سجا لیا اپنا محشر؟
کرلیا شوق اپنی خدائ کا پورا؟
بد دیانت، بد عنوان، بد کردار۔۔ہوگیا ثابت؟
اب یوں کرو اپنی جانوں پر رحم کرو اور تسلی سے بیٹھ کر خلقِ خدا کا فیصلہ سن لو۔
خلقِ خدا سمجھتی ہے کہ تم نے اُن کی امانت میں خیانت کی ہے۔ ان کا اعتماد اور بھروسہ توڑا ہے۔ وہ سمجھتی تھی تم اُس سے مخلص ہو۔ سب بُرے ہوسکتے ہیں۔ تم اس کا برا نہیں چاہ سکتے۔ ہاں تم سے غلطیاں ہوئی ہیں مگر تمہاری نیت غلط نہیں تھی۔ تم اعلی و ارفع تھے ان کی نظر میں۔۔ خلقِ خدا کی نظروں سے گِر گئے ہو تم۔
تم نے برسوں انہیں باور کرایا کہ تم اُن کے اور کرپٹ اشرافیہ کے درمیاں کھڑے ہو۔ کہ بیرونی طاقتیں تمہیں کچل کر اِنہیں اُن پر مسلط کرنا چاہتی ہیں اور تم ان کے غم خوار ان کی بقا کے ضامن اِن کو اُن کے شر سے بچانا چاہتے ہو۔ خلقِ خدا نے آنکھیں بند کرکے تم پر بھروسہ کیا۔ تم اُن کے مجرموں سے گٹ جوڑ کر آئے؟ اُن کے در پر جھک گئے جنہوں نے ان کی حمیت پر وار کیا؟ خلقِ خدا کا بھرم ٹوٹ گیا۔
خلقِ خدا تمہاری پاکبازی کی قسم کھاتے تھے۔ تمہیں حق مانتے تھے تم ان کی عزتوں کے نگہبان تھے۔ تمہارے بھروسے سکوں کی نیند سوتے تھے۔ وہ سوچتے تھے ان کی چادر و چاردیواری کا تقدس تمہارے لیے تمہاری سانسوں سے افضل ہے۔ سد دلیلیں خلاف بھی جو ملیں انہوں نے سوچا تمہاری حمایت میں۔ خلقِ خدا کی آنکھوں سے پردہ اٹھا نہیں چِھرا ہے۔ بھروسہ ٹوٹا نہیں ریزہ ریزہ ہوا ہے۔
پہلے دکھ تھا، تاسف تھا۔ پھر غصہ بنا۔۔ ہم نے سو بار کہا سنبھل جاؤ۔ محبت بھلے نا رہے بھرم رہنا چاہئے۔ بھروسہ رہے نا رہے آنکھ ملانے جتنا سلسلہ روا رہنا چاہئے۔ اعتبار لُٹا تھا خاموشی کا مان رہنے دیتے۔۔
مگر تم کیا سنتے تم تو ہر اُس سر کو کچلنے نکل پڑے جس نے تمہیں سمجھانا چاہا۔ یاد ہے نا وہ شخص جو ایک جنگل بیاباں میں بیٹھ کر اپنی آخری بچی سانسوں میں تمہیں سمجھاتا رہا تھا کہ تمہارے ہاتھ کچھ نہ رہیگا؟ وہ شخص جس نے اپنے رہے سہے دن اس امید پہ گزار دیے کہ شاید تم سنبھل جاؤ۔ تم نے کیا کیا؟
تمہاری بد نصیبی نہ آئی ہوتی تو تم خلقِ خدا کو مجبور کرتے کہ وہ تم سے نفرت کا پہلا سبق اُس کے اُس خون سے لکھتی جس کے ہر قطرے میں تمہاری محبت تھی؟ تب بھی کہا تھا کہ اب وہ تیزاب بن کر تمہاری رگوں میں اترے گا۔۔ مگر تم تو اندھے ہوگئے تھے۔۔
تمہاری کم بختی کی معراج اور کیا ہو کہ تم اُن کی خاطر پستیوں میں گِرے کہ جن کی دشنام طرازیوں نے تمہیں چہار سُو رسوا کیا تھا۔ جو نہ کبھی ہمارے بن سکے نہ تمہارے بنیں گے۔ ان کی خاطر تم نے انہیں گنوا دیا جنہوں نے تمہارے نام پہ اپنے بچوں کے مونہوں سے نوالہ نکال کر دان دیا۔
تمہاری اِس سے بڑھ کر ذلت کیا ہو کہ جو مائیں اپنی جھولیاں پھیلا پھیلا کر تمہارے لیے دعائیں مانگتی تھیں تم اُن کی ردائیں چھین کر سرِ بازار لے آئے۔
جِن کی آنکھیں تمہیں دیکھ کر چمکتی تھیں۔۔ تم ان کے خواب، ان کے گھر، ان کی مانگ، ان کی گود، ان کی دنیائیں اجاڑ آئے۔۔
جو تمہارے جیسا بنانے کے لیے بیٹے جنتی تھیں تم اُن کے ماتھے پر اپنے افکار کی سیاہی تھوپ آئے۔ خلقِ خُدا سے جو بھڑنا تھا سو بھڑے تم تو خدا سے بھی دشمنی باندھ آئے۔
اور اِس کھیل میں عریاں کون ہوا؟ ماں تو معتبر ہے رہی۔۔ چاہے وہ عثمان ڈار کی تھی یا بُشری عمران خان! رُسوا کون ہوگیا؟
تمہیں اُس کے بلند قامتی سے وحشت ہوتی تھی۔ اُس کے ایمان سے الجھن تھی۔ اُس کے عقیدے سے خوف آتا تھا۔
تم اُسے مثال بنا کر خلقِ خدا پہ اپنی ہیبت بٹھانا چاہ رہے تھے تم فقط نفرت کے حقدار رہ گئے۔ پہلے دکھ ہوتا تھا۔ غصہ آتا تھا۔ پھر افسوس ہونے لگا۔ اب خوف آرہا ہے۔ یقیں مانو جو حدیں تم پاٹ آئے ہو تمہارے انجام سے خوف آرہا ہے۔