جب فرانس کے ایک اخبار پر حملہ کرکے دس افراد کو قتل کردیا گیا تو یورپ کے تمام پچیس ممالک نے انکے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا۔
کیا ایسا ہی مظاہرہ آج پاکستانی قوم کو نہیں کرنا چاہئے؟
آج جب حکومت اور سیکیورٹی ادارے عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام ہی نہیں انکار بھی کرچکے ہیں تو قوم خود اکٹھی ہو کر ان شرپسندوں کا مقابلہ کیوں نہ کرے؟
میرے نزدیک تمام قوم کو اس دلسوز واقعہ پر ری ایکشن اسطرح دینا چاہئے کہ کل صبح ہونے تک پورے پاکستان کی گلیوں بازاروں اور سڑکوں سے تمام پوسٹرز خواہ وہ مذہبی ہوں خواہ کاروباری (مذہب پوسٹرز بھی درحقیقت کاروباری ہی ہیں) اتار دئیے جائیں اور ان کو جلا دیا جاے کیونکہ ان پر آیات لکھی ہوتی ہیں تمام اوراق مقدسہ کو جلا دینا بہترین حل ہے ورنہ وہ پیروں تلے روندے جاتے ہیں یا کچرے کے ڈھیرون پر پڑے دکھای دیتے ہیں یا ندی نالوں میں ڈھیروں میں پڑے رہتے ہیں۔ گورنمنٹ کے تمام سیکیورٹی ادار ے اور ممبران پارلیمان اور وزرا و مشیران اس کام میں خود حصہ لیں اس نیک کام کیلئے فوج کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے
صدر وزیراعظم اور چاروں وزرا اعلی مقتول کے ساتھ اظہاریکجہتی کرتے ہوے اس کی بیوہ کو پاکستان کا اعلی ترین ایوارڈ عطا کریں اور جہالت کی پود کو یہ پیغام دیں کہ تم عام شہریوں کو مذہبی بنیادوں پر بلیک میل نہیں کرسکتے۔ اگر یہ تمام حکمران خود ہی ڈر ڈر کر ری ایکٹ کرتے رہے تو عام شہری کدھر جائیں گے وہ بے چارے تو ان سے ہمیشہ ہی خوفزدہ رہیں گے
اگر حکمرانوں اور فوج کی طرف سے یہ کام اب نہ کیا گیا تو پھر مزید مہلت نہیں ملے گی۔
اخیر پر ایک اور بات نوٹ کرواتا چلوں کہ لبیک سے شرمناک معاہدہ کرنے والے علی خان ہیجڑہ اور اسد قیصر مسلی نے ابھی تک اس بہیمانہ قتل کی مذمت نہیں کی۔ ان دونوں ہیجڑوں کے اوپر ان کی بزدلی اور بے حسی پر ایک ایک ارب بار لعنت، ان تمام وزرا پر جو لبیک کیلئے گلدستے لے کر گئے بے شمار لعنت اصل وجہ تو انکی بزدلی ہے اوپر سے حب رسول کا دھوکا دے رہے ہیں یہ اصل میں اپنی جانوں کا تحفظ چاہتے ہیں اور کسی قسم کی حب رسول سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں ، خاص کر انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو حب رسول لبیک یا ٹی ٹی پی یا جے یو آی جیسی تنظیمیں اپنے کارکنوں کو سکھاتی آرہی ہیں وہ سنت رسول نہیں، وہ اسوہ حسنہ بھی نہیں اور اسوہ خلفا راشدین بھی نہیں
صدق اللہ اعظیم
کیا ایسا ہی مظاہرہ آج پاکستانی قوم کو نہیں کرنا چاہئے؟
آج جب حکومت اور سیکیورٹی ادارے عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام ہی نہیں انکار بھی کرچکے ہیں تو قوم خود اکٹھی ہو کر ان شرپسندوں کا مقابلہ کیوں نہ کرے؟
میرے نزدیک تمام قوم کو اس دلسوز واقعہ پر ری ایکشن اسطرح دینا چاہئے کہ کل صبح ہونے تک پورے پاکستان کی گلیوں بازاروں اور سڑکوں سے تمام پوسٹرز خواہ وہ مذہبی ہوں خواہ کاروباری (مذہب پوسٹرز بھی درحقیقت کاروباری ہی ہیں) اتار دئیے جائیں اور ان کو جلا دیا جاے کیونکہ ان پر آیات لکھی ہوتی ہیں تمام اوراق مقدسہ کو جلا دینا بہترین حل ہے ورنہ وہ پیروں تلے روندے جاتے ہیں یا کچرے کے ڈھیرون پر پڑے دکھای دیتے ہیں یا ندی نالوں میں ڈھیروں میں پڑے رہتے ہیں۔ گورنمنٹ کے تمام سیکیورٹی ادار ے اور ممبران پارلیمان اور وزرا و مشیران اس کام میں خود حصہ لیں اس نیک کام کیلئے فوج کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے
صدر وزیراعظم اور چاروں وزرا اعلی مقتول کے ساتھ اظہاریکجہتی کرتے ہوے اس کی بیوہ کو پاکستان کا اعلی ترین ایوارڈ عطا کریں اور جہالت کی پود کو یہ پیغام دیں کہ تم عام شہریوں کو مذہبی بنیادوں پر بلیک میل نہیں کرسکتے۔ اگر یہ تمام حکمران خود ہی ڈر ڈر کر ری ایکٹ کرتے رہے تو عام شہری کدھر جائیں گے وہ بے چارے تو ان سے ہمیشہ ہی خوفزدہ رہیں گے
اگر حکمرانوں اور فوج کی طرف سے یہ کام اب نہ کیا گیا تو پھر مزید مہلت نہیں ملے گی۔
اخیر پر ایک اور بات نوٹ کرواتا چلوں کہ لبیک سے شرمناک معاہدہ کرنے والے علی خان ہیجڑہ اور اسد قیصر مسلی نے ابھی تک اس بہیمانہ قتل کی مذمت نہیں کی۔ ان دونوں ہیجڑوں کے اوپر ان کی بزدلی اور بے حسی پر ایک ایک ارب بار لعنت، ان تمام وزرا پر جو لبیک کیلئے گلدستے لے کر گئے بے شمار لعنت اصل وجہ تو انکی بزدلی ہے اوپر سے حب رسول کا دھوکا دے رہے ہیں یہ اصل میں اپنی جانوں کا تحفظ چاہتے ہیں اور کسی قسم کی حب رسول سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں ، خاص کر انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو حب رسول لبیک یا ٹی ٹی پی یا جے یو آی جیسی تنظیمیں اپنے کارکنوں کو سکھاتی آرہی ہیں وہ سنت رسول نہیں، وہ اسوہ حسنہ بھی نہیں اور اسوہ خلفا راشدین بھی نہیں
صدق اللہ اعظیم