کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے گا؟

6jaliljialapakksirael.png


اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے معاملے پر وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے دوٹوک انداز میں واضح کردیا کہ پاکستان اپنے قومی مفادات اور فلسطینی عوام کے مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی اس بارے میں کوئی فیصلہ کرے گا۔

اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے متعلق کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا سعودی عرب کے ساتھ چھ یا سات مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے تاہم وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی نے اس نمائندے کو خصوصی طورپر بتایا اس معاملے میں کوئی بھی فیصلہ پاکستان اور فلسطینیوں کے مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی کیا جائےگا۔


ماضی پر نظر ڈالیں تو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید قصوری نے اسرائیلی وزیر خارجہ سیلون شیلوم سے ترکیہ کے شہر استنبول میں 2005 میں ملاقات کی تھی، یہ پہلی ملاقات تھی جو میڈیا کے سامنے ہوئی اور یہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔

ملاقات کے بعد جاری بیان میں سیلون شیلوم نے امید ظاہر کی تھی اب پاکستان اور اسرائیل کےدرمیان کھلے اور باہمی مفاد کے حامل تعلقات کا آغاز ہوگا، سیلون شیلوم نے اس وقت کے صدر مشرف کا یہ کہہ کر شکریہ بھی ادا کیا تھا کہ خطے میں امن اور ماڈرنائزیشن کے لیے وہ صدر مشرف کی اس جرات پر شکر گزار ہیں اور یہ کہ ان کوششوں سے مستقبل میں امن، سلامتی اور علاقائی تعاون بڑھے گا تاہم اس کے بعد وزرائے خارجہ یا کسی اور سطح پر ایسی ملاقاتیں میڈیا پر سامنے نہیں آئیں۔

راقم الحروف نے پاکستان کے ایک اور انتہائی سینئر سفارتکار سے یہ بات پوچھی سعودی عرب کے ساتھ ایشیا اور افریقا کے چھ یا سات مسلم ممالک اگر اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے تو پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟ اس پر سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اتنا کہا کہ ' امید ہے اس بارے میں پاکستان کو کوئی فیصلہ مستقبل قریب میں نہ کرنا پڑے

اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے کہا ان کی کئی مسلم ممالک کے ایسے رہنماؤں سے ملاقات ہوئی ہے جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، سوال یہ ہے کہ یہ ملاقات ہوئی کن ممالک کے رہنماؤں سے؟

اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے کہا ان کی لیبیا کی وزیر خارجہ نجلا منگوش سے ملاقات ہوئی ہے تو نہ صرف لیبیا کی وزیر خارجہ کو عہدہ بلکہ ملک چھوڑنا پڑا، لیبیا میں مظاہرے ہوئے اور نوبت یہ آئی کہ اس ملاقات پر نجلامنگوش کے خلاف تحقیقات شروع ہوگئیں، صورتحال اس وقت کنٹرول میں آئی جب لیبیا کے وزیراعظم عبدالحامد کو یہ دوٹوک انداز میں کہنا پڑا کہ ان کی حکومت اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کر رہی۔

اس نمائندے نے ایک سینئر سفارتکار سے یہ بھی پوچھا کہ آیا اسرائیلی وزیر خارجہ کی حالیہ کچھ عرصے میں کسی پاکستانی اہلکار سے ملاقات ہوئی ہے تو انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ 'نہیں'۔

امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں سے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے تین برس پہلے اسرائیل سے تعلقات معمول کی سطح پر لانے کا معاہدہ کیا تھا، اسی ابراہم معاہدے کے تحت سوڈان اور مراکش نے بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا، تاہم بعض وجوہات کی بنا پر مراکش کے مقابلے میں سوڈان اور اسرائیل کے تعلقات زیادہ گہرے نہیں ہو سکے۔
 
Last edited:

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
عرب ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنا. کس کا موقف فاتح ٹہرا. عربوں کا یا اسرائیل کا! کون مفتوح ہوئے عرب یا اسرائیل؟​
 

