
نجی چینل کی صحافی تنزیلہ مظہر نے پروفیسر ریاض کی گرفتاری کا دفاع کیا اور کہا کہ پاکستان میں ہر ایشو پر سازشی تھیوریز ہیں ۔ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ریاض احمد کو پولیس کے حراست میں لینے کو بھی کسی سازش سے جوڑنے کے کوشش کی جارہی ہے ۔
انکا کہنا تھا کہ ان کی حراست کو جسٹس جہانگیری کا معاملے سے جوڑا جا رہا ہے وہ دو ہزار سترہ میں بھی تفتیش کے لئے پولیس کی حراست میں رہے اس وقت تو جسٹس جہانگیری کاُکوئی معاملہ نہیں تھا ۔
انہوں نے کہا کہ پولیس ذرائع کے مطابق ان سے دہشت گردی سے جڑے شکوک و شبہات پر تفتیش کی جا رہی ہے ۔ شک کسی پر بھی ہو سکتا ہے تفتیش کرنے کا حق بھی قانون ریاستی اداروں کو دیتا ہے اگر ان پر شکوک بے بنیاد ہوئے تو باہر آ جائیں گے انشاءاللہ جلدی ۔
تنزیلہ مظہر نے کہا کہ اگر اس عمل میں کوئی غیر قانونی طریقہ اپنایا گیا ہے اس کی پر زور مذمت کریں مگر ریاستی اداروں کو ہر بات پر اتنا متنازعہ نا بنائیں کہ کسی بھی غیر قانونی عمل پر ریاست کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں ۔
اس پر صحافی ماجد نظامی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض 2017 میں ایک پریس کانفرنس کے لیے پریس کلب جا رہے تھے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دعوی کیا تھا کہ ان سے لائسنس کے بغیر لوڈڈ پستول برآمد ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ڈان اخبار نے اس بھونڈے الزام اور گرفتاری کے خلاف اداریہ بھی لکھا تھا۔ جس طرح 7 سال بعد حکومت کو ڈاکٹر ریاض کی گرفتاری اچانک یاد آ گئی ہے، تو لگے ہاتھ ڈان اخبار کی انتظامیہ کو بھی دھر لیں کہ وہ دہشت گردوں کی سہولت کار ہے۔۔۔
https://twitter.com/x/status/1830126773142425753
صحافی نعمت خان نے کہا کہ یونیورسٹی سنڈیکیٹ کا اجلاس ہوتا ہے، جس میں ڈگری منسوخی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس اجلاس سے کئی گھنٹے قبل، ڈاکٹر ریاض صاحب ایک تفصیلی ٹویٹ کرکے بیرونی مداخلت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد، انہیں غائب کر دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اسے سیدھے طور پر ڈگری کے معاملے میں غیرقانونی حراست یا اغوا سمجھا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسری طرف، ڈاکٹر ریاض کو 2017 میں نہیں بلکہ 2018 میں رینجرز نے کراچی پریس کلب کے سامنے سے اٹھایا تھا۔ مقصد انہیں پروفیسر ظفر حسن عارف کی بازیابی کے لیے پریس کانفرنس کرنے سے روکنا تھا۔
انکے مطابق اس سے چند دن قبل، پریس کلب پر پریس کانفرنس منسوخ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، لیکن پریس کلب نے ایسا نہیں کیا۔ اس وقت ڈاکٹر ریاض پر دہشت گردوں سے تعلق کا کوئی الزام نہیں تھا؛ وہ ایک استاد کے لیے آواز اٹھا رہے تھے، اور اس استاد کا جرم ایم کیو ایم میں شمولیت تھا۔
https://twitter.com/x/status/1829972192274387111 https://twitter.com/x/status/1830355622761467978
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/majidh1n11h13.jpg
Last edited by a moderator: