کمپنی نے جس طرح پاکستان کو اپنے قبضہ میں رکھا اور کبھی ترقی نہیں کرنے دی یہ اب کسی سے بھی دھکی چھپی بات نہیں ہے اور پاکستان کے انپڑھ جاہل گنوار سیاستدانوں نے ان کا آلہ کار بن کر جس بدیانتی کا مظاہرہ کیا وہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہے اگر اس عمل سے بیوروکریسی ، انتظامیہ اور عدلیہ کو دور رکھا جائے تو یہ کہنا بھی بدیانتی ہوگی پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جس بیدردی سے پاکستان اور پاکستانیوں کا استحصال کیا اس کی مثال نہیں ملتی میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ تمام تر وسائل ہونے کے باوجود پاکستان ترقی کیوں نہیں کرتا کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے قانون میں تبدیل کیوں نہیں ہوتی اور جب بھی ہوتی ہے وہ صرف حکمرانوں کو ہی فائدہ پہنچاتی ہے اب معلوم ہوا کہ پاکستان کبھی بھی آزاد ہوا ہی نہیں یہ ایک غلامی کے دور سے نکل کر دوسرے غلامی کے دور میں داخل ہوگیا پہلے ملکہ برطانیہ اس ملک پر حکومت کرتی تھی پھر امریکہ نے حکومت شروع کردی فرق صرف انتا تھا کہ ملکہ کے دور میں ظالم گورے پاکستان میں موجود تھے جو مقامی لوگوں کو ساتھ ملا کر لوگوں پر ظلم کرتے تھے اور ملکی وسائل پر لوٹتے تھے اب گورے تو نہیں ہیں پاکستان میں مگر وہ مقامی پالتوکتوں کی مدد سے کام چلا لیتے ہیں اور یہ کتے اتنے وفادار ہیں کہ وفاداری میں انھوں نے کتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ان کتوں کی کمپنی پر اگر نظر ڈالیں تو اس کا ڈھانچہ ایسے ترتیب دیا گیا ہے کہ یہ کامیابی سے اپنے ہم وطنوں کو غلام بنا کر رکھتی ہے اور پاکستان کے قوانین پر نظر دوڑائیں تو یہ کمپنی کی حرام کاریوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے یہ کتے ملکی سلامتی کا نعرہ لگا کر ہر وہ کام کرتے ہیں جو ملکی مفاد کے خلاف ہوتا ہے پاکستان جب تک کمپنی کے تسلط سے آزاد نہیں ہوتا کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا ویسے مزے کی بات یہ ہے کہ جو سیاستدان کمپنی کے بیرونی آقاوں کو خوش رکھتے ہیں کمپنی بھی ان سے خوش رہتی ہے اور جو سیاستدان کمپنی کے بیرونی آقاوں کی خواہشات کی تکمیل میں کوتاہی برتتے ہیں کمپنی بھی ان سے ناراض ہوجاتی ہے اس کمپنی سے جان چھڑائی جا سکتی ہے مگر اس کے لیے سخت محنت اور طاقت کی ضرورت ہے موجودہ حالات میں پاکستانی قوم ان سے لڑنے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی کسی نے قوم کو تیار کیا اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ خود ہی باہر آکر لڑنا شروع کردیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے پاکستانی ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہرشخص کی آستینیں سانپوں سے بھری پڑی ہیں پاکستانی ابھی بھی جسمانی طور پر اور زہنی طور پر غلام ہیں پاکستان وہ ملک ہے جو اپنی کمائی سے زیادہ خرچ کردیتا ہے دوسرے ملکوں سے ادھار لے کر عیاشیوں میں اور کرپشن میں ضائع کردیتا ہے خیر بات لمبی ہوگئی مقبوضہ پاکستان کے قابض لوگوں سے انہی کی زبان میں کرنی پڑے گی اور وہ صرف ایک ہی زبان سمجھتے ہیں ابھی بھی پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پاکستان کے لیے جان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں ضرورت اس بات کی ہے نوجوانوں کو تلاش کریں ان کی تربیت کریں اور پھر عوام کو اکٹھا کریں اور اس سسٹم سے جنگ کریں