ڈیل ہی کرنی ہے تو بڑی ڈیل کیوں نہ کی جائے۔

xshadow

Minister (2k+ posts)
اس قسم کی باتیں عام حالات میں ہوں تو شاید کوئی سمجھ بھی جائے مگر اتنا وقت نہیں ہے کہ پہلے رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔ چین ہو یا روس' ان سے پاکستان کے جتنے بھی معاملات ہوئے یا ہورہے ہیں وہ سرا سر معاشی ہیں۔ اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان پر معاشی مشکلات نہ ہوں تو کشمیر کیا چین کی آزادی کی تحریک بھی اپنے عروج پر پہنج جائیں۔ کسی کو اچھا لگے یا برا' چین سے میں اتنا ہی ظلم ہورہا ہے مسلمانوں پر جتنا کہ کہیں اور بلکہ اسکی تو خبریں بھی باہر نہیں آتیں۔ البتہ کیونکہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے وجود سے شروع ہوا تو اسلیے اسکا اثر زہنوں پر زیادہ ہے۔ پھر کیونکہ چین کے مسلمانوں سے مختلف زبان اور کلچر ہونے کی وجہ سے بھی پاکستانیوں کی اتنی وابستگی نہیں ہے اسلیے بھی چین کے اندر جو مظالم ہورہے ہیں ان پر بات کم کی جاتی ہے۔ لیکن یہ بات ہر کوئی پلے سے باندھ لے کہ اگر کبھی پاکستان کی معیشت ٹھیک ہوگئی تو یہ خطرہ جتنا بھارت کے لیے ہوگا اتنا ہی چین کے لیے۔ کیونکہ یہ ہونہیں سکتا کہ معاشی لحاظ سے مضبوط پاکستان جو کہ جوہر طاقت بھی رکھتا ہو وہ مسلمانوں پر ظلم کے خلاف نہ بولے۔ اسی لیے معاشی لحاظ سے پاکستان کو کمزور رکھنا تو چین اور ہندوستان کے مفاد میں ہے۔ کیونکہ انسانی فطرت فوری فائدہ دیکھتی ہے۔ اسلیے یاد رہے کہ چین سے تعلقات خراب کرنا کبھی بھی کوئی دینی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ یہ بات کیونکہ لوگوں کو سمجھ نہیں آئیگی اور چین بھی پاکستان کو فوری معاشی فائدے کے لیے استعمال کرے گا اسلیے ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہے کہ چین اور پاکستان لڑ پڑیں۔ اور یقینا وہ حدیث بھی پوری ہوگی کہ چین ہی ہندوستان کو سبق سکھائے گا پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری بچانے کے لیے۔ لیکن کیونکہ بات کرنی چاہیے اصول کی تو بظاہر کوئی ایسی وجہ نہیں کہ پاکستان چین سے اپنے مفادات قائم کرلے جبکہ وہی تعلقات امریکہ اور یورپ سے بھی ہوسکتے ہیں۔

جب ڈیل کا طوق ہی گلے میں ڈالنا ہے تو پھر بڑی ڈیل کیوں نہ بڑی کی جائے۔ پھر یہ ڈیل کسی فرد واحد سے کیوں کی جائے جبکہ کسی نظام سے کی جائے جس میں لوگ میرٹ کی بنیاد پر آتے ہیں تاکہ علمی سطح کی بحث کے بعد معاملات طے کیے جاسکیں۔ میرا اشارہ امریکہ اور یورپ کی طرف ہے بلکہ اس میں اسرائیل کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

اور یہ ڈیل عمران خان کو کرلینی چاہیے کچھ جمع اور تفریق کے ساتھ۔ فوجی قیادت کو بھی اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کیونکہ ڈالر آئیں گے جس میں کھلا کھاو اور ننگا نہاو۔ اگرچہ کہ انکی خارجہ پالیسی کی واقفیت سب کے سامنے آچکی ہے مگر پھر انہیں اس کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگر سیاسی مزاکرات سے ہی امریکہ اور یورپ کی دال گل رہی ہو تو پھر انہیں ایسے جرنیلوں سے بات کرکے متنازعہ خارجہ پالیسی چلانے کی کیا پڑی ہے جسکے بعد انکو اپنے ملکوں میں جواب دینا پڑتا ہے۔

یار دہے کہ فل حال امریکہ کی ساری شرائط ویسے ہی مانی جارہی ہیں کیونکہ فوجی قیادت کے پاس آئنی اختیار نہیں ہے خارجہ پالیسی چلانے کا اسی لیے انکو اپنی شرطیں منوانی نہیں آتیں بلکہ الٹا اپنے لوگوں کو دبانا پڑتا ہے ناجائز حد تک جانے کے لیے۔ یہی شرائط اگر ایک سیاسی اور مقبول لیڈر مان لے تو وہ کچھ نہ کچھ اپنی شرائط بھی منوا کر آتا ہے۔

