khalilqureshi
Senator (1k+ posts)
میں مسلسل پاکستان میں تبدیلی کے بارے میں مثبت باتیں کر رہا ہوں اور ایسے اشاریوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں جو کسی بھی قوم میں تبدیلی کی امنگ پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں. کئی دوستوں نے اس بارے میں بباطن خوش فہمی سمجھتے ہؤےلیکن میرا دل رکھتے ہؤے بظاہر نیک خواہشات کا اظہار کیا. چند دوستوں کی خاموشی مگر آنکھوں سے طنز عیاں ہوتا ہے اور کچھ عزیز براہ راست مذاق اڑاتے ہیں. میرے ان دوستوں کے کچھ سوال ہیں جو وہ مجھ سے کرتے ہیں. میں کوشش کروں گا کہ ان سب سوالات کے جوابات دے سکوں. سوالات کچھ یوں ہیں
۱. بھائی وہ تمہارا انقلاب کہاں گیا
۲.بھائی وہ تمہارا انقلاب کب آئے گا. ہم تو راہ تکتے تکتے تھک گۓ ہیں
۳. یار خلیل اب بھول جاؤ. انتخابات میں اس قدر دھاندلی کے باوجود اگر یہ قوم باہر نہیں نکلی تو کب نکلے گی
۴. یہ قوم مردہ ہے. بھول جاؤ کہ یہ قوم تبدیل ہوگی. اس قوم میں کوئ امنگ نہیں رہی، وغیرہ وغیرہ
میں ایک بات عرض کردوں کہ تبدیلی سے میری مراد حکومتوں کی تبدیلی نہیں. ضیاء یا مشرف کا جمہوری حکومتوں کاتختہ الٹ کر برسراقتدار آنا یا گزشتہ 17 یا 18 سال سے بظاہر جمہوری حکومتوں کا تسلسل تبدیلی نہیں بلکہ میں نظام کی تبدیلی کی بات کر رہا ہوں. وہ تببدیلی جو ایک نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور ایک نئے نظام کی تخلیق ہو.یہ تبدیلی ہی انقلاب کہلاتی ہے.
میں یہاں بتاتا چلوں کہ انقلاب قوموں کی زندگی میں ایک دفعہ ہی آتا ہے اور قوموں کی زندگی بہت طویل ہوتی ہے. ہم نے اس قسم کے کئی انقلابات پچھلی صدی میں آتے دیکھے ہیں لیکن ان انقلابات کی ابتدا ہم نے اٹھارویں صدی میں فرانس میں دیکھی. امریکی انقلاب بھی کم و بیش اسی زمانے میں آیا لیکن میں انیسویں صدی کے امریکی غلامی کے خاتمے کو صحیح معنوں میں انقلاب سے تشبیہ دوں گا. روس کے بورژوا انقلاب، انقلابِ ایران اور ترکی میں جمہوری طاقتوں کی فتح انقلاب کی بڑی مثالوں کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انقلابات کی وجوہات کیا ہوتی ہیں. انقلاب کی وجوہات میں بڑی وجوہات
ا. معاشرے کا طبقات میں تقسیم ہوجانا اور طاقور طبقات کا وسائل پر قابض ہوجانا اور وسائل کی ناجائز تقسیم
۲. پس ماندہ طبقے کا غربت کی چکی میں پس کر رہ جانا
۳. عدل و انصاف کا مختلف معار
۴. ریاستی جبر
۵. مذہبی عدم رواداری اور اقلیتوں پر مظالم
۶. عوام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا اور ان کی غربت کا مذاق اڑانا
۷. معاشرتی عدم مساوات
جب ہم مختلف انقلابات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے ان میں کسی بھی ایک یا دو علامات کا پیدا ہونا اور طویل عرصے تک برقرار رہنا اس معاشرے کے تنزل کا باعث بن جاتا ہے اور معاشرے کی ایک بڑیی اکٹریت بالآخر اس نظام سے تنگ آکر پہلے مخالفت کرتی ہے جو بلآخر بغاوت پر منتج ہوتی ہے.
جیسا کہ میں نے کہا کہ انقلاب کے لئے ایک یا دو وجوہات ہی کافی ہوتی ہیں جبکہ پاکستان میں کئی وجوہات جنم پا چکی ہیں. طبقاتی تقسیم، معاشرتی عدم مساوات، عدل و انصاف کا مختلف معار، غربت، ریاستی جبر، نفرت. یہ سب عوامل مل کر اس لاوے کی تخلیق کر چکے ہیں جو انقلاب کی بنیاد رکھتے ہیں. صرف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب یہ لاوا پکے گا اور اپنے آگے آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے جائیگا .
دیکھئے قوموں کی زندگی بہت طویل ہوتی ہے, اسی طرح ان میں نظام کے بننے، طاقتور ہونے، اس نظام کی کمزوریاں ظاہر ہونے، اسی نظام کے زوال میں، اس نظام سے بغاوت میں اور پھر نئے نظام کی تخلیق اور نفاذ میں بعض اوقات صدیاں گزر جاتی ہیں.
میں نے چند مثالیں اوپر دی ہیں. ان انقلابات کا اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ان میں سر فہرست صدیوں کی محرومیاں، مظالم، غربت اور ذلت ملیں گی. لیکن جب ان معاشروں میں انقلابات کی ابتدا ہوئی تو اس کو بروۓ کار آنے میں بہت لمبا عرصہ اور بعض اوقات کئی سال لگ گئے. مثال کے طور پر انقلاب فرانس جولائی 1789 سے 1792، امریکہ میں غلامی کا خاتمہ 1841 سے 1844، روس بورژوا انقلاب جنوری 1917 سے اکتوبر 1917 ، انقلابِ ایران 1979 پورا سال.
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف. اپنے قیام سے ہی ان عوامل کی زد میں آگیا جو بعد ازاں انقلاب کا باعث بنتے ہیں. پاکستان کے اس عہد طفولیت سے عہد بلوغت کا سفر ابھی مکمل ہی نہیں ہؤا تھا کہ تبدیلی کے لئے فضا بننے لگی. لیکن تبدیلی کے لئے طویل عرصہ اور طویل جدوجہد درکار ہوتی ہے. میں عمران کو صرف انگریزی کے ایک لفظ کیٹالسٹ CATALYST سے تشبیہ دوں گا. کیٹالسٹ ایک ایسا عامل ہوتا ہے جو تبدیلی کو پر لگا دیتآ ہے. چنانچہ عمران نے مسلسل ابلاغ اور تربیت سے عوام کو آگاہی دی کہ انکی اس حالت زار کا ذمہ دار کون ہے ان کو کن عوامل اور عناصر کے خلاف آواز بلند کرنی ہے، جدوجہد کرنی ہے اور اپنے حقوق حاصل کرنے ہیں. اپریل 2022، مئی 2022، اپریل 2023 اور فروری 2024 اس جدوجہد کے محض سنگ میل اور کیٹالسٹ ہیں. عمران خان اپنے حصے کا کام کر چکا. وہ تاریخ میں اپنا نام لکھوا چکا. اگر قسمت نے یاوری کی اور اس کو تبدیلی کے آخری مرحلے کی قیادت مل گئی تو اس سے اچھی بات تو شاید کچھ نہ ہو لیکن وہ اپنے حصے کا کام کرگیا ہے. اگر عمران کو راستے سے ہٹا بھی دیا جاتا ہے تب بھی کوئی فرق نہییں پڑے گا بلکہ اس کی غیر فطری موت تبدیلی کیی جدوجہد کو مزید انگیخت دے گی.
لاوا پک چکا ہے اور تبدیلی دیوار پر لکھی ہوئی ایک بلند و بالا حقیقت بن چکی ہے.
All reactions:
1Bawany Zahid Memon۱. بھائی وہ تمہارا انقلاب کہاں گیا
۲.بھائی وہ تمہارا انقلاب کب آئے گا. ہم تو راہ تکتے تکتے تھک گۓ ہیں
۳. یار خلیل اب بھول جاؤ. انتخابات میں اس قدر دھاندلی کے باوجود اگر یہ قوم باہر نہیں نکلی تو کب نکلے گی
۴. یہ قوم مردہ ہے. بھول جاؤ کہ یہ قوم تبدیل ہوگی. اس قوم میں کوئ امنگ نہیں رہی، وغیرہ وغیرہ
میں ایک بات عرض کردوں کہ تبدیلی سے میری مراد حکومتوں کی تبدیلی نہیں. ضیاء یا مشرف کا جمہوری حکومتوں کاتختہ الٹ کر برسراقتدار آنا یا گزشتہ 17 یا 18 سال سے بظاہر جمہوری حکومتوں کا تسلسل تبدیلی نہیں بلکہ میں نظام کی تبدیلی کی بات کر رہا ہوں. وہ تببدیلی جو ایک نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور ایک نئے نظام کی تخلیق ہو.یہ تبدیلی ہی انقلاب کہلاتی ہے.
