Ramadan Package for Indians from UBL :-)
اسلام آباد (رؤف کلاسرا) پاکستان کے یونائیڈ بنک لمٹیڈ جس میں حکومت پاکستان کے تیس فیصد شئیر ہیں، نے خاموشی سے تین سو غیر ملکیوں کے ذمہ تقریبا 1.5 ارب روپے کا واجب الادا قرضہ معاف کر دیا ہے جن میں خاصی تعداد بھارتی کاروباری شخصیات اور شہریوں کی ہے جو دوئبی ، قطراور شارجہ میں رہتے ہیں ۔
یو بی ایل نے کا چارسو کے قریب لوگوں کے تین ارب روپے کے قرضے معاف کے جن میں پاکستانیوں کی تعداد صرف ایک سو لوگوں اور ان سے تین گنا یعنی تین سو کے لگ بھگ غیرملکیوں کے قرضہ معاف کئے گئے ہیں جن میں اکثریت بھارت ، دوبئی، شارجہ، ابو دھابی ، قطر، عراق، لبنان، افغانستان اور شام کے شہریوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ان ریاستوں میں یو بی ایل کی برانچوں سے قرضے لیے اور واپس نہیں کیے اور اب وہ رقومات انہیں معاف کر دی گئیں۔
یو بی ایل فروخت میں اربوں کا نقصان
بڑے مزے کا بات ہے کہ پاکستان کے جن لوگوں نے پانچ لاکھ سے کم قرضہ بنک سے لیا انہوں نے تقریبا سارے قرضے واپس کیے کیونکہ بنک کو پاکستان میں قائم اپنی 1121 برانچوں میں دئے گئے قرضوں میں سے صرف ساٹھ لاکھ روپے کا چھوٹا قرضہ معاف کرنا پڑا۔ جب کہ پاکستان سے باہر صرف سترہ برانچوں میں اسے چھوٹے قرضہ کی مد میں سات کڑور روپے کا نقصان ہوا اور یہ رقم معاف کرنا پڑی اور یہ رقوم ذیادہ تر دوبئی، شارجہ، قطر اور ابو دھابی کی برانچوں میں معاف کی گئیں۔
یوں چھوٹے قرضے لینے پاکستانیوں کی قرضہ شرح واپسی ، غیر ملکیوں کی نسبت بہت بہتر رہی ہے اور اس یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ عام تاثر کے برعکس چھوٹے کاروباری پاکستانی اپنے قرضے واپس کرنے میں دوسرے ملکوں کے شہریوں سے بہت بہتر تھے۔
صرف ایک بھارتی شہری سریندر لال مکھن کا بارہ کڑور روپے کا قرضہ معاف کیا گیا ہے۔ ایک اور مسٹر ونے کمار کا ستاسی لاکھ روپے کا قرضہ معاف ہوا۔ ایک اور بھارتی شہری ،محی الدین غوری نے پاکستانی بنک سے اٹھارہ لاکھ روپے معاف کرائے۔
جب ان غیر ملکی شہریوں کے پاکستانی بنک کو واجب الادا قرضے معاف کرنے کا کیس بورڈ آف ڈائکٹرز کے آگے لایا گیا تو اس میں پاکستانی وزارت خزانہ کے دو سینر افسران سمیع سیعد اور سیرت اصغر بھی موجود تھے۔ ان دونوں آفسران کو حکومت پاکستان کی طرف سے یوبی ایل کے بورڈ آف ڈائکٹرز کا ممبر مقر ر کیا گیا ہے کیونکہ تیس فیصد شئیر ابھی بھی حکومت کے پاس ہے اور انہوں نے بھی بورڈ کے باقی ممبران کے ساتھ مل کر ان قرضوں کو معاف کرنے کی منظوری دی۔
ایک پاکستانی بنک کی طرف سے تین سو سے ذیادہ غیر ملکیوں کے قرضے معاف کرنے کی یہ نئی فہرست اس وقت سامنے آئی ہے جب کہ سپریم کورٹ میں 2007 سے ایک کیس چل رہا ہے جو چیف جسٹں افتخار محمد چوہدری نے ایک خبر پر سوموٹو لیا تھا جس کے مطابق جنرل مشرف دور میں 54 ارب روپے معاف کئے گئے تھے۔