پہلی شرط ہوگی سی پیک بند کیا جائے۔ ٹھیک ہے کیونکہ پاکستان یہ چین کے لیے نہیں بلکہ اپنی معیشت کے لیے کررہا ہے۔ اگر معیشت ویسے ہی ٹھیک ہوجاتی ہے تو سی پیک کے علاوہ بھی پاکستان سانس لے سکتا ہے۔ اسلیے پاکستان کا سارا قرضہ معاف کیا جائے اور پاکستان کو ایک سو بلین ڈالر امداد دی جائے۔ کیونکہ چین کوئی پاکستان کا خالہ زاد بھائی نہیں ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں اسلیے چین کے ساتھ لڑنے کی زمہ داری پاکستان کی ہوگی لہزا پاکستان وہ کام کرے گا جو ہندوستان نہیں کرسکتا یعنی جنگ۔ اسلیے مسئلہ کشمیر فورا حل کیا جائے تاکہ بھارت سے پاکستان کے خطرح کو ختم کیا جاسکے۔ یا تو کشمیر پاکستان کو دیا جائے یا پھر اسے الگ ریاست بنایا جائے لیکن اگر کشمیر ہندوستان کے پاس رہتا ہے تو پاکستان دو محازوں پر نہیں لڑسکتا۔ ہاں اگر کشمیر آزاد ہوجاتا ہے ہندوستان سے تو پاکستان کے پاس چین سے جنگ کی بڑی اچھی وجہ بن سکتی ہے کیونکہ چین میں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور بیانیہ بڑا مضبوط بن سکتا ہے کہ کیونکہ ہندوستان نے مسلمانوں پر ظلم ختم کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے تو چین بھی اس سے سبق سیکھے۔ اور کیونکہ مسئلہ کشمیر حل ہونے کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں ویسے ہی دوستی اور تعلقات بڑھ جائیگے تو چین پر دباو بڑ جائیگا۔ مگر اس ساری پالیسی میں پاکستان باس ہوگا ہندوستان کا اور ساری نوازشات پاکستان پر ہوں گی جو اس وقت ہندوستان پر ہورہی ہیں۔

دوسرا یہ کہ روس کی مخالفت کی جائے یوکرین جنگ میں۔ ایسا بھی کیا جاسکتا ہے اگر 25 بلین ڈالر پاکستان کو مزید امداد دی جائے اور اگر یوکرین کو اسلحہ بھی چاہیے تو اسکے لیے 10 بلین ڈالرز مزید پاکستان کو دیے جائیں وہ بھی سالانہ۔ اور کیونکہ روس سے تعلقات خراب ہوں گے تو امریکہ کو اڈے دیے جاسکتے ہیں تاکہ کہیں روس ہی حملہ نہ کردے پاکستان پر۔ مگر اڈے بھی عوام کو حضم کروانے کے لیے 50 بلین ڈالرز پاکستان کو دیے جائیں۔

تیسری شرط ویسے ہی ختم ہوجائیگی کیونکہ جوہری ہتھیاروں کے بغیر پاکستان کوئی جنگ نہیں کرسکتا اسلیے جوہری پروگرام ویسے ہی چلتا رہے گا کیونکہ انرجی کی ضروریات بھی ہیں بلکہ اس میں امریکہ مزید معاونت کرے جسکے بارے میں ماہرین سے بات کی جاسکتی ہے۔

چوتھی شرط آئیگی کہ اسرائیل کو قبول کیا جائے تو اسکے لیے 75 بلین ڈالرز تو کم از کم ہوں گے صرف مزاکرات شروع کرنے کے لیے۔ کیونکہ عمران خان کے اسرائیل سے مزاکرات عوام اسی صورت قبول کرے گی جب اسکا پیٹ بھرا ہوگا۔ ہاں مزاکرات کے دوران یہ شرائط رکھی جاسکتی ہیں کہ اسرائیل اگر فلسطینیوں پر حملے نہ کرے' انکو اردن تک ساحلی راستہ دے تو پاکستان صفارتی تعلقات قائم کرسکتا ہے۔ مگر کیونکہ اسرائیل کی تاریخ ہے معاہدوں کی خلاف ورزی کرنا تو پاکستان کی قیادت میں عالمی امن فوج کو حق ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی جنگ کی صورت میں جاکر جنگ بند کروائیں اور کسی بھی طرف سے گولا باری ہو تو اسے روک سکیں۔

یقیناً یہ تمام شرائط مزاکرات کی میز پر طے ہونی چاہییں۔ یہ شرائط ابھی بھی پاکستان کے لیے سخت ہوں گی کیونکہ معیشت اتنی جلدی ٹھیک نہیں ہوسکتی چاہے سو بلین ڈالر آج پاکستان کو مل جائیں۔ معیشت چلنے اور عام آدمی تک اسکا ثمر پہنچنے تک وقت درکار ہے مگر شروعات ہوگی تو نتیجہ بھی نکلے گا۔ سب سے پہلے تو یہ مارا ماری بند کرنی ہوگی تاکہ معیشت کو سانس آئے۔ آزاد ماحول میں لوگ بہتر فیصلے کرتے ہیں کیونکہ تاثر اچھا جائیگا جب امریکہ اور یورپ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات ہوگی۔ الیکشن ہوں تو جو بھی حکومت میں آئے ان سے امریکہ اور یورپ اپنی شرائط رکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ہر ملک اور قوم کو حق ہے کہ اپنے مفادات کا تحفظ کرے مگر اسکے لیے دوسروں پر ظلم کرنا ضروری نہیں ہے۔ وقتی فائدہ اس سے نظر ضرور آتا ہے مگر کیونکہ لوگوں کے دلوں میں نفرت بھر جاتی ہے تو لاوا پھٹنے کا امکان ہوتا ہے جسکے بعد کچھ ملنا ہوتا ہے تو وہ بھی نہیں ملتا۔ مثلا آج امریکہ کو 6 بلین ڈالر دے کر اپنے لوگ چھڑانے پڑے ایران سے۔ تو کیا امریکہ اور یورپ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی ایران جیسی حکومت آجائے؟ تو کیوں ایسے حالات بنائے جارہے ہیں۔

ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ پی ٹی آئی کو اعلانیہ مزاکرات کا اعلان کرنا چاہیے۔ بلکہ براہراست اسرائیل سے مزاکرات کریں۔ انہیں فائدہ نظر آنا چاہیے پاکستان کی معیشت میں۔ کیونکہ چین اور روس کا خوف کا خوف ہے جس نے انہیں ڈرا کر رکھا ہوا ہے اور اس پاکستان کے خلاف اپنی جاسوسیت دکھاتے ہیں جو انکا حقیقی معانی میں اتحادی بن سکتا ہے جیسا کہ ہندوستان کبھی بھی نہیں بنے گا۔ ہندوستان حالانکہ 3 گنا بڑا ملک ہے مگر اتنی جرات نہیں ہے کہ چین سے لڑ سکے۔ یہ پاکستان ہی ہے جس نے روس کو شکست دی اور آج بھی چین سے لڑسکتا ہے اگر امریکہ اور یورپ پاکستان کو تیار کریں۔ لیکن اگر امریکہ اور یورپ پاکستان کو دشمن سمجھتے ہیں یا کہنا چاہیے کہ مسلمانوں سے نفرت اتنی بڑھ گئی ہے پاکستان کو خوار کرکے اپنی عناء کی تسکین پوری کرنا چاہتے ہیں تو پھر پاکستان کو بھی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ چین سے پنگا لے۔ اسلیے نہیں کہ چین کو فائدہ ہو بلکہ 25 کروڑ لوگوں نے کھانا بھی ہے۔ انہیں اس سے کیا کہ امریکہ اور یورپ کتنے ناراض ہوں گے۔ مطلب واضح ہے کہ پاکستان میں جوکر بھٹا کر انہیں بھی کھلانا تو پڑے گا۔ پھر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی بھی اختیار کرنی پڑے گی۔ پھر آئی ایم ایف سے یہ بھی کہنا پڑے گا کہ پاکستان کو بیل آوٹ دے جس سے آئی ایم ایف کی ساکھ خراب ہوگی۔ یعنی فرض کریں کہ آئی ایم ایف کے پاس چلا جائے جاپان اور شرائط پسند نہ آنے پر کہے کہ پاکستان جیسے ملک بیل آوٹ دیا گیا جبکہ دیوالیہ ہوچکا تھا تو ہم سے اتنی سخت شرائط کی وجہ؟ تو آئی ایم ایف کوئی پکوڑوں کی دکان نہیں ہے اسکے لیے مشکل ہوگا بار بار بیل آوٹ دینا۔ یا پھر یورپ اور امریکہ اعلان کردیں کہ پاکستان آج سے ہماری ریاست ہے' اسے بیل آوٹ اس لیے دیا جارہا ہے کہ اسے باقادہ امریی یا یورپین چھاونی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اور اسکی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہوگی سوائے اسکے کہ جو امریکہ اور یورپ طے کریں۔ باقائدہ پاکستان کا سودا ہو دستخطوں کے ساتھ جسکے بعد پاکستان کا نام بھی بدل دیں' اسکی کرنسی بھی ڈالر یا یورو کردی جائے' وغیرہ وغیرہ۔ کم از کم لوگوں کو سانس تو آئے۔ چین اور روس یا پھر ہندوستان کی قالونی بننے سے بہتر ہے کہ پاکستان امریکی قالونی بن جائے۔ پاکستان جو بھی بیان دے وہ امریکی بیان سمجھا جائے تاکہ یہ شک و شبہات ختم ہوں۔

مجھے یقین ہے کہ یہ ساری باتیں اگر امریکہ اور یورپ سے کی جائیں براہراست تو اس سے آدھی دلیلوں پر انہوں نے ہاتھ کھڑے کردینے ہیں اور اگلے دن پاکستان میں الیکشن ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ اور یورپ کا فائدہ اسی میں ہے جو پاکستانیوں کو سمجھانا نہیں آتا۔

