
سابق وزیر خارجہ خورشید محمودقصوری نے کہا ہے کہ نیشنل انٹرسٹ میں پاکستان کے وزیراعظم کا کسی بھی ملک کا دورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں بس پاکستان کو امریکہ یا امریکہ مخالف کسی بھی کیمپ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
جی این این کے پروگرام "خبرہے" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خورشید قصوری نے کہا کہ وزیراعظم کے دورہ روس کیلئے تو بہت پہلے سے کام ہورہا ہے، اس پر سب سے پہلے بات عمران خان اور روسی صدر کے درمیان ٹیلی فونک رابطے کے دوران ہوئی پھر بیجنگ میں ایک بار پھر دونوں ملکوں کے سربراہان نے ایک دوسرے کو دورے کی دعوت دی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2 بلین ڈالر کی کراچی سے قصور تک ایک گیس پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ شروع ہونے والا ہے، لوگوں کا خیال تھا کہ وزیراعظم کے دورے کے دوران اس منصوبے پر مزید پیش رفت ہوگی یا معاہدہ طے بھی پا سکتا ہے، دوسرا روس کی جانب سے مسلسل کراچی اسٹیل ملز میں دلچسپی ظاہر کی جارہی ہے، پیپلزپارٹی کے دور میں یہ معاہدہ طے ہوجاتا مگر بدنصیبی کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی وجہ سے نامکمل رہا جس سے ملک کو اربوں کا نقصان پہنچا ہے۔
خورشید محمود قریشی نے کہا کہ روس کا بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مفاد ہے اور پاکستان کا بھی ہے، ہمیں دنیا کے ہر ملک کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھنے چاہیے، ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں اسٹرٹیجک آزادی دکھانی چاہیے اور کسی کیمپ کا حصہ نہیں بننا چاہیے، دورہ روس کے دوران کسی بھی صورت یہ تاثر نہیں دیا جانا چاہیے کہ وزیراعظم کا یہ دورہ مغرب کے خلاف ہے کیونکہ یہ آپ کے ملکی مفاد کو نقصان پہنچاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری سب سے زیادہ ایکسپورٹس امریکہ میں ہیں، اس کے بعد برطانیہ اور یورپی ممالک ہیں ، ہمارے بچے بھی مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں، ہم 22 کروڑ کی آبادی والا ایک بڑا ملک ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم کسی ملک کا دم چھلا بنیں۔
روس یوکرین کے تنازعے کو تفصیلی طور پر بیان کرتے ہوئے خورشید قصوری نے بتایا کہ یہ ایک گھمبیر معاملہ ہے ، روس اور یوکرین صدیوں اکھٹے رہنے والے ملک ہیں، امریکہ اور روس کے درمیان معاملات اس وقت خراب ہوئے جب سوویت یونین کا انہدام ہورہا تھا اور برلن وال کو گراتے ہوئے روس کو یہ پیشکش کی گئی کہ اگر وہ جرمنی کی یونیفی کیشن کو مان جائے گا تو نیٹو فورسز کو روس کے بارڈرز پر نہیں لایا جائے گا۔
خورشید قصوری نے کہا کہ اس وقت روس کمزور تھا اور امریکہ نیٹو نے اپنی من مانیاں کیں، نیٹو تو سوویت کمیونیزم کے خلاف تھا پھر بھی نیٹو اورامریکہ روس کے پیچھے پڑے اور جب روس مضبوط ہوگیا تو اس نے پہلے جارجیا اور پھر یوکرین سے منسلک کریمیا پر قبضہ کرلیا۔
انہوں نے کہا کہ ایسے علاقے جہاں روسی نسل کی اکثریت تھی اور وہاں یوکرین کی حکومت نہیں تھی اوروہاں حکومت کرنے والوں کو مغربی میڈیا علیحدگی پسند قرار دیتا تھا آج صدر پیوٹن نے ان علیحدگی پسندوں کی حکومت کو تسلیم کرلیا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/13khursheed%20kasuri.jpg