ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا ملبہ عمران خان پر،مونس الہیٰ، خالد خورشید کا ردعمل

4dgisprrdwaadfghj.png

اُس وقت کی فوجی قیادت نے ہمیں دہشت گردوں کو معاشرے میں شامل کرنے کو ان کی اصلاح کے لیے بہترین حل کے طور پر پیش کیا تھا- ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کے سوال پر مونس الہی اور سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان بھی بول پڑے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے آج پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا 2021 میں کس کی ضد تھی کہ بات چیت کرکے ان کو سیٹیل کیا جائے، بات چیت کی اس ضد کی قیمت خیبرپختونخوا ادا کر رہا ہے، بجائے اس پر بیانیہ بنانے کے خیبرپختونخوا میں گڈ گورننس پر توجہ دیں، ایسے ہر مسئلہ کا حل بات چیت سے ہوتا تو دنیا میں جنگ اور غزاوت نہ ہوتے، ایسے رویے کی قیمت پوری قوم دیتی ہے، بجائے اس پر بیانہ بنائیں، سیاسیت کریں، گڈ گورننس کیوں نہ کریں، انہوں نے کیونکہ گڈ گورننس پر توجہ نہیں دینی اس لیے اس پر سیاسیت کرنی ہے۔

https://twitter.com/x/status/1872655060007821797
مونس الہی نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے دعوے پر ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب، میں پارلیمنٹ میں موجود تھا جب اُس وقت کی فوجی قیادت نے ہمیں خطاب کیا اور ایک تفصیلی پریزنٹیشن دی، جس میں دہشت گردوں کو معاشرے میں شامل کرنے کو ان کی اصلاح کے لیے بہترین حل کے طور پر پیش کیا گیا۔ پی ڈی ایم کے موجودہ کئی اراکینِ اسمبلی بھی وہاں موجود تھے۔

https://twitter.com/x/status/1872631191553343931
خالد خورشید خان نے کہا بالکل درست، میں بھی وہاں موجود تھا۔ پارلیمنٹ میں دو اجلاس ہوئے، ایک اس وقت جب تحریک انصاف حکومت میں تھی اور دوسرا اس وقت جب شہباز شریف وزیرِاعظم تھے۔ بطور وزیرِاعلیٰ گلگت بلتستان میں نے دونوں اجلاسوں میں شرکت کی۔


https://twitter.com/x/status/1872644164149789170
اظہر مشوانی نے پاکستان میں ٹی ٹی پی کی واپسی سے متعلق اپنے تفصیلی ٹویٹ میں کہا یہ عمل رجیم چینج کے بعد 2022 کی گرمیوں میں شروع ہوا اور یہ عمران خان کا نہیں بلکہ جنرل باجوہ کا منصوبہ تھا۔ اکتوبر 2021 میں وزیرِاعظم عمران خان کی زیرِ صدارت ایک میٹنگ میں جنرل باجوہ نے یہ تجویز پیش کی، جس پر مراد سعید، شیریں مزاری، اور پیر نورالحق قادری نے کھل کر مخالفت کی۔ بعد ازاں خیبر پختونخوا کے اراکینِ قومی اسمبلی نے بھی بریفنگ کے دوران اس منصوبے کی مخالفت کی، جس کے باعث یہ معاملہ وقتی طور پر رک گیا۔

رجیم چینج کے بعد جون 2022 میں ایک وفد افغانستان بھیجا گیا۔ اس پر مراد سعید نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ خیبر پختونخوا حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر یہ وفد کیسے بھیجا گیا۔ جولائی 2022 میں مالاکنڈ اور سوات کے علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے لوگ نظر آنے لگے، جس پر مراد سعید نے عوامی امن تحریک شروع کی اور انہیں واپس جانے پر مجبور کیا۔ اس وقت کے وزیرِداخلہ نے دعویٰ کیا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور کوئی طالبان سوات میں نہیں آئے۔

ان واقعات کے بعد مراد سعید کو اسٹیبلشمنٹ اور TTP کی ہٹ لسٹ پر رکھ دیا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کو عمران خان پر الزام لگانے کی بجائے ادارے کے ریکارڈ کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ حقائق سامنے آ سکیں۔

https://twitter.com/x/status/1872630165261472068
رضی طاہر نے کہا مئی 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں تھی لیکن باجوہ اور فیض ڈاکٹرائن جاری تھی، جسے پارلیمنٹیرینز نے مسترد کیا۔ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پہلا سیز فائر معائدہ پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے ایک ماہ بعد ہوا۔ اب اس سیز فائر کا جواب کس سے لینا ہے؟ پھر نومبر 2022 تک یہ سیز فائر رہا، اسی دوران مراد سعید نے الزام عائد کیا تھا کہ سوات میں دہشتگرد واپس آرہے ہیں۔ کڑیوں سے کڑیاں ملائیں۔ حقیقت کھل جائے گی۔ اس سیز فائر معاہدے کا ہونا شیریں مزاری کے دعوے کو درست قرار دیتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹی ٹی پی کی دوبارہ آبادکاری سے اختلاف کیا تھا اور پھر ہماری حکومت چلی گئی

https://twitter.com/x/status/1872647035482214739
محمد عمیر نے کہا ٹی ٹی پی کی واپسی پی ڈی ایم دور میں جاری رہی، باجوہ، فیض بریفنگ دیتے رہے۔ اپنے ادارے کی اصلاح اور غلطیاں تسلیم کرنے کی بجائے ایسے شخص پر الزامات لگائے جارہے جس کے نام پر بھی پابندی ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ دار یحیی خان کو سرکاری پروٹوکول میں دفنایا گیا اور قوم کا ہیرو ایم ایم عالم جبری طور ادارے سے نکالا گیا۔ ڈی جی صاحب اپکا ادارہ ٹھیک ہونے تک کچھ ٹھیک نہیں ہوگا یہی حقیقیت ہے یہی سچ ہے

https://twitter.com/x/status/1872649519759860163
https://twitter.com/x/status/1872659984057848259
https://twitter.com/x/status/1872683353364963472
https://twitter.com/x/status/1872588272507215909
 
Last edited by a moderator:

Back
Top