Khansaber
Senator (1k+ posts)
16 July, 2021
آج سے لگ بھگ 60 برس قبل جولائی کے مہینے میں پاکستان کی ایک فوجی عدالت سے بغاوت اور غداری کے الزامات کے تحت سنائی جانے والی سزائے موت کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا۔ سزائے موت پانے والے سات افراد میں سے ایک نوجوان شخص کی میت جب اس کے بوڑھے والد کے پاس آخری دیدار کے لیے لائی گئی تو باپ نے بیٹے کی ڈھلکی ہوئی مونچھوں کو اپنی انگلیوں سے تاؤ دے کر اُوپر کر دیا
نواب نوروز اور ان کے ساتھیوں کو پہاڑوں سے اتارنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا گیا؟
ہتھیار ڈالنے کے لیے نواب نوروز کی شرط یہ تھی کہ اگر خان قلات خود آ کر کہیں تو پھر وہ ہتھیار ڈالیں گے۔
کتاب کے مطابق جب مراعات کے پیشکش کے باوجود نواب نوروزخان بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے تو ایک جرگہ نواب نوروز کے پاس بھیج دیا گیا اور جرگہ کی گود میں قرآن کو بطور ضامن رکھ کر بھیجا گیا کہ وہ اس کی ضمانت پر پہاڑوں سے اتر جائیں۔
کتاب کے مطابق جب مسلح کاروائیاں کرنے والے نیچے آئے تو انھوں نے قرآن کو بوسہ دیا اور کہا کہ ہم اس کا صدقہ اتاریں گے مگر ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ سرکاری وفد ان کو مسلسل قرآن کا واسطہ دے کر یہ یقین دلاتا رہا کہ حکومت اپنے وعدے پر قائم ہے۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ ’نواب نوروز اور بلوچوں نے کہا کہ جب قرآن کو ضامن بنا رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر کیا ضمانت ہوگی اس لیے جب وہ نیچے آئے تو پھر حکومت اپنے وعدوں سے پھر گئی اور ان کو گرفتار کیا گیا۔‘
ڈاکٹر مری کے مطابق گرفتاری کے بعد انھیں ان اذیت خانوں میں منتقل کیا گیا جو کہ جاپانیوں کو ٹارچر کرنے کے لیے انگریزوں نے بنائے تھے۔
شاہ محمد مری نے ان بلوچ اور پشتون زعما جو لاشوں کو لینے گئے تھے کی یادداشتوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’وہ اطمینان، اعتماد اور فخر کے ساتھ جیل سے باہر آئے۔ ان کے چال میں کوئی کمزوری نہیں تھی۔'‘
’جیل سپرینٹنڈنٹ نواب نوروز خان کے پاس تعزیت کرنے آئے اور کہا کہ آپ کے بیٹے اور ساتھیوں کو پھانسی ہوئی ہے تو نواب نوروز خان نے پھانسی پانے والے اپنے بیٹے کے مونچھوں کو اوپر کرتے ہوئے کہا کہ صرف بٹے خان نہیں بلکہ یہ سب میرے بیٹے ہیں۔ یہ مرے نہیں بلکہ ان کی شادی ہے۔ مرے وہ لوگ ہیں جنھوں نے قرآن مجید پر فیصلہ کرنے کے بعد ان کے ساتھ دھوکہ کیا۔‘
راشد سعید کے حوالے سے کتاب میں کہا گیا ہے کہ ’آخری دم تک یہ کہا گیا کہ تم معافی مانگ لو ہم نہ صرف تمہاری سرداری اور جاگیرداری بحال کریں گے بلکہ تمہیں اور تمہارے بیٹوں کو
آزاد کریں گے۔ مگر وہ بھی دھن کے پکے تھے۔ انھوں نے یہ پیشکش یہ کہہ کر رد کر دی کہ اگر میرے مولا کی طرف سے یہی لکھا ہے تو یہ مجھے منظور ہے۔‘
FULL STORY BBC
The book ‘Nouroz Khan and His Companions’ states that Brigadier Riaz Hussain, who was then the operation commander, called for resolving the issues through dialogue and promised that successful negotiations and agreement with the government of Pakistan.
According to the book, when Nouroz Khan refused to comply despite the offer of concessions. A jirga was sent to Nouroz Khan, and Holy Qur’an was sent in the lap of the jirga as a guarantee that he would come down from the mountains on its sanctity.
According to the book, when the armed men came down, they kissed the Qur’an and said, “We will offer reverence this holy book, but we will not surrender.” The government delegation kept reassuring them through the Qur’an that the government was living up to its promise.
Dr. Shah Mohammad Marri said, “Nouroz and the Balochs told that when they are making the Qur’an their guarantor, what could be more guaranteed than that, so when they came down, then the government did not fulfill the promises and arrested them.
The jail superintendent extended condolence to Nouroz Khan and said that his son and comrades were executed. On this occasion, Nouroz Khan said, my comrades have not died, but they are groomed. Instantly, those are dead who did not maintain the sanctity of the Holy Quran.
