے۔
جی میں یہ بلکل بھی نہیں کہہ رہا کہ اسٹیبلشمنٹ عوام کے اس زنّاٹے دار تھپّڑ کی امید نہیں رکھتی تھی، اور اب اس وقت میں اپنی تیّاریاں مکمّل کر رہی ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو، اور عمران خان کو آج اسلام آباد ہائیکورٹ سے کچھ اسی طرح کا مصنوعی ریلیف مل جائے کہ جسمیں انھیں واپس پولیس لائنز کے گیسٹ ہاوٗس میں مہمان رکھا جائے۔
لیکن فورسز کی ٹریننگ کی ایک بات جو میں جانتا ہوں، وہ یہ کہ انھیں کبھی تھپّڑ کھا کر برداشت کرنا نہیں سکھایا جاتا۔ غلط یا صحیح سے ماوریٰ، یہ بدلہ لینے کے عادی ہوتے ہیں، بلکہ یہ ان کی جبلّت میں تُن دیا جاتا ہے۔
آج کا دن دیکھ لیں، اپنے آس پاس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں، اور کسی بھی صورت، کوئی فوری ری ایکشن نہ دیں، ورنہ کام اسی ٹی بریک والا ہوگا۔ ان کو سرپرائز دیں، اور ان کے کھینچے گئے نقشے واضع ہونے کے بعد کوئی قدم اٹھائیں۔
پر امن احتجاج ہر کسی کا حق ہے۔ اس حق کو چھیننے والوں کے منہہ پر تھپّڑ ہی پڑنا چاہیئے۔
تو جناب، فرشتے اسے لے کر دوزخ کے مختلف حصوں میں گئے، کہیں گرس مارے جارہے تھے، کہیں گندا پانی پلایا جارہا تھا، کہیں آگ میں جلایا جارہا تھا ۔۔۔۔۔ آخر وہ سب ایک ایسی جگہہ آ کر رُک گئے جہاں سب لوگ سینے تک مٹی میں دبے ہوئے تھے اور ان سب کے ہاتھ میں چائے کی پیالی تھی۔ وہ شخص یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا، کہ یہ سزا سب سے اچھی ہے، اسے جھٹ سے قبول کر لیا۔ فرشتے اسے وہاں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔
فوراً اس شخص کو بھی ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑا دیا گیا اور دیگر لوگوں نے اسے خوش آمدید کہا۔ ابھی چائے پیتے ہوئے لوگوں سے تعارف ہو ہی رہا تھا کہ اچانک ایک گھنٹی بجنے کی آواز آئی ، اس شخص نے ساتھ والے سے پوچھا ’’ یہ کیا ہے؟‘‘
دوسرا شخص: بھائی یہ ہمارا ٹی ٹائم تھا
پہلا: ٹی ٹائم؟ تو اب کیا ہوگا؟
دوسرا: اب ٹانگیں اوپر اور سر نیچے
جی میرا یہ لطیفہ سنانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سپریم کورٹ سے ملے ایک دن کے دکھاوے کے ریلیف، جس میں عمران خان کو رہا کرنے کے باوجود پولیس کی ہی کسٹڈی میں رکھا گیا ہے، نہ انٹرنیٹ فعال ہونے دیا ہے اور نہ تحریک انصاف کی قیادت کی گرفتاریاں روکی گئی ہیں، ایسے میں یہ ریلیف کچھ ٹی ٹائم جیسا لگتا ہے۔
جی میں یہ بلکل بھی نہیں کہہ رہا کہ اسٹیبلشمنٹ عوام کے اس زنّاٹے دار تھپّڑ کی امید نہیں رکھتی تھی، اور اب اس وقت میں اپنی تیّاریاں مکمّل کر رہی ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو، اور عمران خان کو آج اسلام آباد ہائیکورٹ سے کچھ اسی طرح کا مصنوعی ریلیف مل جائے کہ جسمیں انھیں واپس پولیس لائنز کے گیسٹ ہاوٗس میں مہمان رکھا جائے۔
لیکن فورسز کی ٹریننگ کی ایک بات جو میں جانتا ہوں، وہ یہ کہ انھیں کبھی تھپّڑ کھا کر برداشت کرنا نہیں سکھایا جاتا۔ غلط یا صحیح سے ماوریٰ، یہ بدلہ لینے کے عادی ہوتے ہیں، بلکہ یہ ان کی جبلّت میں تُن دیا جاتا ہے۔
آج کا دن دیکھ لیں، اپنے آس پاس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں، اور کسی بھی صورت، کوئی فوری ری ایکشن نہ دیں، ورنہ کام اسی ٹی بریک والا ہوگا۔ ان کو سرپرائز دیں، اور ان کے کھینچے گئے نقشے واضع ہونے کے بعد کوئی قدم اٹھائیں۔
پر امن احتجاج ہر کسی کا حق ہے۔ اس حق کو چھیننے والوں کے منہہ پر تھپّڑ ہی پڑنا چاہیئے۔