پٹرول، ڈیزل پر ٹیکس میں اضافہ، عطا تارڑ صحافی شہباز رانا سے الجھ پڑے

image.png

اسلام آباد: حکومت کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں کمی کے باوجود پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ممکنہ ریلیف عوام تک منتقل نہ کیے جانے پر سینئر اقتصادی تجزیہ کار شہباز رانا اور وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی عطا تارڑ کے درمیان سوشل میڈیا پر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔

شہباز رانا نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے بلوچستان میں ایک سڑک اور نہر کی تعمیر کے لیے پٹرول اور ڈیزل پر پٹرولیم لیوی میں اضافے کی منظوری دی ہے، جس کا بوجھ غریب سے امیر سب پر پڑے گا۔ انہوں نے اس فیصلے کو ایک غلط پالیسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منی بجٹ کے مترادف ہے، جبکہ بلوچستان پہلے ہی سرپلس بجٹ رکھتا ہے اور وفاقی پی ایس ڈی پی میں بھی 1100 ارب روپے کی گنجائش موجود ہے۔

https://twitter.com/x/status/1912183858365415563
شہباز رانا نے اپنے ایکس پیغام میں کہا وزیرِاعظم شہباز شریف نے بلوچستان میں ایک سڑک کی تعمیر اور نہر کی تکمیل کے لیے پٹرولیم لیوی میں اضافہ کرکے پٹرول اور ڈیزل کی ہر لیٹر کھپت پر، چاہے وہ غریب استعمال کرے یا امیر، اضافی ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ ایک غلط پالیسی فیصلہ ہے اور منی بجٹ کے مترادف ہے۔

بلوچستان ایک مالیاتی سرپلس رکھنے والا صوبہ ہے، اور دسمبر 2024 تک اس کے پاس 91.4 ارب روپے کی اضافی رقم موجود تھی۔ اس کے علاوہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں بھی 1100 ارب روپے موجود ہیں۔

حکومت کو پٹرولیم مصنوعات میں ریلیف روکنا نہیں چاہیے۔ ہم بلوچستان کی ترقی کی حمایت کرتے ہیں، مگر اس کے لیے وزیرِاعظم کو پارلیمنٹیرینز کے پہلے سے موجود اختیاری بجٹ اور دیگر وسائل استعمال کرنے چاہییں۔ حکومت اب عوام کا بھرپور استحصال کر رہی ہے۔ عوام پر پہلے ہی بھاری ٹیکس عائد ہیں، اور وہ پٹرول کی قیمتوں میں فی لیٹر 8 روپے تک کی کمی کے مستحق ہیں۔

اس ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے عطا تارڑ نے شہباز رانا پر "مس انفارمیشن" پھیلانے کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے "ٹیکس" کہنا گمراہ کن ہے اور حکومت صرف عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں سے بچت کو بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے کی ترقی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ان کے مطابق یہ کوئی بوجھ نہیں بلکہ ایک دیرینہ انصاف ہے۔

https://twitter.com/x/status/1912218452686959042
عطا تارڑ نے جواب میں کہا اسے "ٹیکس" کہنا صرف گمراہ کن نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کی سوچ کس قدر بے تعلق اور بے حس ہے۔ یہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانی ہے۔

حکومت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں سے ہونے والی بچت کو بلوچستان — جو ملک کے سب سے محروم علاقوں میں سے ایک ہے — کی ترقی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ یہ کوئی بوجھ نہیں بلکہ ایک دیرینہ انصاف ہے۔ وقتی طور پر پٹرول کی قیمت میں کمی جلد ختم ہو جاتی ہے، مگر اصل فائدہ سڑکوں، اسکولوں اور نوکریوں سے ہوتا ہے جو لوگوں کی زندگیاں بدل دیتے ہیں۔

مگر ظاہر ہے کہ یہ سمجھنے کے لیے ہمدردی اور دوراندیشی کی ضرورت ہے — وہ خصوصیات جو آپ میں واضح طور پر نظر نہیں آتیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے گمراہ کن معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔

تاہم، شہباز رانا نے اپنے جوابی ٹویٹ میں عطا تارڑ کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر صاحب، پٹرولیم لیوی کی شرح میں اضافے کو آپ کیا نام دیں گے؟ براہ کرم وہ نام بتا دیجیے، میں وہی استعمال کر لوں گا، جناب۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ عوام کے جذبات سے کھیلنے سے گریز کریں اور کسی نیک مقصد کو عوام کو ان کا جائز ریلیف نہ دینے کا جواز نہ بنائیں۔

https://twitter.com/x/status/1912221849041412458
سماجی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے، جناب۔ براہ کرم اس ذمہ داری کو گندم کی کٹائی میں ڈیزل استعمال کرنے والے کسانوں، دفاتر جانے والے موٹر سائیکل سواروں اور اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے والے والدین پر منتقل نہ کریں، جناب۔ پی ایس ڈی پی میں 1100 ارب روپے کی رقم مختص تھی۔ کیا آپ ہمیں آگاہ فرما سکتے ہیں کہ ساڑھے نو مہینوں میں اس میں سے کتنا واقعی خرچ ہوا؟ آپ کی رہنمائی اور جواب سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ آپ کی حکومت واقعی عوام کا کتنا خیال رکھتی ہے۔

مفتاح اسماعیل نے کہا میں ہمیشہ سے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو پاکستان میں بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھنی چاہییں، اور جب یہ قیمتیں کم ہوں تو حکومت کو بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کرنی چاہیے۔

https://twitter.com/x/status/1912406150395363525
مفتاح نے کہا لیکن گزشتہ دو ماہ سے مسلسل، پی ایم ایل این/پی پی پی/ایم کیو ایم کی اتحادی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ کیا ہے۔ مارچ میں انہوں نے لیوی میں 10 روپے کا اضافہ کیا، اور اپریل میں دوبارہ 10 روپے مزید بڑھا دیا، یوں مجموعی لیوی 80 روپے فی لیٹر تک جا پہنچی ہے۔ یعنی صرف دو مہینوں میں حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے، ہر ماہ 34 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عوام پر عائد کیے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت یہ جھوٹ بول رہی ہے کہ یہ رقم بلوچستان میں کسی منصوبے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پیسہ ایک قابلِ تبادلہ چیز ہے، اور یہ تمام اضافی ٹیکسز عمومی حکومتی خزانے میں جائیں گے۔ بلوچستان کے لیے کوئی نیا منصوبہ منظور نہیں ہوا ہے۔ اور جیسا کہ میں ٹی وی پر ایک سے زیادہ مرتبہ کہہ چکا ہوں، حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پٹرول کی قیمتیں کم نہیں کرے گی بلکہ ٹیکس میں اضافہ جاری رکھے گی۔ اس لیے دراصل یہ ایک منی بجٹ ہے۔

عطا تارڑ کے بیان پرزبیر علی خان نے کہا ٹیکس کو ٹیکس کہنا بھی اس حکومت میں اب جرم ہے ۔ ٹیکس کو ٹیکس مت کہیں بلکہ اسے وہ رقم کہیں جو عوام پر خرچ ہوگی،وفاقی وزیر کی نکی منطق ۔۔۔ویسے سر ہر ملک میں ٹیکس عوام پر ہی خرچ ہوتا ہے ہمارا والا ہی نرالا ہے جہاں ٹیکس کا پیسہ منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے

https://twitter.com/x/status/1912231640845414893
راؤ خالد نے کہا اور عطا تارڑ برائے مہربانی یہ بھی وضاحت فرما دیں کہ اگر عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتیں بڑھ گئیں، تو کیا یہ منصوبے ترک کر دیے جائیں گے؟

https://twitter.com/x/status/1912249012478222437
 

Back
Top