فرانس میں کوئی لاکھ سوا لاکھ کے قریب پاکستانی موجود ہیں۔ کیا کوئی ایک بھی پاکستانی ہے جو حالیہ واقعات کے بعد فرانس کا بائیکاٹ کرکے ، فرانس کی خوشحال زندگی چھوڑ کر پاکستان واپس آیا ہو؟ جب تک یہ پاکستان میں ہوں تب تک تو ان کا ایمان اور عشقِ رسول سنبھالا نہیں جاتا اور انہوں نے غدر مچایا ہوتا ہے، اپنے ہی ملک کی سڑکیں بلاک کی ہوتی ہیں، اپنی ہی املاک کو توڑ پھوڑ کر نظام مملکت مفلوج بنایا ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی انہیں فرانس یا کسی یورپی ملک کا ویزا مل جاتا ہے، یہ اپنا سارا عشقِ رسول پرانے کپڑوں کی طرح پاکستان میں ہی اتار پھینک کر وہاں چلے جاتے ہیں اور وہاں بندے کے پتر بن کر گوروں کے ٹوائلٹ بھی صاف کرتے ہیں، ان کے ہوٹلوں میں بطور ویٹر بھی کام کرتے ہیں، ان کی سڑکوں پر جھاڑو بھی لگاتے ہیں ، وہاں ان کو ایک لمحے کیلئے بھی عشقِ رسول کا مروڑ نہیں اٹھتا۔
کیا یہ سارا عشقِ رسول انہوں نے پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے ہی مخصوص کیا ہوا ہے۔ پاکستان میں آپ کسی بھی عام یا نام نہاد پڑھے لکھے شخص سے گفتگو کرلیں یہ آپ کو یہود و نصاریٰ کی ہزار برائیاں بتائیں گے، مگر کسی بھی پاکستانی کی پہلی چاہت انہی یہودی یا عیسائی ممالک میں جانے کی ہوتی ہے۔ یہ جو پاکستانی عشقِ رسول کے نام پر اپنے ہی ملک پر دنیا سے پابندیاں لگوانے پر بھی بڑی خوشی سے تلے بیٹھے ہیں، انہی کیلئے اگر آج فرانس ویزوں کو اعلان کردے تو بائیس کروڑ کی بائیس کروڑ عوام عشقِ رسول کو گھروں میں پھینک کر دھوپ میں لائنوں میں لگی ہوگی کہ کسی طرح فرانس کا ویزہ مل جائے تو زندگی سنور جائے۔۔ یہ وہ منافقت ہے جو پاکستانی عوام میں سر سے لے کر پاؤں تک اور ایک پڑھے لکھے سے ان پڑھ تک سب میں پائی جاتی ہے۔
میں خود ذاتی طور پر ایسے کئی لڑکوں کو جانتا ہوں جو پاکستان میں تھے تو امریکہ اور کافروں کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے تھے، اسی امریکہ اور یورپ کے ممالک میں جانے کیلئے انہوں نے کئی ماہ دھکے کھائے، کئیوں نے تو کئی سال دھکے کھائے اور آخر وہاں پہنچ گئے۔۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک لڑکاجو گریجویٹ تھا وہ پاکستان سے تندور پر روٹیاں لگانا سیکھ کر انگلینڈ گیا، وہاں کافی دن وہ ہوٹل پر ویٹر کا کام کرتا رہا، گوروں کے جھوٹے برتن بھی صاف کرتا رہا، راتوں کو وہ لمبی لمبی لائنوں میں لگ کر وہ نئے لانچ ہونے والے فون خریدتا پھر ان کو بلیک میں فروخت کرکے کچھ پیسے کماتا، جبکہ پاکستان میں وہ ایک جوشیلا عاشقِ رسول تھا، اب وہاں گوروں کے ہاں ہر قسم کے کام کررہا ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے، ایسی بے شمار مثالیں آپ کو یورپ اور امریکہ میں عام ملتی ہیں جہاں پاکستانی اپنا سارا عشقِ رسول پاکستان میں چھوڑ کر وہاں گوروں کی نوکری بڑی خوشی سے کرنے پر لگے ہوئے ہیں، مگر جونہی یہ پاکستان واپس آتے ہیں ان کے پیٹ میں پھر عشقِ رسول کا ابال اٹھ آتا ہے اور یہ مذہب کے نام پر اپنے وطن کی ترقی کی راہ میں ہر رکاوٹ ڈالتے ہیں۔
گوروں کے ملک میں جاکر ان کے ٹوائلٹ صاف کرنے منظور ہیں، مگر یہ منظور نہیں کہ پاکستان فرانس کے ساتھ، امریکہ کے ساتھ اور دیگر یورپین ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرکے اپنی معیشت میں بہتری لے آئے، گوروں کے جھوٹے برتن مانجھنے منظور ہیں، مگر یہ منظور نہیں کہ پاکستان دوسروں کی لڑائیاں چھوڑ کر اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات قائم اپنا کچھ معاشی فائدہ حاصل کرلے۔ وہاں شارٹس پہنی گوریوں کے بیچ رہنا منظور ہے، مگر پاکستان میں اگر خواتین عورت مارچ نکال کر اپنے جائز حقوق اور آزادی مانگ لیں تو خارش شروع ہوجاتی ہے۔ حقیقت یہ کہ پاکستانیوں کا سارا کا سارا عشقِ رسول دوسروں کی واہی تباہی سے شروع ہوتا ہے اور دوسروں کے نقصان کرنے پر ختم ہوتا ہے۔ کیا کبھی کسی پاکستانی نے اپنا نقصان کرکے عشقِ رسول کا اظہار کیا ہے؟ کبھی کسی پاکستانی نے یورپی ملک کی شہریت کو لات ماری ہو، کبھی کسی پاکستانی نے اپنا ٹی وی توڑا ہوا یا اپنی موٹرسائیکل جلائی ہو، یہ عشقِ رسول ایک بہت بڑا ڈھونگ ہے جو منافق پاکستانی قوم نے رچا رکھا ہے۔ جس طرح یہ دنیاوی زندگی میں ہر کام کا شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں، اسی طرح انہوں نے مرنے کے بعد کی خیالی دنیا کیلئے بھی عشقِ رسول ایک شارٹ کٹ سمجھ رکھا ہے کہ دوسروں کو مار کاٹ کر، دوسروں کا نقصان کرکے اگر سستے میں جنت ملتی ہے تو برا کیا ہے۔۔
قصہ مختصر جب تک پاکستانی قوم کے اندر سے منافقت کے یہ جراثیم ختم نہیں ہوتے تب تک پاکستان کے حالات میں بہتری کی کوئی امید نہیں۔۔