چینی آئی پی پیز کا کیپسٹی چارجز پر نظرثانی سے انکار

1chinenippspinkakkr.png

چینی آئی پی پیز نے کیپسٹی چارجز پر نظرثانی سے انکار کردیا,چین کی تین بڑی پاور کمپنیوں نے بجلی خریداری معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا۔

بریفنگ میں تین چینی کمپنیوں کے نمائندوں نے کہا انرجی پر لیے گئے قرضے کو ری اسٹرکچر کرنے کا فیصلہ چینی بینکوں اور پاکستانی حکام کے درمیان ہونا چاہیے لیکن انھوں نے اپنے منافع اور کیپیسٹی پیمنٹ کی ان شرائط وضوابط میں کسی تبدیلی کے امکان کو مسترد کر دیا جن پر پاور پرچیز ایگریمنٹ کے تحت اتفاق ہوا تھا۔

پاکستانی ٹیم سی پیک اور نیو کلیئر پاور پلانٹس کے پروجیکٹس سے متعلق لیے گئے قرضوں کی میعاد بڑھانے اور ان قرضوں پر سود کی شرح کم کرانے کے لیے بیجنگ بھی گئی, وزیر خزانہ محمد اورنگزیب چینی حکام سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گئے تاکہ اس قرض کی دوبارہ واپسی کی مدت میں توسیع کرا سکیں ۔

یہ وہ قرض تھا جو حکومت پاکستان اور چینی کمپنیوں نے پاور پلانٹ نصب کرنے کے لیے چینی مالیاتی اداروں سے لیا تھا۔ پاکستان نے نیو کلیئر پاور پلانٹس لگانے کے لیے اور چینی کمپنیوں نے سی پیک کے تحت پاور پلانٹس لگانے کے لیے قرض لیا تھا۔

ان دونوں مدات کے قرض کی قدر تقریبا 17 ارب ڈالر بنتی ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق پاکستان نے پیشکش تیار کی ہے کہ انرجی کے شعبہ کے قرض کی واپسی کی مدت میں 8 سال کی توسیع کی جائے اور اس کی ادائیگی کو امریکی ڈالر سے چینی ین میں تبدیل کر دیا جائے اور ساتھ ہی اس قرض پر شرح سود کو بھی کم کیا جائے۔
چینی حکام نے پاکستانی تجویز کو مان لیا تو اس سے پاکستان میں بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 6 سے 7 روپے کمی آسکتی ہے۔ صرف چینی پاور پلانٹس کی بجلی کی قیمت میں 3 سے 4 روپے یونٹ کمی آسکتی ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان سود کے انسٹرومنٹس کو بھی ” ایس او ایف آر“ سے بدل کر ” ایس ایچ آئی بی او آر “ کرانا چاہتا ہے۔ یہ ایس او ایف آر “ اور ایس ایچ آئی بی او آر “ سے بھی اوپر ہو جانے والے سود کی بھی کٹوتی چاہتا ہے,پاکستان کی درخواست پر عمل ہو جائے تو اس سے مجموعی قرض کی لاگت میں 5 فیصد تک کمی آئے گی۔

اس سال پاکستان کو انرجی کے شعبے کے قرض کی واپسی کے لیے 2 ارب ڈالر سے زیادہ ادائیگی کرنا ہے۔ پاکستان اس ادائیگی کو بھی مؤخر کرانا چاہتا ہے۔پاکستان میں صنعتکاروں اور گھر یلو صارفین کی جانب سے حکومت پر بیکار کیپسٹی کی ادائیگی سے بچنے کے لیے پاور پر چیز ایگری منٹس پر نظر ثانی کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔

ساہیوال پاور پلانٹ، پورٹ قاسم پاور پلانٹ اور چائنہ حبکو پاور پلانٹ کے عہدیداروں نے بتایا کہ 2014 کی انرجی پالیسی کی بنیاد پر پاور پرچیز ایگریمنٹ کی ادائیگی یا وصولی پر نظر ثانی نہیں کی جاسکتی۔ ان تینوں پاور پلانٹس کی کپیسٹی 3960 میگاواٹ ہے۔

پورٹ قاسم پاور پلانٹ کے چینی نمائندے نے کہا کہ دس سال قبل پاکستان میں 10 سے 14 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ تھی اور کوئی مقامی سرمایہ کار انرجی سیکٹر میں انویسٹمنٹ کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس وقت پاور پالیسی 2014 “ ہی ہماری سرمایہ کاری کی بنیاد بنی تھی۔

چینی پلانٹس کے نمائندوں نے کہا مرکزی مسئلہ انتہائی زیادہ لائن لاسز ، چوری اور کم ریکوری کا ہے۔سابق عبوری وزیر تجارت گوہر اعجاز نے منگل کو کہا ہے کہ ایف پی سی سی آئی ان آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی, گوہر اعجاز نے کہا کہ پیٹیشن میں کہا جائے گا کہ ان نا قابل برداشت حالات میں عدالت مداخلت کرے۔
 

Citizen X

(50k+ posts) بابائے فورم
Lo G ker lo gul, higher than the himalaya dost bhi is ghatiya hukumat ko lun keradiya
 

Shahid Abassi

Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان حکومت کے لئے یہ سودا منافع بخش ہوگا کہ وہ اب ان آئی پی پیز کو خرید لے۔ لوکل بانڈز پر قرض لے کر اس پر پندرہ فیصد سود دینا کہیں بہتر ہے کہ ان آئی پی پیز مالکان کو ایکویٹی پر چالیس چالیس فیصد منافع دیا جائے اور وہ بھی ایک پیسے کی بجلی بنائے بغیر۔ اس سے یہ ہوگا کہ بجلی کے بلوں سے کیپسٹی چارجز ہٹا کر قرض پر لئے گئے سود کو بِلوں میں ایڈجسٹ کر دیا جائے۔ اس سے بجلی ۲۰ فیصد تک سستی ہو سکتی ہے۔ حکومت کے لئے یہ بھی ضروری نہی کہ ایک دم سے سارے آئی پی پیز کیو خریدے، بلکہ وہ ہر سال دو چار آئی پی پیز خرید کر سکتی ہے۔ ویسے انصاف کیا جائے تو یہ سارے پیسے شریف خاندان سے وصول کئے جانے چاہئیں کہ جنہوں نے یہ معائدے کئے اور ۲۵ ہزار میگاواٹ کی ضرورت ہوتے ہوئے تینتالیس ہزار میگاواٹ کے معائدے کئے اور ہزاروں ارب کرپشن کی نظر کئے۔ پاکستان کا زوال سی پیک سے شروع ہوا ہے اور ہم پہاڑوں سے اونچے اور سمندروں سے گہری دوستی والے ہمسائیے کا چارہ بن چکے ہیں کہ جس کی کمپنیوں نے حکمران خاندانوں کے ساتھ حصہ داری میں پاکستانی عوام کے ساتھ دوستی نبھانے کی بجائے حکمرانوں کو کمیشن دے کر خریدا اور من پسند کانٹریکٹ حاصل کئے۔
 

Back
Top