پاکستان کا اضافی ٹیکس کے بجائے قانونی ذرائع سے محصولات بڑھانے کا فیصلہ

imf%20pak.jpg


اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ تکنیکی مذاکرات کے اختتام پر پاکستانی حکومت نے اضافی ٹیکس اقدامات تجویز کرنے کے بجائے قانونی اور انتظامی ذرائع سے اضافی محصولات کی وصولی کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، حکومت نے بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے متضاد موقف اختیار کیا ہے، جس میں بجلی پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں کمی کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں پر اضافی مالیاتی سرچارج کی منظوری کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

پالیسی سطح کے باضابطہ مذاکرات 10 مارچ سے شروع ہوں گے، جہاں آئی ایم ایف مشن، ناتھن پورٹر کی سربراہی میں، آمدنی بڑھانے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرے گا۔ ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کے عملے نے بجلی پر جنرل سیلز ٹیکس ختم کرنے یا کم کرنے کی حکومتی تجویز کی یکسر مخالفت کی ہے۔ تاہم، حکومت نے بجلی کے شعبے کے گردشی قرضوں کے ایک حصے کی ادائیگی کے لیے اگلے 5 سالوں کے دوران بجلی کے بلوں پر 2 روپے 83 پیسے فی یونٹ اضافی مالیاتی سرچارج عائد کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس تجویز کا مقصد بجلی کے شعبے کے 12 کھرب روپے کے قرضے کی ادائیگی کے لیے فنڈز جمع کرنا ہے۔ آئی ایم ایف نے اس تجویز کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

یہ اقدام دراصل بجلی کی قیمتوں میں کمی کے وعدوں کے برعکس ہے، جس کے تحت حکومت اور بجلی کمپنیوں کی نااہلیوں سے پیدا ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے لیے صارفین پر اضافی مالی بوجھ ڈالا جائے گا۔ حکومت پہلے ہی گردشی قرضوں کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے ماضی میں لیے گئے قرضوں پر تقریباً 1.47 روپے فی یونٹ فنانسنگ لاگت سرچارج وصول کر رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف نے سرمائی ٹیرف پیکج میں توسیع کی حکومتی درخواست بھی مسترد کر دی ہے، جس میں صنعتی اور کمرشل صارفین کو اضافی کھپت کے لیے سستی بجلی فراہم کی جانی تھی۔

اس کے علاوہ، حکومت نے آئی ایم ایف کو سولر نیٹ میٹرنگ ٹیرف کو 26 روپے فی یونٹ سے کم کر کے 10 روپے فی یونٹ کرنے کے منصوبے سے آگاہ کیا ہے۔ اس اقدام سے صارفین کے آف گرڈ حل کی طرف منتقل ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں، جس پر آئی ایم ایف نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، حکام کو فوری چیلنج کی توقع نہیں ہے، اور انہوں نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ اگر صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی تو وہ فعال طور پر جواب دیں گے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات میں حکومت کا یہ فیصلہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور بجلی کے شعبے کے مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ تاہم، اس کے اثرات عام صارفین پر پڑنے کا خدشہ ہے، جو پہلے ہی مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی بلند شرح سے پریشان ہیں۔
 

Back
Top