Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
سب سے زیادہ شرم کا مقام سپیکر قومی اسمبلی کا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے پولیسے پارلیمان میں گھس کر نمائندوں کو گرفتار کر رہی ہے ؟؟؟ ایسا کبھی سوچا نہ تھا۔ یہاں تو آنکھ دکھانے پر ان کا استحقاق مجروح ہو جاتا تھا۔ اور بڑے افسران کو بلا کر بے عزتی کی جاتی تھی کہ ان کی جرات کیسے ہوئ کہ اک منتخب نمائندے کی تکریم نہی ہوئ۔ پیپلز پارٹی پر حیرانگی ہے۔ اتنے بے شرم ہونے کی توقع نہی تھی۔ اب اک مشکوک فارم پنتالیس والی اسمبلی ہے اور اپنے ممبران کی بے عزتی کروا کے خوش ہو رہی ہے۔ میاں صاب تو لندن جا رہے ہیں خواجہ ٹائپ خود بھاگ بھی گئے تو باقی خاندان کہاں جائے گا۔ کوئ شرم لحاظ کر لیں تا کہ ہمارے جیسے مدد کے لیے آئیں۔
https://twitter.com/x/status/1833308386013663467
معاف کیجیے گا پارلیمان کی بے عزتی پر کچھ لوگ سوچ رہے ہو گیں کہ میں شائد زیادہ جزباتی ہو رہا ہوں۔ بلکل صحیح۔ میں واقعی جزباتی ہوں آج۔ اس اطلاع پر کے پولیس پارلیمان میں گھس کر ممبران کو گرفتار کر کے لے گئ۔ ہم پارلیمانی صحافی کبھی ایسا سوچ ہی نہی سکتے تھے۔ یہ عمران خان یا اس کی پارٹی کی بات نہی۔ یہ پارلیمان کی بات ہے۔ ہم نے ایسا پارلیمانی حملہ نہی دیکھا۔ میں نے زندگی گی تیس سال پارلیمان کی صحافت میں گزارے۔ نصرت جاوید اور شاہین صہبائ میرے سینئر تھے۔ اظہر سہیل اپنے دور کے عظیم صحافی تھے جن پر اک علیہدہ کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ مہمد مالک ظفر عباس اور حامد میر میرے ہم عصر تھی۔ ہم رپورڑنگ کرتے اتنے محتاط تھے کے کوئ خستاخی نہ ہو جائے۔ پارلیمان کی تکریم صحافتی آزادی سے زیادہ مقدم ہوتی تھی۔ کیونکہ ممبران بھی ہماری تکریم کرتے تھے۔ اب گند پڑ گیا ہے۔ پتا نہی کون کیا ہے۔ کہاں عزت ہے اور کہاں نہی۔ بنیادی بات۔ عزت زبردستی سے نہی ہوتی۔ آج کی پارلیمان اک شرمندگی کا مقام ہے۔ اور ہم سب بھی شرمندہ ہیں۔ میرے دوست شائد اس دور کی ترجمانی بہتر کر سکیں۔ مگر موجودہ بہت گھٹیا لوگ ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1833327945626046788
پارلیمان کی اہمیت کیا ہے۔ یہ بینالاقوامی ائرپورٹ سے زیادہ ہے۔ یہ No Man’s Land ہے۔ یہاں کوئ گھس نہی سکتا۔ یہ علامت ہے کہ یہاں بغیر سپیکر کی اجازت کے پاکستان کی فوج بھی نہی گھس سکتی۔ اگر پارلیمانی نمائندے اس طرح اٹھائے گئے ہیں تو یہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے شرم کا مقام ہے۔ اگلی دفعہ انہیں کون بچائے گا۔ اور خدا کے لیے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی بات نہ کیجئے گا اس کے بعد۔ شرم آنی چاہیے آپ کو
https://twitter.com/x/status/1833302901617467600
پارلیمان کی اتنی بے عزتی کبھی نہی ہوئ۔ آج جس طرح پارلیمان سے باہر نکلتے نمائندوں کو گرفتار کیا گیا اور آخری اطلاعوں تک کی ایم این ایز پارلیمان میں بیٹھے ہیں کہ باہر نکلنے پر گرفتار نہ ہو جائیں یہ تنزلی کی انتہا ہے۔ گاڑیوں کی ڈکی چیک کی جا رہی ہے کہ کہیں ممبران اس میں چھپ کر نہ بھاگ جائیں۔ اور حکومتی ارکان خاموش ہیں بلکہ مزے لے رہے ہیں۔ کہ مخبری کر رہے ہیں کے فلانہ یوں نکل رہا ہے۔ ن لیگ والوں کی سمجھ آتی ہے۔ وہ اختیار کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ خواجہ آصف ہو یا احسن اقبال یہ فارم پنتالیس اور نفرت کی آگ میں آگے جا چکے۔ حیرانگی پیپلز پارٹی پر آتی ہے۔ شاید ابھی بھی بینظیر کے صدقے آصف زرداری پارٹی سے کچھ اخلاقی امید لگائے بھیٹھے ہیں۔ تیس سال پارلیمان رپورٹنگ میں نہ سوچا تھا کہ یہ دن آ سکتا ہے۔ کہ کوئ پارلیمان پر اس طرح ہاتھ ڈالے۔ ن لیگ کی سمجھ آتی ہے کہ انکو اپنی جائداد بچانے کے لیے اور پاور کے لیے وہ ہر حد پار کر جائیں گیں۔ ضیا کا خمیر آخر جاگ چکا۔ مگر پارلیمان کی یہ بے عزتی۔ سوچا نہ تھا ہم نے یہ سماع۔
