
پاکستان کی معروف ٹیکنالوجی درسگاہ این ای ڈی یونیورسٹی کی فارغ التحصیل طالبہ صبوحی عارف نے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کی مدد سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ایک بڑے مسئلے کا حل پیش کر دیا ہے۔ انہوں نے ایک ایسا نظام تیار کیا ہے جو کپڑے کی تیاری کے دوران ہی اس کے معیار اور نقائص کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ اس ایجاد سے نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ہونے والے سالانہ کروڑوں روپے کے ضیاع میں کمی آئے گی، بلکہ برآمدات کے دوران مصنوعات کے مسترد ہونے کے خطرات بھی کم ہو جائیں گے۔
صبوحی عارف، جو این ای ڈی یونیورسٹی سے آٹومیشن اینڈ اپلی کیشن انجینئرنگ کی ڈگری یافتہ ہیں، نے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک منفرد نظام تیار کیا ہے جسے "انٹیلی انسپیکٹ" کا نام دیا گیا ہے۔ یہ نظام رئیل ٹائم میں کپڑے کی خامیوں کو شناخت کرتا ہے، جس میں ٹوٹے ہوئے دھاگے، داغ دھبے، کٹے پھٹے کپڑے، اور سوراخ جیسی خرابیاں شامل ہیں۔ یہ سسٹم نہ صرف خام کپڑے (گرے فیبرک) بلکہ رنگے ہوئے (ڈائیڈ) اور پرنٹڈ کپڑوں میں بھی ان خامیوں کو تلاش کر سکتا ہے۔
صبوحی عارف کے مطابق، یہ نظام دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا تجزیاتی سسٹم ہے، جو ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ، گارمنٹ پروڈکشن، آٹو موٹیو ٹیکسٹائل، ہوم فرنشنگ، اور انڈسٹریل ٹیکسٹائل جیسے شعبوں میں استعمال ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سسٹم کی درستگی کا تناسب نٹڈ فیبرک میں 95 فیصد اور ووون فیبرک میں 90 فیصد سے زائد رہا ہے۔ یہ نظام صرف 40 سے 77 سیکنڈز کے اندر کپڑے کی خامیوں کی نشاندہی کر سکتا ہے۔
صبوحی عارف کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مینوفیکچرنگ لائن پر نصب کیا جا سکتا ہے، جہاں یہ ہائی اسپیڈ سینسرز اور کیمروں کی مدد سے کپڑے کی خامیوں کو فوری طور پر شناخت کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف نقص والے کپڑے سے مصنوعات بنانے کے اخراجات میں کمی آئے گی، بلکہ پیداواری نقصانات کو کم کر کے انڈسٹری کے منافع میں بھی اضافہ ہو گا۔
انٹیلی انسپیکٹ سسٹم ٹیکسٹائل انڈسٹری کی کارکردگی اور رفتار کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ لاگت میں کمی اور ڈیٹا پر مبنی تجزیات کو ممکن بنائے گا۔ صبوحی عارف کا ماننا ہے کہ اگر اس نظام کو سرپرستی فراہم کی جائے، تو یہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی صنعت کے معیار کو بہتر بنانے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
صبوحی عارف کا خواب ہے کہ یہ نظام پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کپڑے کی خامیوں سے ہونے والے پیداواری نقصانات کو کم کرے اور برآمدات کے معیار کو بہتر بنائے۔ وہ اس سسٹم کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ساتھ مل کر کام کرنے اور اسے نئی بلندیوں تک لے جانے کی خواہش مند ہیں۔
یہ ایجاد نہ صرف پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے ایک انقلابی قدم ہے، بلکہ یہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے صنعتی مسائل کے حل کی ایک روشن مثال بھی ہے۔ صبوحی عارف کی یہ کامیابی نوجوان سائنسدانوں اور انجینئرز کے لیے ایک حوصلہ افزا پیغام ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/KjK4hRT/text.jpg