چکوال واقعہ، عسکری قیادت کا ٹیسٹ کیس

M Ali Khan

Minister (2k+ posts)
1481690716-Untitled-1(4).png

چکوال واقعہ، عسکری قیادت کا ٹیسٹ کیس


علی ارقم


جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام آرمی چیف کے لئے نامزدگی کا ذکر آتے ہی پاکستان مسلم لیگ کے سینیٹر اور اہلحدیث رہنما ساجد میر نے نام لئے بغیر یہ شوشہ چھوڑا کہ ممکنہ ناموں میں سے ایک عقیدتاً احمدی ہے، ان کی یہ بات پھر کئی سیاسی مذہبی رہنماؤں نے دہرائی، جس کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے وضاحت اخبارات میں چھپی، اور کچھ حلقوں نے یہ حقیقت عیاں کی کہ جنرل ضیاء کے زمانے سے کسی احمدی کی آرمی کے سینیئر رینک پر پروموشن ہوئی ہی نہیں ہے۔

بہرحال جنرل باجوہ آرمی چیف مُقرر ہوئے، کیوں کہ جشن عید میلادالنبیﷺ کی آمد آمد تھی، شہر کے شہر، مساجد، اہم عمارتیں، رہائشی اپارٹمنٹس، چوک اور چوراہے، لوگوں کے گھر بقعہ نور بنے، قمقموں سے سجائے گئے، مجالس میلاد، نیاز کی تقریبات تھیں، نعتیں اور قوالیاں پوسٹ ہورہی تھیں، اسی دوران جنرل باجوہ صاحب کے گھر پر بھی محفل میلاد کی خبر آئی ایس پی آر کی جانب سے ریلیز ہوئی۔

کچھ لوگوں کے نزدیک یہ ایک طرح سے سیاسی مذہبی رہنماؤں کی جانب سے الزام کو سنجیدگی سے لئے جانے کی علامت تھی، اور اُس کا جواب بھی تھا۔




پھر بارہ ربیع الاوّل آیا، تو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سُنی بریلوی مکتب فکر کی تبلیغی سرگرمیوں کی جماعت دعوت اسلامی کے مرکز فیضان مدینہ واقع کراچی کا دورہ کیا۔

اس سے پہلے سیاسی قائدین رائیونڈ کے تبلیغی اجتماعات میں شریک ہوتے رہے ہیں، یا ڈی جی رینجرز دیوبندی مکتب فکر کے دینی ادارے دارالعلوم کورنگی کراچی کا دورہ کرچکے ہیں۔

ماضی میں فوج اور بیوروکریسی میں دیوبندی مکتب فکر اور تبلیغی جماعت کے اثر نفوذ پر کافی بات ہوتی رہی ہے، جیسے کسٹم آفیسران کے لئے طارق جمیل کے مواعظ کا آفیشلی بندوبست کیا جاتا رہا ہے، جب کہ طارق جمیل کے سیاسی طور پر با اثر افراد سے تعلقات بھی ڈھکے چھپے نہیں رہے ہیں۔

لیکن پچھلی دہائیوں سے پاکستان میں دہشت گردی اور مسلکی بنیاد پر قتل وغارت میں مُلوّث تنظیموں کی دیوبندی بنیادوں کے باعث اسے کم کرنے کی کوششیں بھی زیر بحث آتی رہی ہیں۔ جس کے لئے معاشرہ میں کم نفوذ رکھنے والے اہلحدیث مکتب فکر کی جہادی تنظیموں کو آگے لانے یا بریلوی اسلام کو صوفی اسلام کا تسلسل مان کر اولیت دینے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔

اس کا مظاہرہ حکومتی اداروں اوربین الاقوامی تنظیموں کی معاونت سےصوفی کانفرنسز کے انعقاد اور سماجی سطح پرصوفی میوزک کے بڑھتے رجحان سے بھی ہوتا رہا ہے، اور پاکستان کے اندر دہشت گردی، اور خود کش حملوں کی شرعی ممانعت کے فتاوٰی بھی بریلوی مکتب فکر کے علماء یا تنظیموں کی جانب سے آئے ہیں۔

پاکستان میں ریاستی ضرورتوں کے تحت خاص مذہبی بیانیہ تشکیل دینے یا خاص مکتب فکر یا مذہبی سیاسی نظریے کی کوششیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے جماعت اسلامی برانڈ کا اسلام، پھر دیوبندی برانڈ، پھر غامدی برانڈ سامنے آتا رہا ہے، اور اسے بھرپور معاونت حاصل رہی ہے۔

