
اسلام آباد: حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے قرضوں پر قابو پانے کی کوششوں کو شدید رکاوٹ کا سامنا ہے، کیونکہ بیشتر بینک 683 ارب روپے کے موجودہ قرضوں کی تنظیم نو اور 567 ارب روپے کے نئے قرضے دینے پر راضی نظر نہیں آ رہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ یہ قرضے مارکیٹ ریٹ سے کم شرح سود پر دیے جائیں، تاکہ توانائی کے شعبے کو مستحکم کیا جا سکے، لیکن بینک مالی نقصان کے خدشے کے باعث محتاط رویہ اختیار کر رہے ہیں۔
حکومت اور بینکوں کے درمیان کشیدہ مذاکرات
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس نے بینکوں کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا ہے، جس کے تحت پاور ہولڈنگ لمیٹڈ (PHL) کو 1.25 کھرب روپے کے قرضے دیے جائیں گے۔ یہ قرضے کائبور (Kibor) مائنس 0.90 فیصد سالانہ پر دیے جانے تھے۔ اس اقدام کو حکومت نے توانائی کے شعبے میں موجود گردشی قرضے ختم کرنے کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ قرار دیا تھا، جو گزشتہ ایک دہائی سے بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی، چوری، اور ترسیل کے نقصانات کی وجہ سے بڑھتے جا رہے ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1901654678854570231
لیکن اس دعوے کے باوجود، معاہدہ تاحال مکمل نہیں ہو سکا، کیونکہ بینکوں نے ابھی تک اس کے شرائط و ضوابط پر دستخط نہیں کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1.25 کھرب روپے کا قرضہ PHL کے کھاتوں میں ہی رہے گا، جس سے واپسی کے امکانات مزید غیر یقینی ہو جاتے ہیں۔
بینکوں پر دباؤ ڈالنے کے الزامات
ذرائع کے مطابق، حکومت اور بینکوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات خاصے کشیدہ رہے۔ ایک سینئر بینکر، جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، نے بتایا کہ وزارت خزانہ کے اجلاس میں بینکوں پر سخت دباؤ ڈالا گیا۔
سینئر بینکر نے بتایا "ہمیں کہا گیا کہ قرضہ دینا ہماری مجبوری ہے، اور اگر ہم نے اتفاق نہ کیا تو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،"
ایک اور بینکاری عہدیدار نے اس دباؤ کو نجی بجلی گھروں (IPPs) پر ڈالے گئے حکومتی دباؤ سے تشبیہ دی، جب توانائی کے ٹاسک فورس (جس میں سویلین اور فوجی حکام شامل تھے) نے ان سے معاہدے پر دستخط کرائے۔ آئی ایم ایف (IMF) نے بعد میں اس دباؤ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
https://twitter.com/x/status/1901658579704189097بینکوں کے خدشات: مالی نقصان اور عدم ضمانت
حکومت کا منصوبہ ہے کہ اس قرض کو چھ سال میں واپس کیا جائے، جس کے لیے بجلی کے بلوں میں شامل 2.83 روپے فی یونٹ سرچارج سے سالانہ 350 ارب روپے جمع کیے جائیں گے۔
لیکن بینکوں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت PHL کے قرضے کائبور + 0.45 فیصد شرح سود پر چل رہے ہیں، جبکہ حکومت کی نئی اسکیم کائبور - 0.90 فیصد پر دی جا رہی ہے، جس سے بینکوں کو 1.35 فیصد کا نقصان ہوگا۔ اس کے نتیجے میں، بینکوں کو سالانہ 9.2 ارب روپے کا نقصان ہونے کا امکان ہے، جو ان کے منافع پر براہ راست اثر ڈالے گا۔