پچھلے چار سال سے یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اور اب یہ بتایا گیا ہے کہ 1971 سے اب تک ڈھائی ارب روپے کے قرضے طاقتور پاکستانی سیاستدانوں، کاروباری گھرانوں، ٹیکسٹائل ملز، شوگر ملز مالکان جو مختلف حکومتوں میں شامل رہے، ریٹائرڈ فوجیوں اور دیگر لوگوں نے بنکوں سے معاف کرائے تھے۔ چیف جسٹں نے اس پر سخت ہدایات جاری کی تھیں کہ یہ قرضہ نہ صرف ماضی میں معاف ہونا والا قرضہ واپس لیا جائے بلکہ مستقبل میں اس طرح کے قرضے معاف نہ کئے جائیں کیونکہ یہ عوام کا پیسہ تھا جو چند لوگوں کی جیبوں میں جا رہا تھا جو پرانے قرضہ معاف کرانے کے بعد نئے قرضے لیکر اس ملک اور قوم کو لوٹ رہے تھے۔ تاہم بنکوں نے سپریم کورٹ میں یہ دلیل دی تھی کہ جو قرضے معاف ہو چکے تھے انہیں اب واپس لینا مشکل کام تھا کہ بھلا بینکار کیسے اپنی غلطی مانیں گے کہ انہوں نے سیاسی دباؤ، لالچ، یا پیسے لے کے بنک کے قرضے معاف کے تھے۔ یوں یہ کیس ابھی تک سپریم کورٹ میں لٹکا ہو ا تھا اور اب یہ خبر آگئی ہے کہ پاکستانیوں کو تو چھوڑیں اب تو پاکستانی بنک جس میں حکومت پاکستان نے باقاعدہ شئیرز تھے، نے تین سو کے قریب غیر ملکیوں کے قرضے معاف کر دیے ہیں۔
غیر ملکیوں کے قرضے معاف کرنے کا انکشاف وزارت خزانہ نے اپنی ایک سرکار ی رپورٹ میں کیا ہے جو قومی اسمبلی کو بھیجی گئی تھی اور وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے اپنے دستخطوں سے ان غیر ملکوں کے نام اور ان کو معاف ہونے والے قرضے کی تفصصلات فراہم کی ہیں۔
سرکار ی دستیاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یوناٹیڈ بنک جسے حکومت پاکستان نے بیسٹ وے گروپ کے کنسوریشم کو اکاون پرسنٹ شیئرز دے کا اس کا انتطامی کنٹرول ٹرانسفر کر دیا تھا ، نے اب پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ اپنے ان کلائنٹس کے قرضے بھی معاف کر دے ہیں جو اس ملک کے شہری بھی نہیں۔
غیرملکیوں کے قرضے معاف کرنے کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب قومی اسمبلی نے وزارت خزانہ کو لکھ کر بھیجا کہ تمام پاکستانی بنکوں بشمول جن کی نج کاری کی گئی تھی اور اس میں ابھی بھی حکومت پاکستان نے شیزر تھے، کی طرف سے معاف کئے گئے قرضوں کی فہر ست فراہم کی جائے۔
یو بی ایل کی اب قومی اسمبلی کو پیش کی گئی معاف ہونے والے قرضوں کی فہرست پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ پچھلے سال یوبی ایل نے کل چار سو بائیس لوگوں کے ذمہ قرضے معاف کیے گئے اور ان میں سے تین سو غیر ملکی ہیں ۔اس بنک کے کل معاف ہونے والی قرضوں کی مالیت تین ارب روپے بنتی ہے اور اس میں ڈیرھ ارب روپیہ ان غیرملکیوں کو معاف کیا گیا ہے۔
دستاویزات سے یہ بھی انکشاف ہو تا ہے کہ ان قرضوں کو معاف کرنے کے علاوہ بھی یوبی ایل نے اپنی اٹو سکیم میں 33ملین کا قرضہ معاف کیا، کیش لائن 48 ملین، کریڈٹ کارڈز میں پیسوں کی معافی سب سے زیادہ ہوئی کہ 893 ملین معاف کئے گئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بنک نے دبا کر کریڈٹ کارڈز پر اپنے کلائنٹس کو پیسہ دیا وہ بڑے پیمانے پر ڈوب گیا اور اتنی بڑی رقم معاف کر نی پڑی۔ مووگیج اور بزنس لائن میں 36 ملین معاف کئے گئے، زاتی لون سکیم میں 14 ملین معاف ہوے۔