میں اس سے قبل بھی لکھ چُکا ہوں کہ پاکستان میں 70ء کی دہائی میں آنے والی بہت سی تبدیلیوں میں ایک اہم تبدیلی ریاست کے سیاسی مذہبی تشخّص سے آگے بڑھ کر فرقہ ورانہ شناخت کو اختیا رکرنے کی تھی۔ جب جماعت اسلامی کی سیاسی مذہبیت کے متوازی دیوبندی تشخّص کے جگہ پانے کا عمل بڑھا۔

اس عمل میں افغان انقلاب کے خلاف صف بندی، اور مسلح تصادم میں کُود پڑنے کے بعد اور شدت آگئی کیوں کہ جماعت اسلامی جسے افغان مہاجرین میں سے مجاہد برآمد کرنے کا ابتدائی ٹاسک دیا گیا تھا، لیکن بعد میں دینی مدارس کا پلیٹ فارم جہادی بھٹی میں جھونکنے کے لئے افرادی قوت کی فراہمی کے لئے زیادہ کارگر ٹہرا، جس کے لئے دیوبندی مسلک زیادہ موزوں بھی تھا، کیوں کہ افغان معاشرے میں دیوبندی اثرنفوذ کی جڑیں سو سال پرانی تھیں۔

اس ضرورت کے پیش نظر دیوبندی مسلک دفاعی بزرجمہروں کی توجہ کا محور بن گیا اورافغانستان کی جہادی صف بندی میں اگر چہ جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ گُلبدین حکمت یار کافی عرصہ ہاٹ فیورٹ رہے۔ لیکن جب دیوبندی جہادیوں کا جن تحریک طالبان کی صورت جادوئی چراغ سے برآمد ہوا تو حکمت یار صاحب کوچہارآسیا ب کا محاذ بنا مزاحمت ان کے حوالے کرنے میں ہی عافیت نظر آئی اور وہ طویل رخصت پر چلے گئے۔

1481688978-Ijazul-Haq-with-Afghan-Warlords.jpg

پاکستانی اور عرب حکام کی موجودگی میں احمد شاہ مسعود اور اور گلبدین حمکت یار کے مابین معاہدہ کرایا جارہا ہے۔

ریاست کی سیاسی مذہبی شناخت سے دیوبندی فرقہ ورانہ شناخت کے مظاہر جوں جوں رونما ہوئے، توں توں دیوبند یت میں داخلی طور پر موجود مختلف رجحانات بھی نمایاں ہونے لگے۔ پیسے کی ریل پیل ہوئی، سماجی حالات بدلے اور رہن سہن بدلا تو اس عمل کا حصہ بن کر طاقت کے حصول کے نئے امیدوار آگئے۔

نئے محاذ بھی کُھلے، کسی نے افغانستان کو ہی محور گردانا، کوئی روس کو بکھرتے دیکھنے کے بعد انڈیا ٹوٹنے کی پیش گئی پر لگا، کسی نے امریکا کو آگ کا بگولہ بنانے کے دعوے شروع کردیئے اور کوئی داخلی محاذ پر دیگر فرقوں اور مسالک کے خلاف برسرپیکار ہوا۔

احمدیت کے خلاف تو سب برابر کے حصہ دار تھے لیکن بدلتے حالات میں دیوبندی گروہ قیادت پر مصر تھے، اس لئے دیگر مسالک نے اس عمل میں ان سے علاحدہ رہنے میں ہی عافیت جانی۔

کسی نے مولانا نورانی سے پوچھا کہ آپ شیعہ مسلک کے خلاف دیوبند یوں کا ساتھ کیوں نہیں دیتے، آپ کے اکابر بھی تو شیعہ کی تکفیر کے قائل ہیں، تو انہوں نے جواب دیا، ہمیں پتا ہے کہ کالے جھنڈے کے بعد سبز جھنڈے کی باری آنی ہے۔

مولانا نورانی دوراندیش آدمی تھے، وہ بھانپ چکے تھے اور کراچی میں دیوبندی پیش قدمی کے شاہد بھی تھے۔ سیاسی محاذ پر اگر ایم کیو ایم نے ان کا ووٹ چھینا تھا تو مذہبی محاذ پر ان کے مسلک کے لوگوں کو اپنی مساجد پر دیوبندی قبضے کی شکایتیں تھیں۔