آج سے لگ بھگ 60 برس قبل جولائی کے مہینے میں پاکستان کی ایک فوجی عدالت سے بغاوت اور غداری کے الزامات کے تحت سنائی جانے والی سزائے موت کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا۔ سزائے موت پانے والے سات افراد میں سے ایک نوجوان شخص کی میت جب اس کے بوڑھے والد کے پاس آخری دیدار کے لیے لائی گئی تو باپ نے بیٹے کی ڈھلکی ہوئی مونچھوں کو اپنی انگلیوں سے تاؤ دے کر اُوپر کر دیا
نواب نوروز اور ان کے ساتھیوں کو پہاڑوں سے اتارنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا گیا؟
ہتھیار ڈالنے کے لیے نواب نوروز کی شرط یہ تھی کہ اگر خان قلات خود آ کر کہیں تو پھر وہ ہتھیار ڈالیں گے۔
کتاب کے مطابق جب مراعات کے پیشکش کے باوجود نواب نوروزخان بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے تو ایک جرگہ نواب نوروز کے پاس بھیج دیا گیا اور جرگہ کی گود میں قرآن کو بطور ضامن رکھ کر بھیجا گیا کہ وہ اس کی ضمانت پر پہاڑوں سے اتر جائیں۔
کتاب کے مطابق جب مسلح کاروائیاں کرنے والے نیچے آئے تو انھوں نے قرآن کو بوسہ دیا اور کہا کہ ہم اس کا صدقہ اتاریں گے مگر ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ سرکاری وفد ان کو مسلسل قرآن کا واسطہ دے کر یہ یقین دلاتا رہا کہ حکومت اپنے وعدے پر قائم ہے۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ ’نواب نوروز اور بلوچوں نے کہا کہ جب قرآن کو ضامن بنا رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر کیا ضمانت ہوگی اس لیے جب وہ نیچے آئے تو پھر حکومت اپنے وعدوں سے پھر گئی اور ان کو گرفتار کیا گیا۔‘

ڈاکٹر مری کے مطابق گرفتاری کے بعد انھیں ان اذیت خانوں میں منتقل کیا گیا جو کہ جاپانیوں کو ٹارچر کرنے کے لیے انگریزوں نے بنائے تھے۔
شاہ محمد مری نے ان بلوچ اور پشتون زعما جو لاشوں کو لینے گئے تھے کی یادداشتوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’وہ اطمینان، اعتماد اور فخر کے ساتھ جیل سے باہر آئے۔ ان کے چال میں کوئی کمزوری نہیں تھی۔'‘
’جیل سپرینٹنڈنٹ نواب نوروز خان کے پاس تعزیت کرنے آئے اور کہا کہ آپ کے بیٹے اور ساتھیوں کو پھانسی ہوئی ہے تو نواب نوروز خان نے پھانسی پانے والے اپنے بیٹے کے مونچھوں کو اوپر کرتے ہوئے کہا کہ صرف بٹے خان نہیں بلکہ یہ سب میرے بیٹے ہیں۔ یہ مرے نہیں بلکہ ان کی شادی ہے۔ مرے وہ لوگ ہیں جنھوں نے قرآن مجید پر فیصلہ کرنے کے بعد ان کے ساتھ دھوکہ کیا۔‘
راشد سعید کے حوالے سے کتاب میں کہا گیا ہے کہ ’آخری دم تک یہ کہا گیا کہ تم معافی مانگ لو ہم نہ صرف تمہاری سرداری اور جاگیرداری بحال کریں گے بلکہ تمہیں اور تمہارے بیٹوں کو
آزاد کریں گے۔ مگر وہ بھی دھن کے پکے تھے۔ انھوں نے یہ پیشکش یہ کہہ کر رد کر دی کہ اگر میرے مولا کی طرف سے یہی لکھا ہے تو یہ مجھے منظور ہے۔‘
FULL STORY BBC

The book ‘Nouroz Khan and His Companions’ states that Brigadier Riaz Hussain, who was then the operation commander, called for resolving the issues through dialogue and promised that successful negotiations and agreement with the government of Pakistan.
According to the book, when Nouroz Khan refused to comply despite the offer of concessions. A jirga was sent to Nouroz Khan, and Holy Qur’an was sent in the lap of the jirga as a guarantee that he would come down from the mountains on its sanctity.
According to the book, when the armed men came down, they kissed the Qur’an and said, “We will offer reverence this holy book, but we will not surrender.” The government delegation kept reassuring them through the Qur’an that the government was living up to its promise.
Dr. Shah Mohammad Marri said, “Nouroz and the Balochs told that when they are making the Qur’an their guarantor, what could be more guaranteed than that, so when they came down, then the government did not fulfill the promises and arrested them.
The jail superintendent extended condolence to Nouroz Khan and said that his son and comrades were executed. On this occasion, Nouroz Khan said, my comrades have not died, but they are groomed. Instantly, those are dead who did not maintain the sanctity of the Holy Quran.