پولیس اہلکاروں کا خاتون پر تشدد:بہاولپورپولیس نے نوٹس لے لیا

tarjm1h1h13.jpg

بہاولپور پولیس نے سی آئی اے پولیس کے مبینہ تشدد کا شکار ہونے والی بہاولپور کے محکمہ صحت کی ملازم مہتاب کنول کی پریس کانفرنس پر نوٹس لے لیا

بہاولپور پولیس کے ترجمان نے کہا کہ مہتاب کنول نے ڈی پی او بہاولپور آفس میں درخواست جمع کرائی جس پر ڈی پی او سرفراز خان نے شفاف انکوائری کے احکامات دیدئیے ہیں

پولیس کے مطابق متعلقہ پولیس اہلکاروں کو بھی شامل تفتیش کیا ہے،پولیس ترجمان کے مطابق مہتاب کنول نے انکوائری پر اطمینان کا اظہار کیا ہے ،قانون سب کیلئے برابر ہے اور کوئی قانون سے بالاتر نہیں
https://twitter.com/x/status/1783121149896864171
پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ عبداللہ نامی ایک شخص پر اغوا،بھتہ خوری،تشدد کے الزامات ثابت ہونے پر اسے گرفتارکرلیا گیا ہے جبکہ سب انسپکٹر محمدورک کو معطل کرکے اسکے خلاف محکمانہ انکوائری کی جارہی ہے اور ڈی ایس پی جمشید کے خلاف آئی جی پنجاب کو تحریری طور پر خط لکھ دیا گیا ہے۔

یادرہے کہ کچھ روز قبل سی آئی اے پولیس کے مبینہ تشدد کا شکار ہونے والی بہاولپور کے محکمہ صحت کی ملازم مہتاب کنول نامی خاتون کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی۔

مہتاب کنول نامی متاثرہ خاتون نے بہاولپور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی آئی اے پولیس کے بندوں اور عبداللہ نامی ایک شخص نے مجھ پر تشدد کیا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ مجھے الٹا لٹا کر مجھے جوتوں سے مارا گیا اور الیکٹریشن مشین سینے اور دماغ پر لگا کر مجھ پر تشدد کرتے رہے۔
https://twitter.com/x/status/1782753272748462360
خاتون نے بتایا کہ مجھ پر اتنا تشدد کیا گیا کہ میں اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھی تھی، ریسکیو والا کو بتایا گیا تو انہوں نے کہا انہیں ہسپتال میں داخل کروائیں لیکن ایسا نہیں کروایا گیا اور جو کچھ میں نہیں بھی جانتی وہ بھی مجھ سے پوچھ کر مارتے تھے۔ مجھے نہیں پتہ کہ سب کیوں کیا جا رہا تھا یا یہ وہ کس کی فرمائش پر کر رہے تھے؟

مہتاب کنول کا کہنا تھا کہ وہ محکمہ صحت میں بطور کمپیوٹر آپریٹر کام کر رہی تھی جبکہ اس کے شوہر کی کاٹن کی فیکٹری ہے، مجھے منشیات کے مقدمہ کے بعد اپنے ہی گھر سے نکال دیا گیا۔ میرے شوہر پر بھی 9b کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کر کے ان سے پیسے وصول کیے، ان کا مقدمہ اب تک چل رہا ہے۔

مہتاب کنول کا کہنا تھا کہ مجھ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا جس سے بری ہو چکی ہوں ، مجھ سے پوچھا جاتا تھا کہ ہمیں ڈیلرز کا بتائو حالانکہ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا۔ پولیس کے تشدد سے میرا حمل بھی ضائع ہو گیا، میری سرکاری ملازمت بھی چلی گئی ہے،مجھے انصاف فراہم کیا جائے ورنہ میں خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائوں گی۔