دیوبندی پیش قدمی کے مظاہر کراچی میں بہت نمایاں تھے، جہاں حالات تیزی سے تبدیل ہورہے تھے۔ جہادی نیٹ ورک پر اجارہ داری کی حد تک کنٹرول کا نتیجہ تھا کہ دھڑادھڑ مدارس کا نیٹ ورک پھیلتا چلا گیا تھا۔

پہلے پہل کراچی میں کوئی علاقہ پہلےآباد ہوتا، اس کی ضرورتوں کے تحت مسجد بنا کرتی اور ساتھ میں ایک آدھ مدرسہ ہوتا، اب مدرسے کی بنیادیں پہلے پڑتیں، مسجد اس کا حصہ ہوتی اور پھر ان کے بعد بتدریج رہائشی آباد یاں بھی بن جاتیں۔

اس عمل نے مدرسے کے مہتمم اور مسجد کے خطیب کو بڑا توانا کردیا، مالی وسائل کی کمیابی کا مسئلہ بھی نہیں رہا تھا۔ کمیونزم کے خلاف نظریاتی محاذ اور سعودی سرپرستی میں قائم رابطہ عالم اسلامی جیسے اداروں میں پاکستانی سیاسی مذہبی کرداروں اورعلماء کی رسائی نے ان کے لئے مالی وسائل کا راستہ کھولا تو دوسری جانب کاروباری اور تاجرحلقوں کی مدد سے رائے ونڈ کی تبلیغی جماعت کے اثر و رسوخ نے مدارس کے لئے مالیاتی وسائل کی روز افزونی کا بندوبست کردیا تھا۔ رہ گئی زمین، تو کراچی میں اس وقت اس کی کوئی کمی نہیں تھی۔

پھرجہاد ی تنظیموں کی تربیت کا ایک ثمر یہ آیا کہ مدارس و مساجد کے منتظمین کو تربیت یافتہ کیڈر بھی میسر آگیا تھا، جس نے اندرونی فتوحات میں مدد کی۔ دوسرے مسالک کی مساجد پر قبضہ کیا جانے لگا

۔80ء کی دہائی میں بریلوی مسلک کی لاتعداد مساجد دیوبندیوں کے قبضے میں آئیں، جس کا ردعمل سُنی تحریک کی صورت میں سامنے آیا، جن کا سلوگن ہی یہی تھا، جوانیاں لُٹائیں گے، مسجدیں بچائیں گے۔ یوں مساجد پر بزور قوت قبضے کا سلسلہ یک طرف نہیں رہا اور بڑی حد تک رُک بھی گیا۔

معاملہ کورٹ پہنچ جاتا، تبلیغی جماعت کے مقابل دعوت اسلامی آگئی، جس نے کراچی کی تاجر برادری اور کاروباری حلقوں میں کھویا ہوا اثرو رسوخ بحا ل کرنے میں کردار ادا کیا۔ دیوبندی جہادی و فرقہ ورانہ گروہ نے سُنّی تحریک کو نشانے پر رکھ لیا، نتیجتاً اس کی مرکزی قیادت بتدریج قتل کردی گئی۔ نچلی سطح پر ایم کیو ایم سے سیاسی محاذ آرائی اور مسلح تصادم نے ان کی ورکر بیس کو بھی نقصان پہنچایا۔

سینئر صحافی اور مصنف عارف جمال جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن کے لئے لکھے اپنے ایک مضمون میں بریلوی مکتب فکر کی جانب سے پاکستان کی عسکری اشرافیہ سے یہ شکوہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے جہادی سرگرمیوں کے لئے دیوبندی مسلک ہی کی حوصلہ افزائی کی اور اس حوالے سے خدمات کے لئے ان کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔

وہ جماعت اہلسنت کے 2000ء میں ملتان میں منعقدہ اجتماع کا ذکر کرتے ہیں جس میں پیر ریاض حسین شاہ نے کہا تھا کہ کشمیر کا جہاد ایک پالیسی ہے تو اس میں سب کو شامل کریں، مخصوص فرقے ہی کو کیوں اولیت دی جارہی ہے؟

