
کراچی: پولیس نے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے احتجاجی اراکین کو منتشر کرتے ہوئے سمی دین بلوچ سمیت 6 کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ ڈی آئی جی ساؤتھ سید اسد رضا کے مطابق کمشنر کراچی کی جانب سے عوامی اجتماعات یا احتجاج پر پابندی کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس کے باوجود بی وائی سی اور دیگر گروہوں نے ریڈ زون میں احتجاج کرنے کی کوشش کی۔
پولیس نے بی وائی سی کے احتجاجی اجتماع کو منتشر کر دیا اور سمی دین بلوچ سمیت تقریباً 6 مظاہرین کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتار کر کے ویمن پولیس اسٹیشن میں بند کر دیا۔ ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 188 کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مظاہرے کے دوران خواتین اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوئی، جہاں مرد و خواتین دونوں کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے احتجاجی کیمپ کے دوران کوئٹہ میں اپنے رہنماؤں کی غیر قانونی حراست کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا، جن میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی شامل ہیں۔
کراچی پریس کلب کے باہر ہونے والے احتجاج کے پیش نظر، پولیس نے پریس کلب کے اطراف کی سڑکیں بند کر دیں اور شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی۔ ٹریفک پولیس نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم 'ایکس' پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ دین محمد وفائی روڈ سے فوارہ چوک تک سڑکیں بند کر دی گئی ہیں اور متبادل ٹریفک راستے فراہم کیے گئے ہیں۔
مظاہرین کی جانب سے ایک جوابی احتجاج بھی کیا گیا جس میں پلے کارڈز پر 'را سے تعلق: بی ایل اے اور بی وائی سی' جیسے نعرے درج تھے، جس میں بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' اور کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا ذکر کیا گیا تھا۔
اسی دوران، سندھ حکومت نے کراچی میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے 5 روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ اس کے تحت جلسے، جلوس، دھرنوں اور پانچ یا اس سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی ہوگی۔ یہ پابندی 24 مارچ سے 28 مارچ تک نافذ رہے گی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اس تمام صورتحال کے دوران، بلوچستان کے رہنماؤں نے اس احتجاج کے دوران ہونے والی گرفتاریوں اور پولیس کے اقدامات پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے، جس سے بلوچستان میں سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہو سکتا ہے۔