قومی اسمبلی سے ملنے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے جن بھارتی کاروباری شہریوں کو قرضے معاف کئے گئے ہیں ان میں روی کمار آٹھ لاکھ روپے، آسیت پاریکھ نو لاکھ، پراسن کمار بارہ لاکھ، کمار شکلا بائیس لاکھ، اروند رائنا نو لاکھ، گیتا پاریکھ سات لاکھ، پوجرے اشوکا گوپالہ بیس لاکھ، تندیال کرشنن چونتیس لاکھ، رام شنکر سات لاکھ، چدم برم کمار اٹھ لاکھ، امریت بہادر کھڈکا اٹھ لاکھ، گنیش کمار چھ لاکھ، راجندرن کالی یوٹو بیس لاکھ، موہن کاراپانڈے چودہ لاکھ، شیلیش کمار دس لاکھ، کمار کاڈکا سات لاکھ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اور بھارتی شہریوں کے قرضے معاف کئے گئے ہیں۔
ان کے علاوہ ایک یو اے ای کے شہری حماد اذان کا چھ کڑور روپے کا قرضہ معاف ہوا، غیرملکی محمد جواد حیب نے تیرہ کڑور روپے معاف کرائے، محمد احمد حامد نے پانچ کڑور روپے معاف کرائے، جمہ درویش سلیم نے بارہ کڑور روپے معاف کرائے، ایک اور یواے ای کے شہری عبدالرحیم محمد ملا کا گیارہ کڑور روپے معاف کیا گیا۔ ان کے علاوہ دیگر ملکوں کے شہریوں کے ذمہ قرضوں کو بھی معاف کیا گیا جن کی ما لیت پانچ لاکھ سے لے کر ایک کڑرو روپے تک تھی۔
اسلام آباد (رؤف کلاسرا) پاکستان کے یونائیڈ بنک لمٹیڈ جس میں حکومت پاکستان کے تیس فیصد شئیر ہیں، نے خاموشی سے تین سو غیر ملکیوں کے ذمہ تقریبا 1.5 ارب روپے کا واجب الادا قرضہ معاف کر دیا ہے جن میں خاصی تعداد بھارتی کاروباری شخصیات اور شہریوں کی ہے جو دوئبی ، قطراور شارجہ میں رہتے ہیں ۔
یو بی ایل نے کا چارسو کے قریب لوگوں کے تین ارب روپے کے قرضے معاف کے جن میں پاکستانیوں کی تعداد صرف ایک سو لوگوں اور ان سے تین گنا یعنی تین سو کے لگ بھگ غیرملکیوں کے قرضہ معاف کئے گئے ہیں جن میں اکثریت بھارت ، دوبئی، شارجہ، ابو دھابی ، قطر، عراق، لبنان، افغانستان اور شام کے شہریوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ان ریاستوں میں یو بی ایل کی برانچوں سے قرضے لیے اور واپس نہیں کیے اور اب وہ رقومات انہیں معاف کر دی گئیں۔
یو بی ایل فروخت میں اربوں کا نقصان
بڑے مزے کا بات ہے کہ پاکستان کے جن لوگوں نے پانچ لاکھ سے کم قرضہ بنک سے لیا انہوں نے تقریبا سارے قرضے واپس کیے کیونکہ بنک کو پاکستان میں قائم اپنی 1121 برانچوں میں دئے گئے قرضوں میں سے صرف ساٹھ لاکھ روپے کا چھوٹا قرضہ معاف کرنا پڑا۔ جب کہ پاکستان سے باہر صرف سترہ برانچوں میں اسے چھوٹے قرضہ کی مد میں سات کڑور روپے کا نقصان ہوا اور یہ رقم معاف کرنا پڑی اور یہ رقوم ذیادہ تر دوبئی، شارجہ، قطر اور ابو دھابی کی برانچوں میں معاف کی گئیں۔
