ملک کی سلامتی آپ کی اپنے آئینی حدود میں واپسی اور اپنے اصل کام پر توجہ کرنے پر منحصر ہے نہ کہ سیاسی انجینئرنگ اور زراعت سے لے کر مویشی منڈیوں تک کے انتظامات دیکھنے میں۔ حالات دیکھیں اور اپنی ترجیحات دیکھیں۔ کل کو دوسرے ملکوں میں اپنے ناموں سے مکرنے سے بہتر ہے، آج اپنے ملک کو بسنے دو۔ اپنے لوگوں کو جینے دو۔
گلگت سے وزیرستان، باجوڑ سے بلوچستان، پورے ملک کو آگ میں جھونک دیا کیونکہ اپنی Relevance قائم رکھنے کے لیے ایک اور ڈالری جنگ کا سہارا درکار ہے، جو ہاتھوں سے پھسلتی طاقت کو دوام دینے کا راستہ بنے، بھلے اس کا ایندھن پوری قوم بن جائے۔
https://twitter.com/x/status/1896994542080901240 https://twitter.com/x/status/1896999522582368599 نریندرہ مودی حکومت کی پچھلے دور سے پاکستان کے حوالے سے اپنائی گئی پالیسی کو “اجیت دووال ڈاکٹرائن” کہا جاتا ہے۔ اس ڈاکٹرائن کا سب سے اہم نقطہ پاکستان کو اندرونی طور پر تقسیم کرنا یعنی خدانخواستہ بلوچستان، سابقہ فاٹا اور گلگت بلتستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنا تھا۔ اور دوسرا ”گھر میں گھس کر مارنا“، جس کے تحت حالیہ دنوں میں ان افسران اور افراد کو نشانہ بنایا گیا جن کا کشمیر سمیت انڈیا کے لیے باعث تشویش دیگر محاذوں پر کوئی کلیدی کردار رہا تھا۔
چند ہفتے قبل ظل الہی کے ہرکارے کے دورۂ تاجکستان کے حوالے سے گفتگو میں رجیم کے ایک ٹاؤٹ کی جانب سے اجیت دووال ڈاکٹرائن کا حوالہ دیا گیا کہ پاکستان نے بھی اس پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ کئی دن تک عسکری زرائع کی جانب سے اس بیان کی وضاحت یا تردید کا انتظار کرتا رہا۔ساتھ ہی اس بیان کو تاجکستان کے دوروں، وا خان کاریڈور کے حوالے سے بیانات، پھر کشمیر پر بدلتے مؤقف، فلسطین کے مسئلے پر دو ریاستوں کے قیام کا بیانیہ، اور ملک پر نئی جنگ مسلط کرنے کی کوششوں کے تناظر میں جانچا تو واضح ہوا کہ طاقت کو دوام دینے کی خواہش نے قابض عفریت کی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں مفلوج کردی ہیں۔
اجیت دول ڈاکٹرائین ایک offensive strategy ہے اور اس پالیسی کا مرکز یا نشانہ پاکستان تھا، اس کا حوالہ پاکستان کی جانب سے کسی پڑوسی ملک کو لے کر دینا ہی کافی تشویشناک بات ہے لیکن افسوسناک امر تو یہ ہے کہ ہماری سرزمین پر ہمارے مفادات کے لئے کام کرنے والو کو شہید کرنے پر ہم خاموش رہے، کشمیر پر اپنا مؤقف ہی تبدیل کردیا۔ ملک میں کوبکو لگی آگ کو ماپتے ہوئے دشمن کی پالیسی کا توڑ کیا نکالتے انکی معاونت کرنے لگے۔ ہماری سرحدوں کے اندر کاروائیاں کرنے پر ہم ان کو جواب کیا دیتے، وہ حکمت عملی جو ہماری تباہی کے لیے بنائی گئی تھی بجائے یہ کہ ہم اس اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ان کے سامنے سرینڈر کرکے نیا دشمن بنانے پر بضد ہیں۔دشمن ہمیں ”گھس کر مارنے کے لئے“ سرجیکل سٹرائکس؛ افسران اور اہم افراد کو کامیابی سےنشانہ بنارہا ہے اور ہم دوسری طرف سرجیکل سٹرائک اور گھس کر مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم وہاں رجیم چینج کی خواہش بھی لئے بیٹھے ہیں اور اس مقصد کے لئے ہم نے اپنے وہ مہرے بیانیہ بنانے کے لئے متحرک کر دئیے ہیں جو سابقہ بھارت نواز رجیم کے قریبی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کو فرد واحد سے نتائج جلدی اور فوری ملتے رہے ہیں چاہے وہ افغان جہاد ہو یا وار ان ٹیرر تب ڈکٹیٹر کو بیرونی امدد اور انکو اپنے مفادات عزیز تھے۔ طاقت کا کھیل اور طاقت کو طوالت دینے کی خواہش وہی ہے بس فرق یہ ہے کہ تب ہم ضرورت تھے اب ضرورت بننا چاہتے ہیں۔ تب بھی ڈکٹیٹر نے ذاتی مفاد (طاقت اور ڈالر) کے لیے قومی مفادات کا سودا کیا اور آج بھی وہی ہو رہا ہے جس کو ہم سے جو چاہئے وہ ملے گا، ہم ہر قسم کی خدمت کے لیے دستیاب ہیں چاہے اس کے لیے ملکی و قومی مفاد کا کتنا ہی نقصان ہو بس اتنی سی گارنٹی چاہئے کہ مقامی سطح پر جو جیسے ہے اس کو چلنے دیجئے ہم جمہوریت کے نام پر سرکس لگائیں، قوم کے لیڈر کو کال کھوٹری میں ڈالیں، چاردیواریاں پار کریں یا گھریلو خواتین کے گریباں چاک کریں، ہمارے زیر تسلط افلاس کے مارے ۱۳-۱۳ سال کے بچے ڈنکیاں لگا کر ملک سے نکلنے کی سعی کریں اور بیچھ سمندر مارے جائیں، عدالتوں کے احاطوں میں لوگ خود پر تیل چھڑکیں، مور چرانے والوں کے ملٹری ٹرائل ہوں اور قومی خزانہ لوٹنے والوں کو لینے خصوصی جہاز جائیں کوئی حساب نہ مانگے، ہم جو ظلم کریں جبر کریں کوئی ہمیں آئینہ نہ دکھائے۔ ہم چوبیس کروڑ بھیڑ بکریوں کو ہانک کر جہنم کی آگ میں جھونک دیں آپ سے کیا سروکار آپ کی خدمت تو پوری کریں گے نا؟
https://twitter.com/x/status/1897338330791993380
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/FL0kBVJ4/Murad-Saeed-3.jpg
Last edited: