
مقبوضہ کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے کم از کم 24 سیاح ہلاک ہو گئے ہیں، جو گزشتہ ایک سال کے دوران مقبوضہ وادی میں پیش آنے والا بدترین واقعہ ہے۔ اس افسوسناک حملے میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، جنہیں فوری طور پر مقامی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پہلگام میں موسم گرما کے دوران ہزاروں سیاح وادی کی خوبصورتی کا لطف اٹھانے کے لیے یہاں آ رہے تھے۔ حملہ آوروں نے گھاس کے میدان میں حملہ کیا، جس میں دو یا تین مشتبہ افراد ملوث تھے۔ ابتدائی طور پر بھارتی میڈیا نے اس حملے میں ایک ہلاکت اور سات زخمیوں کی اطلاع دی تھی، تاہم بعد میں پولیس ذرائع کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد 24 تک پہنچ گئی۔
عینی شاہدین نے اس حملے کی منظر کشی کرتے ہوئے بتایا کہ فائرنگ کی آواز سن کر انہوں نے خوف کے مارے فوراً بھاگنا شروع کیا۔ ایک ٹور گائیڈ نے بتایا کہ اس نے زخمیوں کو گھوڑے پر بٹھا کر ہسپتال منتقل کیا، جبکہ کچھ افراد خون میں لت پت زمین پر پڑے ہوئے تھے۔
مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد کا پتہ لگایا جا رہا ہے، اور یہ واقعہ حالیہ برسوں میں عام شہریوں پر کیے جانے والے حملوں کے مقابلے میں زیادہ سنگین ہے۔ جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کی اور سیاحوں کو نشانہ بنانے والے اس بزدلانہ فعل کو مجرمانہ قرار دیا۔

ایک غیر معروف گروہ "کشمیر ریزسٹنس" نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ناراضی کا سبب خطے میں 85 ہزار سے زائد غیر مقامی افراد کا آباد ہونا ہے، جس سے "ڈیموگرافک تبدیلی" ہو رہی ہے۔ تاہم، اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سعودی عرب کے دو روزہ دورے پر تھے، جسے مختصر کر کے انہوں نے واپس بھارت روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ نریندر مودی نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور ان کا ایجنڈا کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔

اس حملے کے بعد بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی کی گئی، جسے عالمی سطح پر بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈا قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے اس واقعے پر فالس فلیگ ڈرامہ رچانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انسانی حقوق کے خلاف جرائم سے ہٹائی جا سکے۔