پاک ڈیٹاکام میں بے ضابطگیاں: نشاندہی کرنے والے ملازمین کو برطرف کردیا گیا

dataa.jpg


وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام کے ماتحت ادارے پاک ڈیٹاکام نے سرکاری محکمے میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں اور خورد برد کی نشاندہی کرنے والے پانچ سینئر ملازمین کو برطرف کر دیا ہے۔ اس اقدام نے کمپنی میں شفافیت اور احتساب کے سوالات کو جنم دیا ہے۔

رپورٹ تاخیر کا شکار
الزامات کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی چھ ماہ گزرنے کے باوجود اپنی رپورٹ مکمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وزارت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ خواجہ نے جولائی 2024 میں پاک ڈیٹاکام کے بورڈ کو ہدایت دی تھی کہ وہ منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او ذوالفقار علی کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرے۔ تاہم حالیہ اطلاعات کے مطابق یہ معاملہ اب بھی زیر التوا ہے۔

ملازمین کی برطرفی اور الزامات
کمپنی انتظامیہ نے جن پانچ ملازمین کو برطرف کیا، ان میں وحید محمود بھی شامل ہیں۔ ان ملازمین نے بورڈ ممبران کو ایک خط لکھ کر سی ای او پر بغیر کسی قانونی نوٹس یا انتباہ کے غیر منصفانہ برطرفی کا الزام لگایا تھا۔ ملازمین پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے مبینہ طور پر ’سرکاری مراتب کی خلاف ورزی‘ کی۔

ملازمین نے وزارت اور پاک ڈیٹاکام کے چیئرمین سید زوما محی الدین کو اپنی شکایات میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایم ڈی، قائم مقام سی ایف او، اور انٹرنل آڈٹ ٹیم کی بے ضابطگیوں پر آواز اٹھائی تھی۔ شکایت میں یہ بھی کہا گیا کہ ایم ڈی نے بورڈ کی منظوری کے بغیر 60 لاکھ روپے کا اعزازیہ خود پیش کیا اور اسے منظور کر لیا، جبکہ سی ایف او نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور رقم منتقل کر دی۔

دیگر بے ضابطگیوں کی نشاندہی
شکایات میں غیر ملکی دورے، غیر قانونی بھرتیاں، دفتر میں ویلنٹائن ڈے منانے، اور قائم مقام سی ایف او کے قریبی رشتے دار کو مشکوک معاوضے کی ادائیگی کے معاملات پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے۔ شکایت کنندگان کا کہنا ہے کہ اہم تکنیکی عملے کی غفلت کے باعث کمپنی نے نیشنل لاجسٹکس کارپوریشن (این ایل سی) کے وی سیٹ منصوبے سمیت کئی اہم معاہدے کھو دیے۔

تحقیقات اور تاخیر
برطرفی کے بعد ملازمین نے اپنی شکایات پاک ڈیٹاکام بورڈ اور وزارت آئی ٹی کو درج کرائیں۔ جولائی 2024 میں بورڈ کے ڈائریکٹر محمد وحید کو تحقیقات کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ اگست 2024 میں بورڈ کے رکن محمد اعزاز خان نے بھی تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا تھا، لیکن تاحال کمیٹی کوئی رپورٹ پیش نہیں کر سکی۔

پاک ڈیٹاکام کے چیئرمین سید زوما محی الدین اور وزارت آئی ٹی کے ترجمان نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ اس تمام صورتحال نے سرکاری اداروں میں شفافیت اور احتساب کے نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
 
Last edited:

Back
Top