یوں چھوٹے قرضے لینے پاکستانیوں کی قرضہ شرح واپسی ، غیر ملکیوں کی نسبت بہت بہتر رہی ہے اور اس یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ عام تاثر کے برعکس چھوٹے کاروباری پاکستانی اپنے قرضے واپس کرنے میں دوسرے ملکوں کے شہریوں سے بہت بہتر تھے۔
صرف ایک بھارتی شہری سریندر لال مکھن کا بارہ کڑور روپے کا قرضہ معاف کیا گیا ہے۔ ایک اور مسٹر ونے کمار کا ستاسی لاکھ روپے کا قرضہ معاف ہوا۔ ایک اور بھارتی شہری ،محی الدین غوری نے پاکستانی بنک سے اٹھارہ لاکھ روپے معاف کرائے۔
جب ان غیر ملکی شہریوں کے پاکستانی بنک کو واجب الادا قرضے معاف کرنے کا کیس بورڈ آف ڈائکٹرز کے آگے لایا گیا تو اس میں پاکستانی وزارت خزانہ کے دو سینر افسران سمیع سیعد اور سیرت اصغر بھی موجود تھے۔ ان دونوں آفسران کو حکومت پاکستان کی طرف سے یوبی ایل کے بورڈ آف ڈائکٹرز کا ممبر مقر ر کیا گیا ہے کیونکہ تیس فیصد شئیر ابھی بھی حکومت کے پاس ہے اور انہوں نے بھی بورڈ کے باقی ممبران کے ساتھ مل کر ان قرضوں کو معاف کرنے کی منظوری دی۔
ایک پاکستانی بنک کی طرف سے تین سو سے ذیادہ غیر ملکیوں کے قرضے معاف کرنے کی یہ نئی فہرست اس وقت سامنے آئی ہے جب کہ سپریم کورٹ میں 2007 سے ایک کیس چل رہا ہے جو چیف جسٹں افتخار محمد چوہدری نے ایک خبر پر سوموٹو لیا تھا جس کے مطابق جنرل مشرف دور میں 54 ارب روپے معاف کئے گئے تھے۔
پچھلے چار سال سے یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اور اب یہ بتایا گیا ہے کہ 1971 سے اب تک ڈھائی ارب روپے کے قرضے طاقتور پاکستانی سیاستدانوں، کاروباری گھرانوں، ٹیکسٹائل ملز، شوگر ملز مالکان جو مختلف حکومتوں میں شامل رہے، ریٹائرڈ فوجیوں اور دیگر لوگوں نے بنکوں سے معاف کرائے تھے۔ چیف جسٹں نے اس پر سخت ہدایات جاری کی تھیں کہ یہ قرضہ نہ صرف ماضی میں معاف ہونا والا قرضہ واپس لیا جائے بلکہ مستقبل میں اس طرح کے قرضے معاف نہ کئے جائیں کیونکہ یہ عوام کا پیسہ تھا جو چند لوگوں کی جیبوں میں جا رہا تھا جو پرانے قرضہ معاف کرانے کے بعد نئے قرضے لیکر اس ملک اور قوم کو لوٹ رہے تھے۔ تاہم بنکوں نے سپریم کورٹ میں یہ دلیل دی تھی کہ جو قرضے معاف ہو چکے تھے انہیں اب واپس لینا مشکل کام تھا کہ بھلا بینکار کیسے اپنی غلطی مانیں گے کہ انہوں نے سیاسی دباؤ، لالچ، یا پیسے لے کے بنک کے قرضے معاف کے تھے۔ یوں یہ کیس ابھی تک سپریم کورٹ میں لٹکا ہو ا تھا اور اب یہ خبر آگئی ہے کہ پاکستانیوں کو تو چھوڑیں اب تو پاکستانی بنک جس میں حکومت پاکستان نے باقاعدہ شئیرز تھے، نے تین سو کے قریب غیر ملکیوں کے قرضے معاف کر دیے ہیں۔
غیر ملکیوں کے قرضے معاف کرنے کا انکشاف وزارت خزانہ نے اپنی ایک سرکار ی رپورٹ میں کیا ہے جو قومی اسمبلی کو بھیجی گئی تھی اور وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے اپنے دستخطوں سے ان غیر ملکوں کے نام اور ان کو معاف ہونے والے قرضے کی تفصصلات فراہم کی ہیں۔
