میرے چچا نے مجھے سیکنڈ ہینڈ ڈڈُو کار لیکر دی لیکن مسئلہ اس میں پٹرول بھروانے کا تھا، چچا سے کہا کہ وہ گاڑی کی ٹینکی کی بھی فل کروادے لیکن چچا نے کہا کہ اپنی جیب سے بھرواؤ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ میں نکھٹو، کام چور تھا، پٹرول کے پیسے نہیں تھے اسلئے میں نے اپنے صوبیدار ماما سے کہا کہ پٹرول کے پیسے دیدو لیکن صوبیدار ماما نے بھی انکار کردیا۔
گاڑی کئی دن تک گھر میں کھڑی رہی، میں نے سوچا کہ بیچ دوں میں نے کونسا چلانی ہے، گاہک تلاش کرتا رہا۔ چچا کو پتہ چلا تو وہ فورا گاڑی واپس لینے آگئے، میں نے چاچا کی منت ترلہ کیا جس پر چاچی نے کہا کہ اس سے گاڑی واپس نہ لو اس کو دیدو اور پٹرول بھروادو، ہم اس سے ڈرائیوری کا کام لے لیتےہیں، یہ مجھے مارکیٹ سودا سلف لینے چلا جائے گا، بچوں کو سکول چھوڑ اور لے آیا کرے گا، رشتہ داروں کے گھر لے جایا کرے گا جس پر چچا مان گئے اور چچا نے کہا کہ یہ گاڑی تم چلاؤ،تمہیں پٹرول بھی بھرواکر دیں گے اور خرچہ پانی بھی دیں گے جس پر میں خوش ہوگیا۔
میری ڈیوٹی شروع ہوگئی لیکن میں اناڑی ڈرائیور تھا، گاڑی چلاتے ہوئے ڈررہا تھا، میں نے ایک دوست کو فون کیا کہ مجھے گاڑی چلاتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے وہ بچوں کو سکول چھوڑآئے، دوست نے وعدہ کرلیا اور کہا کہ میں ابھی آتا ہوں، ایک گھنٹہ ہوگیا، دوست نہ آیا، اسے دوبارہ فون کیا تو اس کے فون پر یہ آواز آرہی تھی کہ آپکا ملایا نمبر ٹھیک نہیں ہے، برائے مہربانی کچھ دیر بعد کال کریں۔
آخر کار میں نے بہادر بننے کا فیصلہ کیا اور بچوں کو سکول لیکر گیا، راستے میں کئی گاڑیوں سے ٹکراتے بال بال بچا لیکن جیسے تیسے بچوں کو سکول تک چھوڑ آیا، جب بچوں کو سکول سے لینے آیا تو بچوں نے ساتھ جانے سے انکار کردیا اور ایک رکشے میں بیٹھ کر گھر چلے گئے، میں بھی گاڑی لیکر گھر آگیا۔
اگلے دن چاچی کو مارکیٹ لے کر جانا تھا، پھر دوست کو فون کیا، دوست کا نمبر بند تھا، دوسرے دوست کو فون کیااس نے کہا کہ میں ٹریفک میں پھنسا ہوا ہوں۔تنگ آکر چاچی کو مارکیٹ لیکر گیا، راستے میں میری ڈرائیونگ دیکھ کر چاچی ڈرگئی اور توبہ تائب ، استغار کے وظیفےپڑھنا شروع کردئیے اور انکی آنکھیں تب کھلیں جب مارکیٹ آئی۔
چاچی کو تومارکیٹ لیکر آگیا لیکن گاڑی پارک کرتے ہوئے پارکنگ میں کھڑی موٹرسائیکلوں سے ٹکراگئی ، کسی کی بتی ٹوٹ گئی، کسی کا شیشہ، کسی کا سلنسر تو کسی کی موٹرسائیکل کا چکا۔۔ایک آدھی موٹرسائیکل مکمل تباہ ہوگئی، مالکوں نے کہا کہ پہلے نقصان پورا کرو پھر آگے جاؤ، چاچی کے پاس جو پیسے تھے ان سب کی بھروائی کی یہاں تک کہ اپنے کانوں کی بالیاں بھی متاثرین کو دیدیں اور ہم بغیر شاپنگ کے گھر آگئے۔
میں چونکہ چاچی کا لاڈلا تھا اسلئے اس نے چاچا کو نہیں بتایا، اگلے دن چاچا نے کہا کہ اسے دفتر تک چھوڑآئے ، چاچا گاڑی کی ڈگی میں سامان رکھ رہے تھے، میں گاڑی میں بیٹھا اور بیک گئیر دیا تو چاچا گاڑی سے ٹکراگئے اور نیچے گرگئے انکی کمر نیچے ایک سیڑھی کے زینے سے ٹکرائی اور انکی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی جس کے باعث وہ عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے ۔
بے شک میری ڈرائیونگ کی وجہ سے دوسروں کا نقصان ہوا، چچا کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی لیکن میں نے گاڑی کو آنچ بھی نہیں آنے دی، لیکن میری چاچا اتنے اچھے ہیں کہ انہوں نے ابھی تک گاڑی واپس نہیں لی ، مجھے پٹرول کے پیسے بھی دیتے ہیں لیکن انہوں نے شرط رکھی ہے کہ صبح شام گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے رہو لیکن گاڑی بالکل نہیں چلانی۔
نوٹ: یہ غیر سیاسی پوسٹ ہے اسکا شہبازشریف کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں