جیسے ہی کپتان کی لنگڑی ٹانگ پر ڈنڈے مار کر اسے ٹھیک کیا گیا اور اس کے سر میں ڈنڈے مار کر اس کی عقل ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی کپتان بار بار غش کھا کر گرنے لگا . کپتان بوٹ بوٹ کراہ رہا تھا . بالاخر اسے حافظ کا بوٹ فراہم کیا گیا کپتان اسے چاٹنے لگا . لوگوں نے کہا کپتان بوٹ چاٹنا بند کر کپتان نے کہا نہیں میں نے بوٹ چاٹ کر روٹھیا یار منانا ہے . کپتان گرفتار ہونے سے پہلے جتنی بدمعاشی دکھا رہا تھا گرفتاری کے بعد بالکل روتا بچہ بن چکا تھا . اسٹبلشمنٹ اس کی زبانی کلامی باتوں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھی اس لیے علوی کے ساتھ تین چار گواہان کو اس معاہدے میں شریک کیا گیا . کپتان نے حلف دیا کہ وہ آج کے بعد کبھی بھی ڈرتی ہیری یا سیکورٹی ادارے کو متنازع نہیں بناۓ گا . الیکشن کی ڈیمانڈ نہیں کرے گا . ملک میں جلسے اور دھرنے نہیں نکالے گا
ایک طرف ضمیر فروش کپتان اپنے ضمیر اور پارٹی کے لوگوں کے خون کا سودا کر رہا تھا تو دوسری طرف پولیس پارٹی کارکنوں کی ماؤں بہنوں اور باپوں کو گھسیٹ رہی تھی . ضمیر فروش کپتان کم سے کم اتنی شرط تو منوا سکتا تھا کہ اس کے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کیا جاۓ لیکن خود غرض کپتان بس اپنی ذات کو بچانا چاہتا تھا . وہ اپنے پارٹی کارکنوں کے خون کا سودا کر آیا . اب بھول جاؤ الیکشن اب بھول جاؤ جلسے جلوس . کونسا انقلاب برپا کر دیا تھا . یہ درپردہ بوٹ چاٹ کر رہائی کا دھبہ کپتان کی سیاست ختم کر دے گا کیوں کے اب معاہدے کے مطابق کپتان کبھی بھی ڈرتی ہیری کا نام نہیں لے گا اور نہ ہی الیکشن کی بات کرے گا
ہم انقلاب کا انتظار کرتے رہے کہ کب لاکھوں کا مجمع حکومت وقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر کے الیکشن کی تاریخ لے کر اٹھے گا لیکن یہ کیا سو جوتے اور سو پیاز . آگ اسٹبلشمنٹ نے خود لگوائی اور گانڈ تحریک انصاف کی سجائی . کیا کوئی بتا سکتا ہے سینکڑوں افراد کے ہلاک و زخمی کے بعد کیا حاصل کیا ایک ڈیل کے تحت کپتان کی رہائی . شرم سے ڈوب مرو کیوں کے تحریک انصاف کی سیاست کا جنازہ نکل چکا ہے اب بھول جاؤ الیکشن اور سو جاؤ نیازی کی رہائی کا تمغہ لے کر