سرکار ی دستیاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یوناٹیڈ بنک جسے حکومت پاکستان نے بیسٹ وے گروپ کے کنسوریشم کو اکاون پرسنٹ شیئرز دے کا اس کا انتطامی کنٹرول ٹرانسفر کر دیا تھا ، نے اب پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ اپنے ان کلائنٹس کے قرضے بھی معاف کر دے ہیں جو اس ملک کے شہری بھی نہیں۔
غیرملکیوں کے قرضے معاف کرنے کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب قومی اسمبلی نے وزارت خزانہ کو لکھ کر بھیجا کہ تمام پاکستانی بنکوں بشمول جن کی نج کاری کی گئی تھی اور اس میں ابھی بھی حکومت پاکستان نے شیزر تھے، کی طرف سے معاف کئے گئے قرضوں کی فہر ست فراہم کی جائے۔
یو بی ایل کی اب قومی اسمبلی کو پیش کی گئی معاف ہونے والے قرضوں کی فہرست پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ پچھلے سال یوبی ایل نے کل چار سو بائیس لوگوں کے ذمہ قرضے معاف کیے گئے اور ان میں سے تین سو غیر ملکی ہیں ۔اس بنک کے کل معاف ہونے والی قرضوں کی مالیت تین ارب روپے بنتی ہے اور اس میں ڈیرھ ارب روپیہ ان غیرملکیوں کو معاف کیا گیا ہے۔
دستاویزات سے یہ بھی انکشاف ہو تا ہے کہ ان قرضوں کو معاف کرنے کے علاوہ بھی یوبی ایل نے اپنی اٹو سکیم میں 33ملین کا قرضہ معاف کیا، کیش لائن 48 ملین، کریڈٹ کارڈز میں پیسوں کی معافی سب سے زیادہ ہوئی کہ 893 ملین معاف کئے گئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بنک نے دبا کر کریڈٹ کارڈز پر اپنے کلائنٹس کو پیسہ دیا وہ بڑے پیمانے پر ڈوب گیا اور اتنی بڑی رقم معاف کر نی پڑی۔ مووگیج اور بزنس لائن میں 36 ملین معاف کئے گئے، زاتی لون سکیم میں 14 ملین معاف ہوے۔
قومی اسمبلی سے ملنے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے جن بھارتی کاروباری شہریوں کو قرضے معاف کئے گئے ہیں ان میں روی کمار آٹھ لاکھ روپے، آسیت پاریکھ نو لاکھ، پراسن کمار بارہ لاکھ، کمار شکلا بائیس لاکھ، اروند رائنا نو لاکھ، گیتا پاریکھ سات لاکھ، پوجرے اشوکا گوپالہ بیس لاکھ، تندیال کرشنن چونتیس لاکھ، رام شنکر سات لاکھ، چدم برم کمار اٹھ لاکھ، امریت بہادر کھڈکا اٹھ لاکھ، گنیش کمار چھ لاکھ، راجندرن کالی یوٹو بیس لاکھ، موہن کاراپانڈے چودہ لاکھ، شیلیش کمار دس لاکھ، کمار کاڈکا سات لاکھ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اور بھارتی شہریوں کے قرضے معاف کئے گئے ہیں۔
ان کے علاوہ ایک یو اے ای کے شہری حماد اذان کا چھ کڑور روپے کا قرضہ معاف ہوا، غیرملکی محمد جواد حیب نے تیرہ کڑور روپے معاف کرائے، محمد احمد حامد نے پانچ کڑور روپے معاف کرائے، جمہ درویش سلیم نے بارہ کڑور روپے معاف کرائے، ایک اور یواے ای کے شہری عبدالرحیم محمد ملا کا گیارہ کڑور روپے معاف کیا گیا۔ ان کے علاوہ دیگر ملکوں کے شہریوں کے ذمہ قرضوں کو بھی معاف کیا گیا جن کی ما لیت پانچ لاکھ سے لے کر ایک کڑرو روپے تک تھی۔
Last edited: