khalilqureshi
Senator (1k+ posts)
یہ 1983 کی بات ہے. کلہوڑا کالونی حیدرآباد میں ہمارے گھر کی تعمیر ہورہی تھی. تعمیر کے سلسلے میں ایک زیرزمین 6 x6 x6 کے زیرزمین کمرے کی تعمیر کے کھدائی کے لئے مزدور چاہئے تھے. واضح رہے کہ کلہوڑا کالونی ایک پتھریلی پہاڑی پر واقع ہے اور وہ جون جولائی کے مہینے تھے اور انہی دنوں رمضان کا مبارک مہینہ بھی آیا تھا. میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان دنوں حیدرآباد میں جون جولائی کے مہینے میں گرم 48 ڈگری تک پہنچ جاتی تھی. اس پس منظر میں, میں جن جن سے بات کرتا وہ منع کردیتے. تب مجھے چار مزدور ملے جنہوں نے کھدائی کی حامی بھری اور انہوں نے سات دن میں کھدائ مکمل کرنے کا عندیہ دیا.
اب آپ اندازہ کریں کہ 48 ڈگری گرمی اور روزے کی حالت میں آٹھ گھنٹے پتھر کی کٹائی اور کھدائی ہو اور صرف آدھے گھنٹے کا وقفہ ہو اور سات دن کا کام پانچ دن میں مکمل کرلیا گیا ہو. میں دن میں دو یا تین دفعہ صرف ان دیکھنے کے لئے جاتا کہ اس سخت گرمی میں جب میرے لئے باہر جانا
مشکل تھا میں نے ہر دفعہ ان کو اپنے کام میں جتا ہؤا پایا. کیسے لوگ تھے وہ؟
اب آپ پوچھیں گے کہ اس قصے کا یہاں کیا ذکر؟
جی ہاں. اس واقعے کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ وہ سخت جان محنت کش پٹھان تھے. اس وقت ان بدمعاش جنرلوں اور ان کے پروردہ بین الاقوامی قزاقوں کی ریاستی دھشت گردی ، بہیمت، بربریت اور حیوانگی کا مقابلہ یہی لوگ کرسکتے تھے اور انہوں نے اس بات کو ثابت بھی کیا. اس کا مطلب ہرگز یہ نہں کہ یہ مقابلہ صرف پٹھان کر رہے ہیں. اس مقابلے میں بلوچ ، سندھی ، کشمیری اور پنجابی بھائی اپنے پٹھان بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں لیکن اس کا کریڈٹ اگر دینا مقصود ہو تو 70 سے 80 فیصد کریڈٹ پٹھانوں کو ہی جاتا ہے
یاد رہے کہ ڈی چوک پر پہنچ جانا صرف ایک سنگ میل ہے. منزل پر پہنچنے کے لئے ابھی ایسے کئی سنگ میل آئیں گے اور منزل تک پہنچنے کے لئے لازم ہے کہ باقی سب بھی اپنے پٹھان بھائیوں کے شانہ بشانہ عزم صمیم کے ساتھ اس غلامی سے آزادی کی جدوجہد میں شامل ہو جائیں. اس سے نہ صرف منزل آسان ہوجائیگی بلکہ ہماری تشخیص پاکستانی کی حیثیت سے اجاگر ہوگی اور ہمارے نسلی اور لسانی اختلافات بھی کم از کم سطح پر چلے جائینگے
آئییے اور اس جدوجہد میں شامل ہوجائیں. آئیے اور اپنے تمام تر اختلافات کو بھلا کر اس تحریک آزادی کو تحریک آزادیِ پاکستان بنادیں. آئیے اور اس تحریک سے پاکستانی کی حیثیت سے فتحیاب ہو کر سامنے آئیں
Like
Comment
Share
اب آپ اندازہ کریں کہ 48 ڈگری گرمی اور روزے کی حالت میں آٹھ گھنٹے پتھر کی کٹائی اور کھدائی ہو اور صرف آدھے گھنٹے کا وقفہ ہو اور سات دن کا کام پانچ دن میں مکمل کرلیا گیا ہو. میں دن میں دو یا تین دفعہ صرف ان دیکھنے کے لئے جاتا کہ اس سخت گرمی میں جب میرے لئے باہر جانا
مشکل تھا میں نے ہر دفعہ ان کو اپنے کام میں جتا ہؤا پایا. کیسے لوگ تھے وہ؟
اب آپ پوچھیں گے کہ اس قصے کا یہاں کیا ذکر؟
جی ہاں. اس واقعے کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ وہ سخت جان محنت کش پٹھان تھے. اس وقت ان بدمعاش جنرلوں اور ان کے پروردہ بین الاقوامی قزاقوں کی ریاستی دھشت گردی ، بہیمت، بربریت اور حیوانگی کا مقابلہ یہی لوگ کرسکتے تھے اور انہوں نے اس بات کو ثابت بھی کیا. اس کا مطلب ہرگز یہ نہں کہ یہ مقابلہ صرف پٹھان کر رہے ہیں. اس مقابلے میں بلوچ ، سندھی ، کشمیری اور پنجابی بھائی اپنے پٹھان بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں لیکن اس کا کریڈٹ اگر دینا مقصود ہو تو 70 سے 80 فیصد کریڈٹ پٹھانوں کو ہی جاتا ہے
یاد رہے کہ ڈی چوک پر پہنچ جانا صرف ایک سنگ میل ہے. منزل پر پہنچنے کے لئے ابھی ایسے کئی سنگ میل آئیں گے اور منزل تک پہنچنے کے لئے لازم ہے کہ باقی سب بھی اپنے پٹھان بھائیوں کے شانہ بشانہ عزم صمیم کے ساتھ اس غلامی سے آزادی کی جدوجہد میں شامل ہو جائیں. اس سے نہ صرف منزل آسان ہوجائیگی بلکہ ہماری تشخیص پاکستانی کی حیثیت سے اجاگر ہوگی اور ہمارے نسلی اور لسانی اختلافات بھی کم از کم سطح پر چلے جائینگے
آئییے اور اس جدوجہد میں شامل ہوجائیں. آئیے اور اپنے تمام تر اختلافات کو بھلا کر اس تحریک آزادی کو تحریک آزادیِ پاکستان بنادیں. آئیے اور اس تحریک سے پاکستانی کی حیثیت سے فتحیاب ہو کر سامنے آئیں
Like
Comment
Share