پشاور ہائی کورٹ نے ملٹری کورٹ سزاؤں کے خلاف دائر تمام درخواستیں خارج کر دیں

852205-PHC-1426181346.jpg

پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے دی گئی سزاؤں کے خلاف دائر تمام 29 درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ دو رکنی بینچ، جس میں جسٹس نعیم انور اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال شامل تھے، نے ان درخواستوں پر سماعت کی۔

عدالت میں درخواست گزاروں کے وکلا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ، اور عدالتی معاون شمائل احمد بٹ پیش ہوئے۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ملٹری کورٹس نے گرفتار ملزمان کو مختلف نوعیت کی سزائیں سنائی ہیں، جن میں سے کئی اپنی سزائیں پوری کر چکے ہیں، مگر انہیں رہا نہیں کیا جا رہا۔ وکیل نے مزید دلیل دی کہ قانون کے مطابق دورانِ حراست گزارا گیا وقت بھی قید میں شمار کیا جانا چاہیے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملٹری کورٹس کی جانب سے دی گئی سزائیں خصوصی قانون کے تحت آتی ہیں، جن میں قیدیوں کو 382 بی کا فائدہ نہیں دیا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ گرفتار افراد دہشت گرد ہیں اور کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں جن کے تحت اسپیشل قوانین کے تحت دی گئی سزاؤں میں ملزمان کو دورانِ حراست گزارے گئے وقت کا فائدہ نہیں دیا جا سکتا، اور سزائیں اسی وقت شمار ہوں گی جب ان پر دستخط کیے جائیں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے فیصلے خصوصی قوانین کے دائرے میں آتے ہیں اور ہائی کورٹ صرف یہ دیکھتی ہے کہ کیا سزا قانونی دفعات کے مطابق دی گئی ہے یا نہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ان تمام سزاؤں کا اطلاق آرمی ایکٹ کے تحت ہوا ہے اور سزا کا آغاز دستخط کے دن سے ہوگا، جبکہ 382 بی کے تحت کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی۔

تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد، پشاور ہائی کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے تمام 29 درخواستیں خارج کر دیں۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب 21 دسمبر 2024 کو فوجی عدالتوں نے 9 مئی 2023 کے واقعات میں ملوث 25 افراد کو 10 سال تک کی قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔ فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ 9 مئی کے پرتشدد واقعات ناقابل معافی تھے، اور ان میں ملوث افراد کے خلاف ٹھوس شواہد اکٹھے کیے گئے تھے۔

بعد ازاں، 26 دسمبر 2024 کو مزید 60 افراد، بشمول سابق وزیراعظم عمران خان کے بھانجے حسان نیازی، کو بھی 10 سال تک قید بامشقت کی سزائیں دی گئیں۔ آئی ایس پی آر نے ان فیصلوں کو انصاف کی فراہمی میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا تھا، جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مزید مجرموں کو سزائیں سنائی گئیں۔
 

Back
Top