لیکن تشدّد اور عسکریت کے میدان میں بریلوی مکتب فکر کبھی دیوبند کا ہمسر نہیں رہا۔ اس لئے اس کا زور ناموس رسالت ﷺ جیسے قوانین، یا کسی حد تک مشتعل ہجوم کے تشدد کا سہارا لے کر مخالفین کا مقابلہ کرنے پر رہا ہے۔ جیسے کراچی کے مائیکل ٹاؤن میں انجمن طلباء اسلام نے مسیحی آبادی کے ساتھ کیا، یا پنجاب میں وقفے وقفے سے ایسے واقعات ہوتے آرہے ہیں، یا پھر جیسے ناموس رسالتﷺ کے قانون کا سب سے بھرپور استعمال دیوبندی مخالفین کے خلاف کیا گیا ہے۔ اس لئے اس ذیل میں درج ہونے والی ایف آئی آرز میں سب سے زیادہ دیوبندی ہی نامزد ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بریلوی اس قانون کے حوالے سے سب سے زیادہ متحرک بھی ہیں اور احمدیوں کے حوالے سے موجود ذیلی دفعات پر بھی شدت سے قائم ہیں۔ جس کی وجہ سے بارہا میڈیا میں رپورٹ ہوتا رہا ہے کہ جب انفرادی سطح پر احمدی افراد قانونی کاروائی کا ہدف بنائے جاتے ہیں۔

جہاں تشدد کی باری آئے اور اس کا ہدف کوئی مشترکہ مخالف مذہبی و مسلکی گروہ ہو، وہاں دیوبندی مسلک کی فرقہ ورانہ جماعتیں آگے رہتی ہیں۔ اسی لئے کراچی میں تشدد کا نشانہ بننے والے احمدی افراد اور شیعہ مسلک کے لوگوں کے قاتل ایک ہی ہیں۔

جہاں بلوائی آگے بڑھ کر کسی مسیحی آبادی کو نشانہ بناتے ہیں، یا کسی احمدی دارالخیر کو جلاتے ہیں، وہاں ان میں دیوبندی بریلوی کا امتیاز قائم نہیں رہتا کیوں کہ یہاں دونوں کا مشترکہ اسلام خطرے میں پڑجاتا ہے۔

عید میلاد النبی ﷺ کا دن تھا کہ اچانک چکوال سے خبر آئی کہ احمدی مسلک کی عبادت گاہ دارالخیر کے گرد ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ انہوں نے پتھراؤ اور جلاؤ گھیراؤ شروع کیا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے اور وہاں سے لوگوں کو باہر نکالا لیکن عمارت بلوائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی۔ جنہوں نے وہاں ویسے ہی مناظر دہرائے جیسے 90ء کی دہائی میں انتہا پسند ہندوؤں کی بابری مسجد پر چڑھائی کے وقت نظر آئے تھے۔ دونوں واقعات میں قبضے اور چڑھائی کے انداز میں ایک اور نقطہ مماثلت عمارتوں کی تاریخ اور ملکیت کے حوالے سے تاریخی دعاوی بھی ہیں۔

انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار، کراچی کے انتہائی متحرک نوجوان ایکٹیوسٹ جبران ناصر نے احمدی عبادت گاہ پر حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث افراد کا انتظامیہ کےنام دستخط شُدہ خط ٹویٹر پر پوسٹ کیا ہے، جس میں اس عمارت کی تاریخ، اس کی ملکیت کے حوالے سے قانونی جنگ کا تذکرہ، حوالگی کا مطالبہ اور انتہائی اقدام کی واضح دھمکی موجود ہے، جس کے بعد کسی قسم کی کاروائی کرنے کے لئے انتظامیہ کے پاس واضح راہ متعین ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہیں۔

1481688490-15570893-10211337681308011-1433705229-n.jpg

مقامی افراد کی جانب سے انتظامیہ کو لکھے گئے خط کا عکس

پاکستان میں سیاسی مذہبی جماعتوں، ان کی مسلح محاذ آرائیوں، دیگر مذاہب اور احمدی مسلک کے حامل افراد کے خلاف کارروائیوں، تشدد، اور قانونی اقدامات کی طویل تاریخ سے واقف افراد اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ قیام پاکستان کے خود ساختہ پس منظر، نظریہ پاکستان کی وضع کردہ اصطلاح، قرارداد مقاصد کے تقدس پر اصرار، اور جہاد ی عناصر کے فارن پالیسی کے اہم جُز کے طور پر استعمال کرنے کی فکری یا عملی تائید کے بعد جو چیز پاکستان میں موجود تمام فرقوں کو ایک نکتہ اشتراک پر لاتی ہے وہ احمدیت کے خلاف مُتّفقہ موقف اور مشترکہ ایکشن کی تاریخ ہے۔

