کیا ہم غلام ہیں ؟
خان نے پوچھا تھا کیا ہم غلام ہیں ۔ہم نے خان اور خود سے جھوٹ بولا کہ، نہیں ۔غلامی کیا ھے ۔ کس فرد یہ قوم کے حقوق پر نا جائز قبضہ ، اور پھر اسکا استحصال ۔ غلام وجود بھی ہے اور سوچ بھی ۔ ہم انگریز کے زمانے میں زیادہ غلام تھے یہ آج ۔ انگریزوں وسائل ہڑپتا تھا ۔ انگریز کے منہ سے گرے کچھ نہ کچھ ٹکڑے غلاموں کے حصے میں بھی آ ہی جایا کرتے تھے ۔ ٹکڑے اس قدر ہوا کرتے کہ آقاؤں کو ملک چلانے کے لئے ی کسی ائی ایم ایف ،ورلڈ بنک کے سامنے کشکول پھیلانے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی ۔
انگریز آقائوں میں کم از کم اتنی اخلاقی غیرت تو ضرور تھی کہ ان کی دور میں خواتین غلاموں کو بے عزت نہیں کیا جاتا تھا ۔ کوئی انگریز ، وڈیرہ یہ جاگیر دار کسی غلام مزارے یہ کمی کمین کی لڑکی اٹھا نہیں لے جاتا تھا ۔ کسی غیرت مند باغی کی جرأت کی پاداش میں اسکے گھر کی خواتین کو بوٹوں والے انگریز رات کی تاریکی میں دیواریں پھلانگ کر نہیں لے جاتے ہتے ۔ باغی کے جرم کی پاداش میں اسکی بوڑھی ماں کا گریبان چاک کر کے اسے تشدد کا نشانہ نہیں بناتا جاتا تھا ۔ لاغر بوڑھی بیمار مائیں جیل کی کال کوٹھریوں میں سڑا نہیں کرتی تھیں ۔انگریز دور میں سرکار اور عدالتیں یک جان ضرور تھیں لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ عدالتیں دن رات گھنگرو باندھے مجرے کے لئے سرکاری اشارے کی منتظر رہیں ۔
ہندوؤں کی عزت نفس کا قد ہم سے کہیں بڑا تھا لہذا انہوں نے غلامی کا طوق اتارنے کے ساتھ ساتھ ان علامتوں کو بھی جڑ سے صاف کیا جو کسی نہ کسی درجے میں غلامی جیسی موزی بیماری کا سبب بن سکتی تھیں جیساکہ نوابی ، جاگیرداری یہ سب سے بھڑ کر بوٹوں کی ملکی سیاست میں مداخلت ۔ جبکہ ہم نے مذھبی غلامی کے خوف سے ملک کو تقسیم تو کر دیا جبکہ ذہنی و جسمانی غلامی کی تمام علامتوں کو آب حیات پلاتے رہے، نتیجہ طوق اور قرضوں کا وزن غلاموں کے گردنوں پر بڑھتا چلا گیا ۔اور تقسیم کا واحد پھل جو غریب غلام مسلمانوں کو ملنا تھا یعنی "گائے کا گوشت " وہ بھی غریب کی دسترس سے جاتا رہا ۔
تمام تر ظلم و نا انصافیوں کے باوجود ووٹ سے جو کمائی غلاموں نے حاصل کی وہ بوٹ اور اسکے گماشتے فارم 47 کی آڑ میں بزور بندوق لے اڑے ۔اور پھر وہی باریاں لینے والے "پسو" قوم پر مسلط ۔ یہ وہ پسو ہیں جو سیلاب کی امداد تک ہڑپ کر جاتے ہیں ۔
یہ وہی جونکیں ہیں جنہیں "سائیفر " کے حکم نامےکے تحد بوٹوں کی چھتری تلے اکھٹا کیا گیا ، اور پھر اعلان کیا گیا کہ جو سب سے اونچی بولی لگائے غلاموں کا پٹہ اسکے حوالے کر دیا جائے گا۔ مفرور بھگوڑے کی بولی سب سے زیادہ تھی ۔غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق "پانچ کروڑ ڈالر"۔بوٹ نے اپنی اوقات کے مطابق غلام وطن کا سودا کیا ،جبکہ ملنے والی رقم بزدل بھگوڑے کی لوٹ کا عشر عشیر بھی نہ تھی ۔ڈیل میں کیسز سے رہائی "فری "۔
مقبوضہ پاکستان کی جنگ ازادی کا کپتان جیل میں قید ہے ۔گھر میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پرٹکریں مارنے سے کسی قدر تسلی تو ملے گی لیکن خان اور آزادی نہیں ۔انقلاب ایران کے وقت تہران کی سڑکوں پر عوام کی تعداد 15 لاکھ تھی ۔تاریخ کے اوراق پر وہ لمحے بھی قید ہیں جب انقلابیوں نے اٹلی کے طاقت ور ترین حکمران میسولینی اور اسکے گماشتوں کی لاشیں میلان شہر کے چوک میں سر عام لٹکا دی تھیں ۔
بات جانے کہاں سے کہاں نکل گئی ۔سوال تو وہی ہے کیا ہم غلام ہیں ؟