اس کے علاوہ، نئے قرضے بھی اسی کم شرح سود پر دیے جائیں گے، جس سے مزید مالی دباؤ پیدا ہوگا۔
ایک بڑے بینک کے چیف فنانشل آفیسر نے کہا:
"پرانے قرضوں کی بار بار تنظیم نو اور منفی مارجن اس معاہدے کو بینکوں کے لیے انتہائی غیرمناسب بنا رہا ہے۔ مزید یہ کہ توانائی کے شعبے کو اس قدر بڑے پیمانے پر قرضے دینے سے نجی شعبے کے لیے قرضوں کی دستیابی کم ہو جائے گی، جس سے معیشت کو نقصان پہنچے گا۔"
اس کے علاوہ، بینک اس بات پر بھی شدید تحفظات رکھتے ہیں کہ نئے قرضوں کے لیے کوئی خودمختار ضمانت (sovereign guarantee) موجود نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پاکستان ایسی ضمانت فراہم نہیں کر سکتا، جس کی وجہ سے بینکوں کے لیے قرضہ دینا مزید خطرناک ہو گیا ہے۔
گردشی قرضے کا اصل مسئلہ برقرار
توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات میں سب سے بڑا تنازعہ رہا ہے۔ حکومت کا منصوبہ ہے کہ 1.5 کھرب روپے کے گردشی قرضے کو ختم کرنے کے لیے 1.25 کھرب روپے کے نئے قرضے اور 250 ارب روپے کے بجٹ سپورٹ کا استعمال کیا جائے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بنیادی مسئلے کو حل نہیں کرے گا۔
آئی ایم ایف بھی اس منصوبے پر شکوک و شبہات رکھتا ہے، کیونکہ اگر مستقبل میں بجلی کی طلب میں کمی آئی تو قرضوں کی واپسی مزید مشکل ہو سکتی ہے۔
توانائی کے شعبے کے ماہر طاہر بشارت چیمہ نے کہا:
"یہ منصوبہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اصل مسائل جیسے کہ بجلی کی چوری اور ترسیل کے نقصانات پر قابو نہ پایا جائے۔"
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان نے گردشی قرضے کو ختم کرنے کی کوشش کی ہو۔ 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 480 ارب روپے ادا کر کے گردشی قرضے کو ختم کیا تھا، لیکن چند ہی سالوں میں یہ دوبارہ بڑھنا شروع ہو گیا، کیونکہ بنیادی مسائل جوں کے توں رہے۔
بینکوں کے خدشات کے باوجود، کچھ ماہرین اب بھی پرامید ہیں۔ پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ظفر مسعود نے کہا کہ 1.25 کھرب روپے کا آدھے سے زیادہ قرض پہلے ہی 18 بینکوں کے کھاتوں میں موجود ہے، اور اسے واپس کرنے کے لیے قابلِ شناخت کیش فلو بھی موجود نہیں تھا۔
"اب بجلی کے بلوں میں شامل ڈیٹ سروس سرچارج کے ذریعے قرضوں کی واپسی ممکن ہوگی۔ اس سے صارفین پر کوئی نیا بوجھ نہیں پڑے گا، اور پرانے و نئے قرضے اگلے چار سے چھ سالوں میں ادا ہو جائیں گے، خاص طور پر اگر شرح سود کم ہوئی تو ادائیگی مزید تیزی سے ہو سکے گی۔"
انہوں نے ان خدشات کو بھی مسترد کیا کہ بینکوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اور کہا کہ مذاکرات "انتہائی پیشہ ورانہ، احترام اور کاروباری ماحول میں" ہوئے۔
حکومت کا منصوبہ غیر یقینی صورتحال کا شکار
یہ منصوبہ بظاہر توانائی کے شعبے کو مستحکم کرنے کی کوشش ہے، لیکن جب تک بجلی کی چوری، ترسیل میں نقصانات اور عدم ادائیگی کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے، گردشی قرضے کا خطرہ برقرار رہے گا۔فی الحال، بینک محتاط ہیں، اور حکومت کا منصوبہ غیر یقینی صورتحال میں لٹکا ہوا ہے۔