اس سے ایک قدم آگے جاکر اسرائیل سے براہ راست بات کی جاسکتی ہے کیونکہ عمومی طور پر وہیں سے امریکی خارجہ پالیسی چلنے کی بو آتی ہے۔ اسرائیل سے مزاکرات ہوجائیں تو امریکہ سے مزاکرات اور بھی آسان ہوجائیں گے۔ پاکستان کو پاکستان ہی رکھنا ہے یا امریکی قالونی بنانا ہے' معیشت ٹھیک کرنے کی شرط پر قبول کرلینا چاہیے۔ فل حال یہی محسوس ہوگا کہ پاکستان نے غلامی قبول کی ہے مگر پاکستان اگر چین اور روس سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائے تو یہ تاثر ختم ہوجائیگا کہ پاکستان نے غلامی کی ہے بلکہ امریکہ اور یورپ خود پاکستان کی اہمیت سے صحیع واقف ہوں گے۔ یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے کیونکہ بہرحال' یہودو نثارا اللہ پر یقین کرتے ہیں اور انکے ممالک میں اگر کوئی قانون ہے تو وہ اسی لیے ہے۔ ورنہ چین اور روس میں عدالتیں ویسے ہی فرد واحد کے قبضے میں ہیں جیسے پاکستان میں ہے۔ یہی بات امریکہ اور یورپ کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر فرد واحد عدالتوں کو کنٹرول کرے جیسے آج ہورہا ہے تو یہ وقت بھی بعید نہیں کہ یہ فرد واحد انکے قبضے سے نکل جائے جیسے کہ چین اور روس کے فرد واحد آزاد ہیں۔ بلکہ اب تو کام مزید آسان ہوچکا ہے۔ یہ پتا نہیں کون بیٹھ کر یورپ اور امریکہ کو الٹی پٹیاں پڑھاتا ہے حکومتوں کے تختے الٹنے کا جبکہ اس سے جتنا نقصان امریکہ اور یورپ کو ہوا ہے اسکی سب سے بڑی مثال پاکستان ہے۔ جو ملک آدھے بول پر راضی ہوجاتا اسکے باجوہ کی باتوں میں آگیا اور اب عوام کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم کردی۔

اس ڈیل سے ہر پارٹی خوش ہوگی بشمول عوام کے۔ کیونکہ عوام کی پہلی ترجیح ہے معیشت۔ پھر جاکر خارجہ پالیسی آئیگی مگر تب تک عمران خان جیسا مقبول لیڈر عوام کی زہن سازی کرسکتا ہے۔ یہ بات اب عمران خان کو سمجھ آتی ہے یا نہیں مگر شروعات تو کی جاسکتی ہے۔ یہ مقدمات ختم کیے جائیں۔ کچھ خیر سگالی کی جائے۔ ظلم ختم کیا جائے۔ کیونکہ اس کائنات کو چلانے والا بھی کوئی ہے جو سب دیکھ رہا ہے۔ کہیں سے بھی کسی اچھائی کو وہ پسند کرتا ہے۔ پھر اس پر انسان شکر کرے تو مزید عطا کرتا ہے۔ یہی بات پاکستانی یا مسلمان سمجھا سکتے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں۔ اسلیے حکمت اور دانائی کا تقاضہ ہے کہ ہر کسی کے تحفظات کو دیکھا جائے کہ کیسے انکو دور کیا جاسکتا ہے تاکہ ہر کسی کا فائدہ ہو۔ ویسے بھی پاکستان کو جتنے ڈالرز چاہییں وہ ان سے کم ہی ہیں جتنے امریکہ نے افغانستان میں ضائع کرکے حاصل بھی کچھ نہیں کیا۔
 
Last edited by a moderator:

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
اس قسم کی باتیں عام حالات میں ہوں تو شاید کوئی سمجھ بھی جائے مگر اتنا وقت نہیں ہے کہ پہلے رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔ چین ہو یا روس' ان سے پاکستان کے جتنے بھی معاملات ہوئے یا ہورہے ہیں وہ سرا سر معاشی ہیں۔ اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان پر معاشی مشکلات نہ ہوں تو کشمیر کیا چین کی آزادی کی تحریک بھی اپنے عروج پر پہنج جائیں۔ کسی کو اچھا لگے یا برا' چین سے میں اتنا ہی ظلم ہورہا ہے مسلمانوں پر جتنا کہ کہیں اور بلکہ اسکی تو خبریں بھی باہر نہیں آتیں۔ البتہ کیونکہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے وجود سے شروع ہوا تو اسلیے اسکا اثر زہنوں پر زیادہ ہے۔ پھر کیونکہ چین کے مسلمانوں سے مختلف زبان اور کلچر ہونے کی وجہ سے بھی پاکستانیوں کی اتنی وابستگی نہیں ہے اسلیے بھی چین کے اندر جو مظالم ہورہے ہیں ان پر بات کم کی جاتی ہے۔ لیکن یہ بات ہر کوئی پلے سے باندھ لے کہ اگر کبھی پاکستان کی معیشت ٹھیک ہوگئی تو یہ خطرہ جتنا بھارت کے لیے ہوگا اتنا ہی چین کے لیے۔ کیونکہ یہ ہونہیں سکتا کہ معاشی لحاظ سے مضبوط پاکستان جو کہ جوہر طاقت بھی رکھتا ہو وہ مسلمانوں پر ظلم کے خلاف نہ بولے۔ اسی لیے معاشی لحاظ سے پاکستان کو کمزور رکھنا تو چین اور ہندوستان کے مفاد میں ہے۔ کیونکہ انسانی فطرت فوری فائدہ دیکھتی ہے۔ اسلیے یاد رہے کہ چین سے تعلقات خراب کرنا کبھی بھی کوئی دینی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ یہ بات کیونکہ لوگوں کو سمجھ نہیں آئیگی اور چین بھی پاکستان کو فوری معاشی فائدے کے لیے استعمال کرے گا اسلیے ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہے کہ چین اور پاکستان لڑ پڑیں۔ اور یقینا وہ حدیث بھی پوری ہوگی کہ چین ہی ہندوستان کو سبق سکھائے گا پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری بچانے کے لیے۔ لیکن کیونکہ بات کرنی چاہیے اصول کی تو بظاہر کوئی ایسی وجہ نہیں کہ پاکستان چین سے اپنے مفادات قائم کرلے جبکہ وہی تعلقات امریکہ اور یورپ سے بھی ہوسکتے ہیں۔