میں یہاں بتاتا چلوں کہ انقلاب قوموں کی زندگی میں ایک دفعہ ہی آتا ہے اور قوموں کی زندگی بہت طویل ہوتی ہے. ہم نے اس قسم کے کئی انقلابات پچھلی صدی میں آتے دیکھے ہیں لیکن ان انقلابات کی ابتدا ہم نے اٹھارویں صدی میں فرانس میں دیکھی. امریکی انقلاب بھی کم و بیش اسی زمانے میں آیا لیکن میں انیسویں صدی کے امریکی غلامی کے خاتمے کو صحیح معنوں میں انقلاب سے تشبیہ دوں گا. روس کے بورژوا انقلاب، انقلابِ ایران اور ترکی میں جمہوری طاقتوں کی فتح انقلاب کی بڑی مثالوں کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انقلابات کی وجوہات کیا ہوتی ہیں. انقلاب کی وجوہات میں بڑی وجوہات
ا. معاشرے کا طبقات میں تقسیم ہوجانا اور طاقور طبقات کا وسائل پر قابض ہوجانا اور وسائل کی ناجائز تقسیم
۲. پس ماندہ طبقے کا غربت کی چکی میں پس کر رہ جانا
۳. عدل و انصاف کا مختلف معار
۴. ریاستی جبر
۵. مذہبی عدم رواداری اور اقلیتوں پر مظالم
۶. عوام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا اور ان کی غربت کا مذاق اڑانا
۷. معاشرتی عدم مساوات
جب ہم مختلف انقلابات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے ان میں کسی بھی ایک یا دو علامات کا پیدا ہونا اور طویل عرصے تک برقرار رہنا اس معاشرے کے تنزل کا باعث بن جاتا ہے اور معاشرے کی ایک بڑیی اکٹریت بالآخر اس نظام سے تنگ آکر پہلے مخالفت کرتی ہے جو بلآخر بغاوت پر منتج ہوتی ہے.
جیسا کہ میں نے کہا کہ انقلاب کے لئے ایک یا دو وجوہات ہی کافی ہوتی ہیں جبکہ پاکستان میں کئی وجوہات جنم پا چکی ہیں. طبقاتی تقسیم، معاشرتی عدم مساوات، عدل و انصاف کا مختلف معار، غربت، ریاستی جبر، نفرت. یہ سب عوامل مل کر اس لاوے کی تخلیق کر چکے ہیں جو انقلاب کی بنیاد رکھتے ہیں. صرف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب یہ لاوا پکے گا اور اپنے آگے آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے جائیگا .
دیکھئے قوموں کی زندگی بہت طویل ہوتی ہے, اسی طرح ان میں نظام کے بننے، طاقتور ہونے، اس نظام کی کمزوریاں ظاہر ہونے، اسی نظام کے زوال میں، اس نظام سے بغاوت میں اور پھر نئے نظام کی تخلیق اور نفاذ میں بعض اوقات صدیاں گزر جاتی ہیں.
میں نے چند مثالیں اوپر دی ہیں. ان انقلابات کا اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ان میں سر فہرست صدیوں کی محرومیاں، مظالم، غربت اور ذلت ملیں گی. لیکن جب ان معاشروں میں انقلابات کی ابتدا ہوئی تو اس کو بروۓ کار آنے میں بہت لمبا عرصہ اور بعض اوقات کئی سال لگ گئے. مثال کے طور پر انقلاب فرانس جولائی 1789 سے 1792، امریکہ میں غلامی کا خاتمہ 1841 سے 1844، روس بورژوا انقلاب جنوری 1917 سے اکتوبر 1917 ، انقلابِ ایران 1979 پورا سال.
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف. اپنے قیام سے ہی ان عوامل کی زد میں آگیا جو بعد ازاں انقلاب کا باعث بنتے ہیں. پاکستان کے اس عہد طفولیت سے عہد بلوغت کا سفر ابھی مکمل ہی نہیں ہؤا تھا کہ تبدیلی کے لئے فضا بننے لگی. لیکن تبدیلی کے لئے طویل عرصہ اور طویل جدوجہد درکار ہوتی ہے. میں عمران کو صرف انگریزی کے ایک لفظ کیٹالسٹ CATALYST سے تشبیہ دوں گا. کیٹالسٹ ایک ایسا عامل ہوتا ہے جو تبدیلی کو پر لگا دیتآ ہے. چنانچہ عمران نے مسلسل ابلاغ اور تربیت سے عوام کو آگاہی دی کہ انکی اس حالت زار کا ذمہ دار کون ہے ان کو کن عوامل اور عناصر کے خلاف آواز بلند کرنی ہے، جدوجہد کرنی ہے اور اپنے حقوق حاصل کرنے ہیں. اپریل 2022، مئی 2022، اپریل 2023 اور فروری 2024 اس جدوجہد کے محض سنگ میل اور کیٹالسٹ ہیں. عمران خان اپنے حصے کا کام کر چکا. وہ تاریخ میں اپنا نام لکھوا چکا. اگر قسمت نے یاوری کی اور اس کو تبدیلی کے آخری مرحلے کی قیادت مل گئی تو اس سے اچھی بات تو شاید کچھ نہ ہو لیکن وہ اپنے حصے کا کام کرگیا ہے. اگر عمران کو راستے سے ہٹا بھی دیا جاتا ہے تب بھی کوئی فرق نہییں پڑے گا بلکہ اس کی غیر فطری موت تبدیلی کیی جدوجہد کو مزید انگیخت دے گی.
لاوا پک چکا ہے اور تبدیلی دیوار پر لکھی ہوئی ایک بلند و بالا حقیقت بن چکی ہے.
All reactions: