پاکستانی نوجوان جو چین میں ہارٹ اٹیک کے مریض کی جان بچاکر ہیرو بن گئے

screenshot_1740159645612.png


شنگھائی: رات کے وقت جب دو پاکستانی میڈیکل طالب علم یوسف خان اور رفیق اللہ شنگھائی کے ریلوے سٹیشن پر اترے تو ان کی نظر ایک غیر معمولی منظر پر پڑی۔ چند پولیس اہلکار ایک ادھیڑ عمر شخص کے گرد جمع تھے جو زمین پر بے ہوش پڑا تھا۔
عام آدمی شاید اس منظر کو دیکھ کر آگے بڑھ جاتا، لیکن یوسف اور رفیق نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میڈیکل کالج کے آخری سال کے طالب علم ہونے کے ناطے انہوں نے فوراً صورتحال کا جائزہ لیا۔ رفیق نے بتایا کہ اس شخص کی نبض کمزور تھی، سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی اور دل کی دھڑکن بھی غیر معمولی طور پر سست تھی۔ ان علامات سے واضح ہو گیا کہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے اور فوری امداد نہ ملنے کی صورت میں اس کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
سٹیشن پر کوئی طبی سہولت موجود نہ تھی اور ایمبولنس بھی دور دور تک نظر نہ آ رہی تھی۔ ایسی صورتحال میں یوسف اور رفیق نے بغیر وقت ضائع کیے کارڈیو پلمونری ریسسٹیشن (سی پی آر) شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوسف نے اس شخص کی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالنا شروع کیا اور وقفے وقفے سے منہ سے سانس دی، جبکہ رفیق نے ان کی معاونت کی۔ چند ہی منٹوں میں اس شخص کی سانس بحال ہونے لگی اور حالت بہتر ہونا شروع ہو گئی۔
یہ سارا واقعہ شنگھائی ریلوے سٹیشن کے سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہو گیا۔ یہ دونوں طالب علم، جو چین کی گائن میڈیکل یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، اس رات سیاحت کے لیے شنگھائی پہنچے تھے۔ ان کی اس بہادری نے دیکھتے ہی دیکھتے انہیں چین میں ہیرو بنا دیا۔ چینی میڈیا نے ان کا انٹرویو کیا، جبکہ پاکستان میں چین کے سفارت خانے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ان کی تعریف میں پوسٹ شیئر کی۔ سفارت خانے نے لکھا، "پاکستانی طالب علم یوسف خان اور رفیق اللہ نے شنگھائی میں ایک شخص کی جان بچا کر قابل تحسین مثال قائم کی۔ ان کے فوری اور پیشہ ورانہ اقدام کی ہر طرف تعریف ہو رہی ہے۔"
screenshot_1740159845553.png


چین کے سوشل میڈیا اور میڈیا نے بھی انہیں "ہیرو" قرار دیا، جبکہ ان کے تعلیمی ادارے گائن میڈیکل یونیورسٹی نے انہیں تعریفی اسناد دینے کا اعلان کیا۔
پولیس سے اجازت اور جذبہ خدمت:بی بی سی سے گفتگو میں یوسف اور رفیق نے بتایا کہ وہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوسف نے واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا، "ہم نے چند دن پہلے سیاحت کا منصوبہ بنایا تھا۔ رات گئے جب ہم شنگھائی سٹیشن پر اترے تو دیکھا کہ ایک شخص زمین پر گرا ہوا ہے اور پولیس اہلکار اس کے گرد کھڑے ہیں۔ میں نے رفیق سے کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے۔"
چین میں بغیر اجازت طبی امداد دینا قانونی طور پر ممنوع ہے، اور یہ بات انہیں تعلیم کے دوران بتائی جا چکی تھی۔ تاہم، انہوں نے قریب کھڑے پولیس افسر سے رابطہ کیا اور اپنے میڈیکل طالب علم ہونے کی شناخت بتائی۔ افسر نے ان کی بات سن کر فوراً اجازت دے دی۔
سی پی آر کی بدولت جان بچائی:رفیق نے اس شخص کی نبض چیک کی اور فوری طور پر سی پی آر شروع کرنے کا مشورہ دیا۔ یوسف نے ہاتھوں سے چھاتی کو دبایا اور سانس بحال کرنے کی کوشش کی۔ چند منٹوں کی محنت کے بعد اس شخص کی حالت سنبھلنے لگی۔ تقریباً 15 سے 20 منٹ بعد ایمبولنس بھی پہنچ گئی، لیکن تب تک وہ خطرے سے باہر تھا۔
عینی شاہدین اور پولیس اہلکاروں نے ان کی اس کاوش کو سراہا۔ یوسف نے بتایا، "پولیس افسر جو ہمیں اجازت دینے میں ہچکچاہٹ کر رہے تھے، آخر میں سب سے زیادہ خوش تھے اور بار بار شکریہ ادا کر رہے تھے۔"
پاکستانی ثقافت اور جذبہ خدمت:رفیق نے بتایا کہ ان کے والد ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے سوات کے مشکل حالات میں بھی لوگوں کی خدمت کی۔ ان کی بہنیں اور یوسف کے بھائی بھی ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہمارے پشتون کلچر اور خاندانی تربیت نے ہمیں سکھایا کہ مشکل وقت میں لوگوں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ اس شخص کو اس حال میں چھوڑ کر جانا ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔"
یہ واقعہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی بدولت وائرل ہو گیا، اور دونوں طالب علموں کی بہادری کی داستانیں چین سے لے کر پاکستان تک گونج رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ وہ شخص اب مکمل طور پر صحت یاب ہو چکا ہے، جو ان کے لیے سب سے بڑی خوشی کی بات تھی۔
 

Back
Top