جب ڈیل کا طوق ہی گلے میں ڈالنا ہے تو پھر بڑی ڈیل کیوں نہ بڑی کی جائے۔ پھر یہ ڈیل کسی فرد واحد سے کیوں کی جائے جبکہ کسی نظام سے کی جائے جس میں لوگ میرٹ کی بنیاد پر آتے ہیں تاکہ علمی سطح کی بحث کے بعد معاملات طے کیے جاسکیں۔ میرا اشارہ امریکہ اور یورپ کی طرف ہے بلکہ اس میں اسرائیل کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

اور یہ ڈیل عمران خان کو کرلینی چاہیے کچھ جمع اور تفریق کے ساتھ۔ فوجی قیادت کو بھی اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کیونکہ ڈالر آئیں گے جس میں کھلا کھاو اور ننگا نہاو۔ اگرچہ کہ انکی خارجہ پالیسی کی واقفیت سب کے سامنے آچکی ہے مگر پھر انہیں اس کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگر سیاسی مزاکرات سے ہی امریکہ اور یورپ کی دال گل رہی ہو تو پھر انہیں ایسے جرنیلوں سے بات کرکے متنازعہ خارجہ پالیسی چلانے کی کیا پڑی ہے جسکے بعد انکو اپنے ملکوں میں جواب دینا پڑتا ہے۔

یار دہے کہ فل حال امریکہ کی ساری شرائط ویسے ہی مانی جارہی ہیں کیونکہ فوجی قیادت کے پاس آئنی اختیار نہیں ہے خارجہ پالیسی چلانے کا اسی لیے انکو اپنی شرطیں منوانی نہیں آتیں بلکہ الٹا اپنے لوگوں کو دبانا پڑتا ہے ناجائز حد تک جانے کے لیے۔ یہی شرائط اگر ایک سیاسی اور مقبول لیڈر مان لے تو وہ کچھ نہ کچھ اپنی شرائط بھی منوا کر آتا ہے۔

پہلی شرط ہوگی سی پیک بند کیا جائے۔ ٹھیک ہے کیونکہ پاکستان یہ چین کے لیے نہیں بلکہ اپنی معیشت کے لیے کررہا ہے۔ اگر معیشت ویسے ہی ٹھیک ہوجاتی ہے تو سی پیک کے علاوہ بھی پاکستان سانس لے سکتا ہے۔ اسلیے پاکستان کا سارا قرضہ معاف کیا جائے اور پاکستان کو ایک سو بلین ڈالر امداد دی جائے۔ کیونکہ چین کوئی پاکستان کا خالہ زاد بھائی نہیں ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں اسلیے چین کے ساتھ لڑنے کی زمہ داری پاکستان کی ہوگی لہزا پاکستان وہ کام کرے گا جو ہندوستان نہیں کرسکتا یعنی جنگ۔ اسلیے مسئلہ کشمیر فورا حل کیا جائے تاکہ بھارت سے پاکستان کے خطرح کو ختم کیا جاسکے۔ یا تو کشمیر پاکستان کو دیا جائے یا پھر اسے الگ ریاست بنایا جائے لیکن اگر کشمیر ہندوستان کے پاس رہتا ہے تو پاکستان دو محازوں پر نہیں لڑسکتا۔ ہاں اگر کشمیر آزاد ہوجاتا ہے ہندوستان سے تو پاکستان کے پاس چین سے جنگ کی بڑی اچھی وجہ بن سکتی ہے کیونکہ چین میں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور بیانیہ بڑا مضبوط بن سکتا ہے کہ کیونکہ ہندوستان نے مسلمانوں پر ظلم ختم کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے تو چین بھی اس سے سبق سیکھے۔ اور کیونکہ مسئلہ کشمیر حل ہونے کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں ویسے ہی دوستی اور تعلقات بڑھ جائیگے تو چین پر دباو بڑ جائیگا۔ مگر اس ساری پالیسی میں پاکستان باس ہوگا ہندوستان کا اور ساری نوازشات پاکستان پر ہوں گی جو اس وقت ہندوستان پر ہورہی ہیں۔

دوسرا یہ کہ روس کی مخالفت کی جائے یوکرین جنگ میں۔ ایسا بھی کیا جاسکتا ہے اگر 25 بلین ڈالر پاکستان کو مزید امداد دی جائے اور اگر یوکرین کو اسلحہ بھی چاہیے تو اسکے لیے 10 بلین ڈالرز مزید پاکستان کو دیے جائیں وہ بھی سالانہ۔ اور کیونکہ روس سے تعلقات خراب ہوں گے تو امریکہ کو اڈے دیے جاسکتے ہیں تاکہ کہیں روس ہی حملہ نہ کردے پاکستان پر۔ مگر اڈے بھی عوام کو حضم کروانے کے لیے 50 بلین ڈالرز پاکستان کو دیے جائیں۔

