پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی کثیر تعداد کے باعث ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں ڈرامہ انڈسٹری مزید ترقی کرتی، نئے چہرے سامنے آتے، نئے موضوعات پر ڈرامہ بنتا، اور اداکاری اور ہدایت کاری کی اصناف کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نویسی کے شعبے میں بھی بہتری آتی لیکن جیسا کہ پاکستانی مزاج میں یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ یہاں بھیڑچال کا رجحان زیادہ جبکہ تخلیقی رسک لینے کا جزبہ کم رہا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستانی انڈسٹری میں کسی ایک ڈرامے نے اگر شہرت اور ریٹنگ کے دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑا تو باقی کچھ مختلف کرنے کے بجائے اسی روش پر چل کر نقل اور چربے پر چربہ بناتے گئے۔ پاکستانی ڈرامے میں ایک اور بہت بڑا مسئلہ جو مشاہدے میں آیا کہ ہر کہانی گھریلو سیاست اور خاندانی سازشوں کے ارد گرد ہی گھومتی نظرآتی تھی۔ بہت سے نقادوں نے اس وقت انتہائی درست تنقید کے ساتھ تجزیہ کیا کہ پاکستانی ڈرامہ نویسی غیر معیاری انڈین ڈرامے کے اثرات قبول کرچکی ہے اور چالیس قسطیں پوری کرنے کے چکر میں کچھ اچھی کہانیوں کو بھی گھسیٹ کر غیر ضروری طوالت سے دوچار کردیا گیا۔ یہ سارا دور تخلیقی لحاظ سے بہت ہی مایوس کن رہا۔
لیکن اس روش پر ہونے والی تنقید کا اثر بھی کہیں نہ کہیں نظر آنے لگا۔ ایسے میں اس سوچ کے ساتھ ایک چینل سامنے آیا جس نے روایت اور روش کی تمام بیڑیاں توڑ کر غیر رویتی موضوعات پر ڈرامہ تخلیق کیا اور وہ چینل گرین انٹرٹینمنٹ ہے۔ اس پر بہت ہی متفرق اور غیر روایتی موضوعات کو لے کر بہت ہی معیاری ڈرامے پروڈیوں کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ بڑی حد تک اپنی کوششوں میں کامیاب بھی ہوئے کیوں کہ انکے زیادہ ڈراموں کو ناظرین کی جانب سے قبولیت اور مقبولیت دونوں سے نوازا گیا۔ ناظرین کے قبولیت نے اس چینل کو مزید رسک لینے پر آمادہ کیا اور اس کا نتیجہ رواں ہفتے پیش کیا جانے والا دنیا پور پاکستانی تاریخ کا مہنگا ترین ڈرامہ سیریل ہے۔ جو مقبولیت کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔
اس چینل کے روح رواں ایک نوجوان انٹررینیور فصیح الرحمان ہیں جو امریکہ کی اوریگان اسٹیٹ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ خاندانی طور پر کنسرٹرکشن کے کاروبار سے منسلک رہے ہیں۔ ان کے ساتھ انکی ہمشیرہ تحریم چوہدری جو گلوبل میڈیا سمیت متعدد مضامین میں غیر ملکی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس چینل میں پاکستانی ڈرامے کے احیاٗ کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں فصیح الرحمان کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔

جدید تعلیم اور تنقیدی زاویہ نظرکے حامل فصیح کیلئے پاکستان کا موجودہ انٹرٹینمنٹ لینڈ اسکیپ ایک بہترین بزنس اوپرچیونٹی تھا جنہوں نے یہ بات بہت جلد بھانپ لی کہ پاکستان میں غیر روایتی مواد کی مارکیٹ موجود ہے اور معاشرے میں اسکی طلب میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ جو گرین انٹرٹینمنٹ ٹی وی لانے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
گرین انٹرٹیمنٹ ٹی وی اپنی پروگرامنگ غیر روایتی کہانیوں کے سبب ایک رسکی وینچر تھا لیکن ناظرین کی جانب سے قبولیت عام ملنے پر یہ رسک بہت ہی منافع بخش ثابت ہوا کیوں کہ کنسٹرکشن کے کاروبار سے منسلک کاروباری گھرانے سے تعلق رکھنے والے فصیح الرحمان نے کثیر سرمایہ کاری سے چینل لانچ کیا تھا۔ انکے مقابلے میں بڑے اور تجربہ کار میڈیا گروپس تھے جن کے مارکیٹ شئیر میں بڑا حصہ گرین کی طرف لانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ لیکن خوش قسمتی اور درست پلاننگ کے سبب پہلے ہی برس سینکڑوں ملین ناظرین کی جانب سے دیکھے جانے والے ڈراموں نے تخلیقی طور پر تو انہیں شادکام کیا ہی لیکن کاروباری لحاظ سے بھی ایک قابل ذکر کامیابی انکے حصے میں آئی۔
گرین انٹرٹیمنٹ کے حوالے ایک اہم پہلو پر بات کرنا میرے خیال میں بہت ضروری ہے اور اسکا تعلق ان افواہوں سے ہے جو اس چینل کی ملکیت کے حوالے سے کچھ عرصے میں سامنے آئی ہیں کہ گرین انٹرٹیمنٹ آئی ایس پی آر سے کسی طرح منسلک ہے یا اسکی ملکیت ہے تو اس بات میں قطعا کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ اس چینل کی کامیابی کے حاسدین کی جانب سے پیشہ ورانہ افواہ سازوں کی چکی سے نکلنے والی جھوٹی کہانی ہے۔ اس کی ملکیت صرف اور صرف فصیح الرحمان اور انکے خاندان کے پاس ہے جنہوں اس چینل کو لانچ کرنے کیلئے کثیر سرمایہ کاری کی اور وہ پراڈکٹ ناظرین کیلئے پیش کیا جس کی اس وقت معاشرے کو بہت زیادہ ضرورت بھی تھی اور اسکی مانگ بھی تھی۔
یہ بات بالکل یقین سے کی جاسکتی ہے کہ جن موضوعات پر اکثر تنقیدی طور پر کہانیاں پیش کی گئیں، اگر گرین انٹرٹینمنٹ چینل کو مکمل طور پر آزادی حاصل نہ ہوتی تو وہ کہانیاں شاید نہ بن پاتیں۔ لیکن پاکستانی معاشرے میں حسد اور بغض کئی بھیس بدل بدل کر سامنے آتا ہے اور کبھی افواہوں اور جھوٹے پراپیگنڈا کا سہارا لے کر کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی کوئی اور راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران گرین ٹی وی انٹرٹینمںٹ نے جس طرح سے تاریخ رقم کی ہے اور جن انداز میں عوام میں پذیرائی حاصل کی ہے وہ کچھ کو ایک آنکھ نہیں بھائی۔ بہترتو یہ ہوتا کہ ایک مثبت اور تخلیقی مقابلہ ہوتا، بہتر سے بہتر پراڈکٹ سامنے لانے کا، بہتر ہدایتکاری اور بہترین سکرپٹ نویسی کا جس کا فائدہ انٹرٹیمنٹ انڈسٹری کو بھی ہوتا اور ملک کو بھی ہوتا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سہل پسندی کی عادت نے محض افواہ سازی، بہتان تراشی اور جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/2greentvvblogsj.png