رحیم یار خان کے قصبے بھونگ میں لوگوں نے ہندوؤں کے مندر پر حملہ کیا، اندر پڑی مورتیاں / بت توڑ پھوڑ دیئے۔ سوشل میڈیا پر تقریباً تمام ذی شعور افراد نے اس کی مذمت کی۔ وزیراعظم عمران خان اور دیگر سیاسی لیڈران نے بھی اس کی مذمت کی۔ چیف جسٹس نے نوٹس لیا اور پولیس کو سخت احکامات جاری کئے، اس سے پہلے کرک میں ہندوؤں کے مندر پر حملہ ہوا، اس کی بھی سب نے مذمت کی۔۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں کسی کی عبادتگاہ پر حملہ کرنا، بتوں کو توڑنا ایک غلط عمل ہے اور اس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جب ہمارا معاشرہ اس بات پر متفق ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نصاب کو اس سے ہم آہنگ نہیں کرتے۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں بچوں کو یہ کیوں پڑھایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کلہاڑا لے کر بت پرستوں کی عبادتگاہ میں داخل ہوگئے اور سب بت توڑ دیئے۔ ہم اپنے بچوں کو یہ کیوں پڑھاتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم اور حضرت علی نے مکہ میں بتوں کو پاش پاش کردیا تھا۔ جب تعلیمی نصاب میں بتوں کو توڑنے کو گلوریفائی کیا جائے گا اور بچوں کو یہ بتایا جائے گا کہ بت توڑنا تو پیغمبروں کی سنت ہے اور بڑا ثواب کا کم ہے تو ایسی نسلیں دوسروں کی عبادتگاہوں کا احترام کیوںکر کریں گی؟ جب ہم جانتے ہیں کہ دورِ حاضر میں صدیوں پرانے زمانوں کے طریق پر نہیں چلا جاسکتا تو ہم اپنا نصاب درست کیوں نہیں کرلیتے؟
بات صرف یہیں تک محدود نہیں۔ ہمارے نام نہاد قومی شاعر جناب علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری میں جگہ جگہ بتوں کو توڑنے کو گلوریفائی کیا ہوا ہے اور یہ اشعار بھی ہمارے تعلیمی نصاب میں شامل ہیں۔ ملاحظہ کیجئے۔۔
تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے
توڑ کر رکھ دیئے مخلوقِ خداوندوں کے پیکر کس نے
بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں
قوم اپنی جو زر و مالِ جہاں پر مرتی
بُت فروشی کے عَوض بُت شکَنی کیوں کرتی
اور بھی کئی اشعار ہیں جن میں بتوں کو توڑنے کو پروموٹ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے نصاب میں محمود غزنوی کو بطور ہیرو پڑھایا جاتا ہے جس نے ہندوؤں کے سب سے بڑے معبد سومنات کے مندر پر حملہ کیا اور اس کو تباہ و برباد کردیا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں مذہبی منافرت کو چھوڑ کر مذہبی ہم آہنگی کو اپنائیں، تو یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے نصاب کو ایسی نفرت بھری تعلیمات سے پاک کریں۔۔۔
بات صرف یہیں تک محدود نہیں۔ ہمارے نام نہاد قومی شاعر جناب علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری میں جگہ جگہ بتوں کو توڑنے کو گلوریفائی کیا ہوا ہے اور یہ اشعار بھی ہمارے تعلیمی نصاب میں شامل ہیں۔ ملاحظہ کیجئے۔۔
تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے
توڑ کر رکھ دیئے مخلوقِ خداوندوں کے پیکر کس نے
بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں
قوم اپنی جو زر و مالِ جہاں پر مرتی
بُت فروشی کے عَوض بُت شکَنی کیوں کرتی
اور بھی کئی اشعار ہیں جن میں بتوں کو توڑنے کو پروموٹ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے نصاب میں محمود غزنوی کو بطور ہیرو پڑھایا جاتا ہے جس نے ہندوؤں کے سب سے بڑے معبد سومنات کے مندر پر حملہ کیا اور اس کو تباہ و برباد کردیا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں مذہبی منافرت کو چھوڑ کر مذہبی ہم آہنگی کو اپنائیں، تو یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے نصاب کو ایسی نفرت بھری تعلیمات سے پاک کریں۔۔۔