پاکستان کے آئین میں کی گئی ترمیم، جس کے تحت احمدیوں کو غیر مُسلم قرار دیا گیا تھا، ایک ایسا اقدام ہے جس کی تائید میں پاکستان کی سیاسی مذہبی اور سیکولر جماعتیں بھی کھڑی ہوگئیں تھیں۔ آج بھی اس ترمیم کے خلاف بولنا یا احمدی برادری سے کسی تعلق خاطر کا اظہار سیاسی حوالے سے درست نہیں سمجھا جاتا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض سینئر لیڈر تو برملا دوسری آئینی ترمیم کا کریڈٹ لیتے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو کے سر یہ سہرا باندھتے ہیں، جب کہ مسلم لیگ کے رہنما احمدی مخالف ایک نکاتی ایجنڈے پر قائم مجلس ختم نبوت کی تقاریب میں شرکت باعث خیروبرکت سمجھتے ہیں۔ وہ سیاسی مذہبی قوتیں جو بھٹو صاحب کی والدہ کو ہندو ثابت کرنے کی تگ و دو کرتی رہیں ہیں، اگر بھٹو کے کسی اقدام کو لائق تحسین سمجھتی ہیں تو وہ دوسری ترمیم ہی ہے۔

کم و بیش تمام سیاسی مذہبی قوتیں اپنے اپنے رہنماؤں، فرقے اور اپنے علماء کو احمدیت کی آئینی تکفیر کی تحریک جسے تحریک ختم نبوت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، کا سرخیل مانتی آئی ہیں۔

سید مودودی کوان کے صالحین، دیوبندی علماء محمد یوسف بنوری اور مفتی محمود کو ان کے اکابر پرست پیروان اور مولانا عبدالستار نیازی اورمولانا شاہ احمد نورانی کو ان کے مریدان باصفا اس تحریک کا امام گردانتے ہیں۔

کم و بیش شیعہ علما کا بھی یہی حال ہے۔ اگر چہ حالیہ برسوں میں بعض حلقے شیعہ علما کے کسی اہم کردار کی نفی کرتے ہیں، سو ہم یہ فیصلہ ان پر چھوڑ دیتے ہیں، کیوں کہ شیعہ مسلک کو بھی اگرعلمی محاذ پر تکفیر کے چیلنج کا سامنا ہے تو سیاسی محاذ پر تو ایسی جماعتیں اور مسلح دھڑے موجود ہیں جو ان کی تکفیر کا نعرہ بھی لگاتے ہیں، اس پر سیاست کرتے ہیں، اور بڑے پیمانے پر شیعہ نسل کُشی کی کارروائیوں میں بھی مُلوث ہیں۔

لیکن جب بھی بریلوی دیوبندی اثر و نفوذ کے مقابلے کی نوبت آئے گی، دونوں ساتھ نہیں چل پائیں گے، الّا یہ کہ ریاست کو اس کی ضرورت ہو، جیسا دفاعِ افغانستان و دفاعِ پاکستان کونسل سے ترقی کرکے تشکیل پانے والی مُتحدہ مجلس عمل کے ذیل میں ہوا تھا۔

اب بات آگئی جنرل باجوہ کی، تو ملک کی داخلی وخارجی سکیورٹی کے معاملے میں چیف آف آرمی اسٹاف اور ان کی قیادت میں کام کرنے والی عسکری قیادت کے رجحانات کا اثر ضرور پڑتا ہے۔

حالیہ ریٹائرڈ ہونے والے جنرل راحیل شریف کی جس طرح سے پرسنالٹی پروجیکشن ہوئی اور ہر معاملے میں ان کو فرنٹ لائن پر دکھایا جاتا رہا، پھر قمر باجوہ کا استقبال جس انداز میں کیا گیا، اس سے ان کی افتاد طبع و رجحانات پر فوکس اور بڑھ جاتا ہے۔ کسی حد تک ان کی منظور کی گئی پروموشنز اور پوسٹنگز بھی اس کی عکاس ہیں۔

راحیل شریف جب آئے، تواپنے پیش رو جنرل کیانی کے برعکس، جن کو اپنے عقیدے و مسلک کی وضاحت کے لئے انصار عبّاسی اور ہارون رشید سے ون ٹو ون ملاقاتوں اور ان کے کالمز کا سہارا لینا پڑتا تھا، راحیل شریف ایسے کسی جھمیلے میں نہیں پڑے، اور اپنے تئیں ایک راہ چُن کر مسلح ایکشن میں جت گئے۔ سیاسی حکومت بھی پیچھے چلی، سیاسی اپوزیشن بھی اشارہ ابرو کی منتظر رہی، اخبار و ٹی وی کی مسند پر براجمان شارحین اتباع میں ان کے لئے خود سے ہی جواز اور فتاوٰی تراشتے رہے اور ان کے پرستار شیخ و مُلّا ان کے نام سے مساجد و مدارس بھی قائم کرتے رہے۔

اب جنرل باجوہ پر منحصر ہے کہ وہ اپنے دو سابقہ پیش روؤں کی مثالوں کے بعد اپنے لئے کیا راہ چنتے ہیں؟

جنرل کیانی کے بارے میں تو سابق ڈی جی آئی ایس پی آر بھی تنقیدی لہجہ اپناتے رہے ہیں، پھر ان کے حوالے سے کرپشن و اقربا پروری کی کہانیاں بھی گردش میں ہیں۔

مجھے 14 اگست 2012ء کو ان کی تقریر یاد ہے، جس میں انہوں نے مشکل داخلی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے اسے ہر حال میں منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کیا تھا۔

آرمی چیف کی شخصیت کو مرکز مان کر صحافت کرنے والے بہت سے انگریزی اور اردو کے لکھاری اس تقریر کی ستائش میں لگ گئے تھے، یوں لگتا تھا کہ اب شمالی وزیرستان میں طبل جنگ بجنے والا ہے کہ اچانک کامرہ ائیر بیس کا حملہ ہوگیا۔

چند دن بعد یہ وضاحت چھپی کہ شمالی وزیرستان میں کوئی آپریشن نہیں ہونے جا رہا اور جنرل کیانی یہ کہتے سنے گئے کہ پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں اور اس کو کوئی الگ نہیں کرسکتا۔

اب جنرل باجوہ کی جانب سے احمدیت سے جوڑے جانے کے تاثر کے ردعمل میں محفل میلاد کی گھر پر منعقدہ مجلس کی آئی ایس پی آر کی تشہیر، ہارون الرشید کے کالمز کےسیاق و سباق کے ضمن میں دیکھتے ہوئے مجھے جنرل اشفاق پرویز کیانی یاد آجاتے ہیں۔

راحیل شریف کے دور میں جس طرح صوبوں کے انتظامی اور سکیورٹی معاملات میں فوج کا براہ راست کردار بڑھا، اس کے پیش نظر چکوال کے حالیہ واقعے کے بعد انتظامیہ کا ایکشن قابل غور ہوگا۔ آیا وہ کوئی الگ راہ چُنتے ہیں یا شانتی نگر، گوجرہ، بادامی باغ اور گڑھی شاہو کی طرح معاملہ خاموشی کی نذر ہوتا ہے۔۔۔

1479467756-aliarqam-large.png

علی ارقم انگریری ماہنامے نیوز لائن سے وابستہ اور سماجی ورکر ہیں۔ سیاست، سماج اور دیگر موضوعات پر ملکی اور بین الاقوامی اخبارات و رسائل میں لکھتے ہیں۔


http://nuktanazar.sujag.org/62247
 
Last edited by a moderator:

انجام

MPA (400+ posts)
یہ واقعہ کیا ہے اور اسکی حقیقت کیا ہے اتنی لمبی چوڑی تفصیل کے باوجود محترم کالم نگار یہ نہیں لکھ سکے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ پہلے مختصر الفاظ میں و
[FONT=&quot]اقعہ درجکرکے تمہید لکھی جاتی۔ یا تمہید لکھ کر آخر میں واقعہ کی تفصیل لکھ دی جاتی۔
یہاں اتنی لمبی تحریر میں صرف ایک درخواست کے کوئی بات سمجھ نہیں ائی۔[/FONT]​