https://twitter.com/x/status/1833269389048893624
https://twitter.com/x/status/1833308386013663467
معاف کیجیے گا پارلیمان کی بے عزتی پر کچھ لوگ سوچ رہے ہو گیں کہ میں شائد زیادہ جزباتی ہو رہا ہوں۔ بلکل صحیح۔ میں واقعی جزباتی ہوں آج۔ اس اطلاع پر کے پولیس پارلیمان میں گھس کر ممبران کو گرفتار کر کے لے گئ۔ ہم پارلیمانی صحافی کبھی ایسا سوچ ہی نہی سکتے تھے۔ یہ عمران خان یا اس کی پارٹی کی بات نہی۔ یہ پارلیمان کی بات ہے۔ ہم نے ایسا پارلیمانی حملہ نہی دیکھا۔ میں نے زندگی گی تیس سال پارلیمان کی صحافت میں گزارے۔ نصرت جاوید اور شاہین صہبائ میرے سینئر تھے۔ اظہر سہیل اپنے دور کے عظیم صحافی تھے جن پر اک علیہدہ کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ مہمد مالک ظفر عباس اور حامد میر میرے ہم عصر تھی۔ ہم رپورڑنگ کرتے اتنے محتاط تھے کے کوئ خستاخی نہ ہو جائے۔ پارلیمان کی تکریم صحافتی آزادی سے زیادہ مقدم ہوتی تھی۔ کیونکہ ممبران بھی ہماری تکریم کرتے تھے۔ اب گند پڑ گیا ہے۔ پتا نہی کون کیا ہے۔ کہاں عزت ہے اور کہاں نہی۔ بنیادی بات۔ عزت زبردستی سے نہی ہوتی۔ آج کی پارلیمان اک شرمندگی کا مقام ہے۔ اور ہم سب بھی شرمندہ ہیں۔ میرے دوست شائد اس دور کی ترجمانی بہتر کر سکیں۔ مگر موجودہ بہت گھٹیا لوگ ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1833327945626046788
پارلیمان کی اہمیت کیا ہے۔ یہ بینالاقوامی ائرپورٹ سے زیادہ ہے۔ یہ No Man’s Land ہے۔ یہاں کوئ گھس نہی سکتا۔ یہ علامت ہے کہ یہاں بغیر سپیکر کی اجازت کے پاکستان کی فوج بھی نہی گھس سکتی۔ اگر پارلیمانی نمائندے اس طرح اٹھائے گئے ہیں تو یہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے شرم کا مقام ہے۔ اگلی دفعہ انہیں کون بچائے گا۔ اور خدا کے لیے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی بات نہ کیجئے گا اس کے بعد۔ شرم آنی چاہیے آپ کو
https://twitter.com/x/status/1833302901617467600
پارلیمان کی اتنی بے عزتی کبھی نہی ہوئ۔ آج جس طرح پارلیمان سے باہر نکلتے نمائندوں کو گرفتار کیا گیا اور آخری اطلاعوں تک کی ایم این ایز پارلیمان میں بیٹھے ہیں کہ باہر نکلنے پر گرفتار نہ ہو جائیں یہ تنزلی کی انتہا ہے۔ گاڑیوں کی ڈکی چیک کی جا رہی ہے کہ کہیں ممبران اس میں چھپ کر نہ بھاگ جائیں۔ اور حکومتی ارکان خاموش ہیں بلکہ مزے لے رہے ہیں۔ کہ مخبری کر رہے ہیں کے فلانہ یوں نکل رہا ہے۔ ن لیگ والوں کی سمجھ آتی ہے۔ وہ اختیار کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ خواجہ آصف ہو یا احسن اقبال یہ فارم پنتالیس اور نفرت کی آگ میں آگے جا چکے۔ حیرانگی پیپلز پارٹی پر آتی ہے۔ شاید ابھی بھی بینظیر کے صدقے آصف زرداری پارٹی سے کچھ اخلاقی امید لگائے بھیٹھے ہیں۔ تیس سال پارلیمان رپورٹنگ میں نہ سوچا تھا کہ یہ دن آ سکتا ہے۔ کہ کوئ پارلیمان پر اس طرح ہاتھ ڈالے۔ ن لیگ کی سمجھ آتی ہے کہ انکو اپنی جائداد بچانے کے لیے اور پاور کے لیے وہ ہر حد پار کر جائیں گیں۔ ضیا کا خمیر آخر جاگ چکا۔ مگر پارلیمان کی یہ بے عزتی۔ سوچا نہ تھا ہم نے یہ سماع۔
https://twitter.com/x/status/1833269389048893624
- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/6UVSisY.jpeg