Analysis2021

MPA (400+ posts)
جب عرب ممالک اسرایئل کو تسلیم کرلنگے تو پاکستان کی کیا اھمیت رہ جاتی ہے جو بھیک اور قرض پر جلتا ہے جہاں دو تین خاندان ہی حکومت کرتے ھیں ، جہاں کی فوج بھاڑے پہ لڑنے اور مرنے کیلئے دستیاب ہے ، جسکے جرنیل گندی ویڈیوز پر بلیک میل ھو جاتے ہیں۔​
 

Citizen X

(50k+ posts) بابائے فورم
Bhai jin ka phadda tha unno ne apas mein sulah ker liya to phir hum kyun begani shadi mein abdullah deewanay ka role adda ker rahain hain?
 

روشن پاکستان

Politcal Worker (100+ posts)
شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
 

Islamabadiya

Chief Minister (5k+ posts)
Will it make a difference??

To counter India, We should have established some relations with Israel long ago if it wasn’t up to Jahil Molvi brigade and the gernails and politicians who use them

Pak has no beef with Israel, now when even Arabs themselves are establishing ties, who the hell are we to not to ? And what will be gain by not establishing ties with Israel ?
 

Noworriesbehappy

Councller (250+ posts)
Plastine issue has been used by every arab country leader, sometime for his personal benefit or sometime for the national gain.

Arabs were never wise/clever enough to take on IsreaL and its Jewish lobby depite having billions of dollar. There is not even one institute/University in arab countries that is equal to any US university. They cant even make bullet themselve. Only thing they care about big cars, camels and women.

Unfortunately, oil money has been a curse for them, becuse it has removed the need for learning/competition. "Zaroorat Ejaad ki Maa hai".

On the hand, Jewish were fighting for their survival, losing for them,was not an option. Also, like invasive species, they had advantage over plastinian Arab, because of hardship they faced in EU.

Unfortunately/fortunately, its a fight that plastinian have to figfht themselve to save any part of west bank and gaza for their future country. After suadia arab, its does not really matter if any other muslim country recognises Isreal or not.
 
Last edited:

Noworriesbehappy

Councller (250+ posts)
پلاسٹائن کے مسئلے کو ہر عرب ملک کا لیڈر کبھی اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے تو کبھی قومی مفاد کے لیے۔
عرب کبھی بھی اتنے عقلمند/ ہوشیار نہیں تھے کہ اسرائیل اور اس کی یہودی لابی کا مقابلہ اربوں ڈالر کے باوجود کر سکیں۔ عرب ممالک میں ایک بھی انسٹی ٹیوٹ/یونیورسٹی ایسی نہیں ہے جو کسی امریکی یونیورسٹی کے برابر ہو۔ وہ خود گولی بھی نہیں بنا سکتے۔ صرف ایک چیز جو وہ بڑی گاڑیوں، اونٹوں اور عورتوں کی پرواہ کرتے ہیں۔۔

بدقسمتی سے، تیل کی رقم ان کے لیے ایک لعنت ہے، کیونکہ اس نے سیکھنے/مقابلے کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے۔ "ضرورت ایجاد کی ماں ہے"۔

دوسری طرف، یہودی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے، ان کے لیے ہارنا کوئی آپشن نہیں تھا۔ نیز، ناگوار پرجاتیوں کی طرح، انہیں پلاسٹینین عربوں پر برتری حاصل تھی، کیونکہ انہیں یورپی یونین میں مشکلات کا سامنا تھا۔

بدقسمتی سے/خوش قسمتی سے، یہ ایک ایسی لڑائی ہے کہ پلاسٹینیوں کو اپنے مستقبل کے ملک کے لیے مغربی کنارے اور غزہ کے کسی بھی حصے کو بچانے کے لیے خود کو لڑنا پڑتا ہے۔ سعدیہ عرب کے بعد، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی دوسرا مسلم ملک اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔
 

Back
Top