تیسری شرط ویسے ہی ختم ہوجائیگی کیونکہ جوہری ہتھیاروں کے بغیر پاکستان کوئی جنگ نہیں کرسکتا اسلیے جوہری پروگرام ویسے ہی چلتا رہے گا کیونکہ انرجی کی ضروریات بھی ہیں بلکہ اس میں امریکہ مزید معاونت کرے جسکے بارے میں ماہرین سے بات کی جاسکتی ہے۔

چوتھی شرط آئیگی کہ اسرائیل کو قبول کیا جائے تو اسکے لیے 75 بلین ڈالرز تو کم از کم ہوں گے صرف مزاکرات شروع کرنے کے لیے۔ کیونکہ عمران خان کے اسرائیل سے مزاکرات عوام اسی صورت قبول کرے گی جب اسکا پیٹ بھرا ہوگا۔ ہاں مزاکرات کے دوران یہ شرائط رکھی جاسکتی ہیں کہ اسرائیل اگر فلسطینیوں پر حملے نہ کرے' انکو اردن تک ساحلی راستہ دے تو پاکستان صفارتی تعلقات قائم کرسکتا ہے۔ مگر کیونکہ اسرائیل کی تاریخ ہے معاہدوں کی خلاف ورزی کرنا تو پاکستان کی قیادت میں عالمی امن فوج کو حق ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی جنگ کی صورت میں جاکر جنگ بند کروائیں اور کسی بھی طرف سے گولا باری ہو تو اسے روک سکیں۔

یقیناً یہ تمام شرائط مزاکرات کی میز پر طے ہونی چاہییں۔ یہ شرائط ابھی بھی پاکستان کے لیے سخت ہوں گی کیونکہ معیشت اتنی جلدی ٹھیک نہیں ہوسکتی چاہے سو بلین ڈالر آج پاکستان کو مل جائیں۔ معیشت چلنے اور عام آدمی تک اسکا ثمر پہنچنے تک وقت درکار ہے مگر شروعات ہوگی تو نتیجہ بھی نکلے گا۔ سب سے پہلے تو یہ مارا ماری بند کرنی ہوگی تاکہ معیشت کو سانس آئے۔ آزاد ماحول میں لوگ بہتر فیصلے کرتے ہیں کیونکہ تاثر اچھا جائیگا جب امریکہ اور یورپ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات ہوگی۔ الیکشن ہوں تو جو بھی حکومت میں آئے ان سے امریکہ اور یورپ اپنی شرائط رکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ہر ملک اور قوم کو حق ہے کہ اپنے مفادات کا تحفظ کرے مگر اسکے لیے دوسروں پر ظلم کرنا ضروری نہیں ہے۔ وقتی فائدہ اس سے نظر ضرور آتا ہے مگر کیونکہ لوگوں کے دلوں میں نفرت بھر جاتی ہے تو لاوا پھٹنے کا امکان ہوتا ہے جسکے بعد کچھ ملنا ہوتا ہے تو وہ بھی نہیں ملتا۔ مثلا آج امریکہ کو 6 بلین ڈالر دے کر اپنے لوگ چھڑانے پڑے ایران سے۔ تو کیا امریکہ اور یورپ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی ایران جیسی حکومت آجائے؟ تو کیوں ایسے حالات بنائے جارہے ہیں۔

ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ پی ٹی آئی کو اعلانیہ مزاکرات کا اعلان کرنا چاہیے۔ بلکہ براہراست اسرائیل سے مزاکرات کریں۔ انہیں فائدہ نظر آنا چاہیے پاکستان کی معیشت میں۔ کیونکہ چین اور روس کا خوف کا خوف ہے جس نے انہیں ڈرا کر رکھا ہوا ہے اور اس پاکستان کے خلاف اپنی جاسوسیت دکھاتے ہیں جو انکا حقیقی معانی میں اتحادی بن سکتا ہے جیسا کہ ہندوستان کبھی بھی نہیں بنے گا۔ ہندوستان حالانکہ 3 گنا بڑا ملک ہے مگر اتنی جرات نہیں ہے کہ چین سے لڑ سکے۔ یہ پاکستان ہی ہے جس نے روس کو شکست دی اور آج بھی چین سے لڑسکتا ہے اگر امریکہ اور یورپ پاکستان کو تیار کریں۔ لیکن اگر امریکہ اور یورپ پاکستان کو دشمن سمجھتے ہیں یا کہنا چاہیے کہ مسلمانوں سے نفرت اتنی بڑھ گئی ہے پاکستان کو خوار کرکے اپنی عناء کی تسکین پوری کرنا چاہتے ہیں تو پھر پاکستان کو بھی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ چین سے پنگا لے۔ اسلیے نہیں کہ چین کو فائدہ ہو بلکہ 25 کروڑ لوگوں نے کھانا بھی ہے۔ انہیں اس سے کیا کہ امریکہ اور یورپ کتنے ناراض ہوں گے۔ مطلب واضح ہے کہ پاکستان میں جوکر بھٹا کر انہیں بھی کھلانا تو پڑے گا۔ پھر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی بھی اختیار کرنی پڑے گی۔ پھر آئی ایم ایف سے یہ بھی کہنا پڑے گا کہ پاکستان کو بیل آوٹ دے جس سے آئی ایم ایف کی ساکھ خراب ہوگی۔ یعنی فرض کریں کہ آئی ایم ایف کے پاس چلا جائے جاپان اور شرائط پسند نہ آنے پر کہے کہ پاکستان جیسے ملک بیل آوٹ دیا گیا جبکہ دیوالیہ ہوچکا تھا تو ہم سے اتنی سخت شرائط کی وجہ؟ تو آئی ایم ایف کوئی پکوڑوں کی دکان نہیں ہے اسکے لیے مشکل ہوگا بار بار بیل آوٹ دینا۔ یا پھر یورپ اور امریکہ اعلان کردیں کہ پاکستان آج سے ہماری ریاست ہے' اسے بیل آوٹ اس لیے دیا جارہا ہے کہ اسے باقادہ امریی یا یورپین چھاونی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اور اسکی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہوگی سوائے اسکے کہ جو امریکہ اور یورپ طے کریں۔ باقائدہ پاکستان کا سودا ہو دستخطوں کے ساتھ جسکے بعد پاکستان کا نام بھی بدل دیں' اسکی کرنسی بھی ڈالر یا یورو کردی جائے' وغیرہ وغیرہ۔ کم از کم لوگوں کو سانس تو آئے۔ چین اور روس یا پھر ہندوستان کی قالونی بننے سے بہتر ہے کہ پاکستان امریکی قالونی بن جائے۔ پاکستان جو بھی بیان دے وہ امریکی بیان سمجھا جائے تاکہ یہ شک و شبہات ختم ہوں۔

مجھے یقین ہے کہ یہ ساری باتیں اگر امریکہ اور یورپ سے کی جائیں براہراست تو اس سے آدھی دلیلوں پر انہوں نے ہاتھ کھڑے کردینے ہیں اور اگلے دن پاکستان میں الیکشن ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ اور یورپ کا فائدہ اسی میں ہے جو پاکستانیوں کو سمجھانا نہیں آتا۔

اس سے ایک قدم آگے جاکر اسرائیل سے براہ راست بات کی جاسکتی ہے کیونکہ عمومی طور پر وہیں سے امریکی خارجہ پالیسی چلنے کی بو آتی ہے۔ اسرائیل سے مزاکرات ہوجائیں تو امریکہ سے مزاکرات اور بھی آسان ہوجائیں گے۔ پاکستان کو پاکستان ہی رکھنا ہے یا امریکی قالونی بنانا ہے' معیشت ٹھیک کرنے کی شرط پر قبول کرلینا چاہیے۔ فل حال یہی محسوس ہوگا کہ پاکستان نے غلامی قبول کی ہے مگر پاکستان اگر چین اور روس سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائے تو یہ تاثر ختم ہوجائیگا کہ پاکستان نے غلامی کی ہے بلکہ امریکہ اور یورپ خود پاکستان کی اہمیت سے صحیع واقف ہوں گے۔ یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے کیونکہ بہرحال' یہودو نثارا اللہ پر یقین کرتے ہیں اور انکے ممالک میں اگر کوئی قانون ہے تو وہ اسی لیے ہے۔ ورنہ چین اور روس میں عدالتیں ویسے ہی فرد واحد کے قبضے میں ہیں جیسے پاکستان میں ہے۔ یہی بات امریکہ اور یورپ کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر فرد واحد عدالتوں کو کنٹرول کرے جیسے آج ہورہا ہے تو یہ وقت بھی بعید نہیں کہ یہ فرد واحد انکے قبضے سے نکل جائے جیسے کہ چین اور روس کے فرد واحد آزاد ہیں۔ بلکہ اب تو کام مزید آسان ہوچکا ہے۔ یہ پتا نہیں کون بیٹھ کر یورپ اور امریکہ کو الٹی پٹیاں پڑھاتا ہے حکومتوں کے تختے الٹنے کا جبکہ اس سے جتنا نقصان امریکہ اور یورپ کو ہوا ہے اسکی سب سے بڑی مثال پاکستان ہے۔ جو ملک آدھے بول پر راضی ہوجاتا اسکے باجوہ کی باتوں میں آگیا اور اب عوام کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم کردی۔

اس ڈیل سے ہر پارٹی خوش ہوگی بشمول عوام کے۔ کیونکہ عوام کی پہلی ترجیح ہے معیشت۔ پھر جاکر خارجہ پالیسی آئیگی مگر تب تک عمران خان جیسا مقبول لیڈر عوام کی زہن سازی کرسکتا ہے۔ یہ بات اب عمران خان کو سمجھ آتی ہے یا نہیں مگر شروعات تو کی جاسکتی ہے۔ یہ مقدمات ختم کیے جائیں۔ کچھ خیر سگالی کی جائے۔ ظلم ختم کیا جائے۔ کیونکہ اس کائنات کو چلانے والا بھی کوئی ہے جو سب دیکھ رہا ہے۔ کہیں سے بھی کسی اچھائی کو وہ پسند کرتا ہے۔ پھر اس پر انسان شکر کرے تو مزید عطا کرتا ہے۔ یہی بات پاکستانی یا مسلمان سمجھا سکتے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں۔ اسلیے حکمت اور دانائی کا تقاضہ ہے کہ ہر کسی کے تحفظات کو دیکھا جائے کہ کیسے انکو دور کیا جاسکتا ہے تاکہ ہر کسی کا فائدہ ہو۔ ویسے بھی پاکستان کو جتنے ڈالرز چاہییں وہ ان سے کم ہی ہیں جتنے امریکہ نے افغانستان میں ضائع کرکے حاصل بھی کچھ نہیں کیا۔
مختصر یہ کہ پاکستان کو ہر حال میں طفیلی اور بغل بچہ بن کر رہنا ہے امریکہ کا یا چین کا
Right
چلو مان لیا۔
پھر قرضے بھی ادا ہوگئے چلو یہ بھی مان لیا
لیکن پھر سو بلین ڈالرز کی مزید امداد والی بات ہضم نہیں ہوتی
اگر سو بلین ڈالر امداد مل گئی تو چیف اور جرنیل مل کر اپنا پچاس فیصد حصہ کھا جائیں گے باقی پچاس بلین میں تیس بلین دس بلین زرداری پارٹی اور نواز پارٹی اور دس بلین فضلے حرامی کنجر لونڈے باز اور ممیسئے کی پارٹی اور جہانگیر ترین اور کنجر فراڈیا گشتی کا بچہ نو دولتیا اور جرُنیلوں کو گشتیاں سپلائی کرنے والا علیم خاں المعروف علیما کنجر گشتی سپلائر کھا جائے گا پندرہ بلین بیروکریسی کھا جائے گی
باقی بچے پانچ بلین وہ پانچ بلین کیا اکھاڑ لیں گے یا کیا سنوار دیں گے پاکستان کا۔ باقی سب ٹھیک ہے مگر وہ سو بلین کی امداد کے ڈوبنے کا غم ہے
یعنی ہو ر چوپو گنے
 

xshadow

Minister (2k+ posts)
مختصر یہ کہ پاکستان کو ہر حال میں طفیلی اور بغل بچہ بن کر رہنا ہے امریکہ کا یا چین کا
Right
چلو مان لیا۔
پھر قرضے بھی ادا ہوگئے چلو یہ بھی مان لیا
لیکن پھر سو بلین ڈالرز کی مزید امداد والی بات ہضم نہیں ہوتی
اگر سو بلین ڈالر امداد مل گئی تو چیف اور جرنیل مل کر اپنا پچاس فیصد حصہ کھا جائیں گے باقی پچاس بلین میں تیس بلین دس بلین زرداری پارٹی اور نواز پارٹی اور دس بلین فضلے حرامی کنجر لونڈے باز اور ممیسئے کی پارٹی اور جہانگیر ترین اور کنجر فراڈیا گشتی کا بچہ نو دولتیا اور جرُنیلوں کو گشتیاں سپلائی کرنے والا علیم خاں المعروف علیما کنجر گشتی سپلائر کھا جائے گا پندرہ بلین بیروکریسی کھا جائے گی
باقی بچے پانچ بلین وہ پانچ بلین کیا اکھاڑ لیں گے یا کیا سنوار دیں گے پاکستان کا۔ باقی سب ٹھیک ہے مگر وہ سو بلین کی امداد کے ڈوبنے کا غم ہے
یعنی ہو ر چوپو گنے
الیکشن تک ڈوب جایا کرتے تھے مگر آج الیکشن چوری نہیں ہوسکتے۔
ثبوت یہ ہے کہ الیکشن اسی لیے نہیں کروائے جارہے۔
جب الیکشن چوری ہونا مشکل ہوگیا ہے تو 100 بلین چوری کرنا اس سے بھی مشکل ہے۔
 

xshadow

Minister (2k+ posts)
کچھ معلوم بھی ہے کہ کیا لکھا ہے ؟
🤔
زرا غور سے پڑھو تو سب سمجھ آجائیگا۔
ہر قوم پہلے خود کو ڈوبنے سے بچاتی ہے۔
پہلے سانس آتی ہے پھر اگلے کام کرتی ہے۔
اور فارن پالیسی اگر پھر بھی عوام نے بنانی ہے تو بدل بھی سکتی ہے۔
مگر موجودہ حالات میں اپنی اہمیت کو جتلانا ہی سیاست ہے۔
 

xshadow

Minister (2k+ posts)
In short, sale your mother, sale your identity for $$$
Did I ever say something like that?
I said, accept Israel on the condition of peace with Palestine under the supervision of peace keeping force led by Pakistan.
What in this you did not understand?
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
زرا غور سے پڑھو تو سب سمجھ آجائیگا۔
ہر قوم پہلے خود کو ڈوبنے سے بچاتی ہے۔
پہلے سانس آتی ہے پھر اگلے کام کرتی ہے۔
اور فارن پالیسی اگر پھر بھی عوام نے بنانی ہے تو بدل بھی سکتی ہے۔
مگر موجودہ حالات میں اپنی اہمیت کو جتلانا ہی سیاست ہے۔
اتنا سارا کون پڑھے .دریا کو کوزے میں بند کردو ، مہربانی کرکے