گفتگو کرنے والے بچے کی تربیت

Amal

Chief Minister (5k+ posts)









گفتگو کرنے والے بچے کی تربیت کیسے کی جائے؟

قرآن وحدیث میں اولاد کی تربیت اور تعلیم کے بارے میں واضح احکامات دیئے گئے ہیں اوراس کی تاکید کی گئی ہے۔ اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ اگروالدین نے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں کی تو یہ بڑے خطرے کی چیز ہے۔ اس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے اور ذمہ داری والدین پرہوگی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کلکم راع و کلکم مسول عن رعیتہ

تم سب راعی ذمہ دار ہو اور اپنی رعیت کے ذمہ دار ہو۔

بچے اور والدین

بچے کی اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعہ اچھا سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ آج سماجی الجھنیں تعلیم و تربیت کی خامیوں کی مرہونِ منت ہیں۔ موجودہ سماج میں
[FONT=&amp]دنیا[/FONT][FONT=&amp]وی تعلیم پر توجہ دی جارہی ہے لیکن اسلامی اخلاق و تربیت پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے تعلیم یافتہ سماج ظلم، نا انصافیوں اور حق تلفیوں کے گھناؤنے مرض کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔[/FONT]
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

کسی باپ نے اپنے بچے کو کوئی عطیہ اورتحفہ میں ادب یعنی اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا
رواہ الترمذی
دوسری جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے

اپنے بچوں کا اکرام کرو اور انہیں اچھی تربیت دو ۔

بچوں کے اکرام کا مفہوم یہ ہے کہ بچوں کو پیار دیں ،ان کو تعلیم دینے کے لئے ادب سے بلائیں تاکہ وہ والدین کی جانب سے کسی توہین کا احساس نہ کریں۔

چند سال کا بچہ جب ذرا سمجھ دار ہو جاتا ہے ۔ گھٹنوں کے بل چلنے کی عمر سے لے کر تین چار سال تک وہ ہر نئی شے تک پہنچنے اور پرکھنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق بہت کچھ خود ہی سیکھ اور سمجھ لیتا ہے۔ یہ وہ ذہنی استعداد ہے جو رحم سے لے کر باہر کا ماحول اسے فراہم کرتا ہے۔ اس کا لاشعور جو تربیت پا چکا ہوتا ہے وہ شعوری طور پر اس کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔
بچے کی روحانی غذا شروع دن سے اسی طرح بڑھانی چاہیے، جیسے کہ جسمانی غذا بتدریج بڑھائی جاتی ہے۔ اگر جسمانی غذا شروع دن سے ناقص ہو گی، کم ہوگی، بروقت نہ ملے گی تو بچہ جسمانی طور پر کمزور ہوگا۔ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائے گا اور وہ معذور بھی ہو سکتاہ ے، اگرچہ وہ صحت مند پیدا ہوا ہو۔
اسی طرح روحانی بیماریوں سے بچنے کے لئے بھی پیدائش سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے اور پیدائش کے بعد بھی ان کا علاج کرنا ہوگا۔ اور وہ نیت کی درستگی، فرائض کی ادائیگی میں پابندی، قلب و نگاہ کو
با[FONT=&amp]شعور مسلمان بنانے کے علاوہ اور کیا ہے؟[/FONT]

ہم اپنے بچوں کی صحت کے بارے میں تو فکر مند رہتے ہیں کہ اس کا رنگ کیوں پیلا پڑ رہا ہے؟ اسے بھوک کیوں نہیں لگ رہی؟ اسے نیدن کیوں نہیں آتی؟ پھر ہم اپنی استطاعت کے مطابق اچھے اچھے ڈاکٹروں سے اس کا علاج معالجہ کراتے ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہم اپنے اسی بچے کی اخروی زندگی اور خود اس زندگی میں روحانی اور تہذیبی ترقی کے لئے ویسے فکرمند نہیں ہوتے۔ اس میں پائی جانے والی کمی کے لئے کسی اچھے دانش مند اور نیک سیرت انسان سے رجوع کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جس طرح اپنے بچے کی جسمانی صحت کے بارے میں لاپرواہی برا فعل ہے، اسی طرح بچے کی روحانی زندگی سے لاتعلقی بھی نہایت غلط اقدام ہے۔

جسمانی غذا اور روحانی غذا کے ساتھ ساتھ جسمانی و روحانی لباس کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ جسمانی لباس بچے کو عمر، موسم اور حالات کے لحاظ سے پہنایا جاتا ہے۔ اسی طرح روحانی لباس یعنی تقوی کا لباس بھی عمر، موسم، حالات اور ذہنی استعداد کے مطابق ساتھ ساتھ تیار کرتے رہنا ضروری ہے، بلکہ تقوی کا لباس و خوراک اس سے بھی زیادہ حکمت عملی اور احتیاط کا متقاضی ہے۔

بچے کی شخصیت کا خاکہ بن جانے کے لئے پہلے پانچ سال اہم ہیں۔ باقی عمر اس خاکے میں رنگ بھرتے رہنا ہے۔ کسی بھی عمارت میں بنیادوں کی جو اہمیت ہوتی ہے، عمر کے ابتدائی پانچ سال کی حیثیت بھی ویسی ہی ہے۔ سفید اور کورے کپڑے پر جو رنگ چڑھ جائے وہ ساری عمر باقی کے رنگوں میں اپنی جھلک دکھاتا رہے گا۔ خارجی ماحول اور عارضی حالات بچے کو کسی وقت بدل بھی دیں، اس تبدیلی میں یہ ابتدائی عمر کے احساسات ضرور اپنا حصہ محفوظ رکھیں گے۔ یہ عمر انسان کے عیوب و محاسن کی نشان دہی کر دیتی ہے۔ اس کے بعد تعلیم و تربیت، ماحول اور حالات یا تو عیوب کو اجاگر کرتے چلے جاتے ہیں یا محاسن کو، اور اسی کے مطابق دماغی نشوونما ہوتی چلی جاتی ہے۔
مسلمان ماؤں کے لئے بچے ہی ان کے امتحانی پرچے ہیں۔ جس کے جتنے بچے ہیں اس کے اتنے ہی پرچے ہیں اور انہی پرچوں کے نتیجے پر ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ ان پرچوں کا نتیجہ بھی خود اللہ تعالی نے تیار کرنا ہے۔ کامیاب ہونے پر انعام سے نوازنا ہے اور انعام بھی کیا ہے؟ جنت جیسی عظیم نعمت اور اپنی رضا کی بشارت اور رب سے ملاقات کی نوید۔

بچہ بہت جلد اپنے والدین کی خوشی و ناراضی کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ ماں بھی بچے کو سمجھانے کی خاطر اسے باپ کی ناراضی کا احساس دلاتی ہے، یا اس کے خوش ہونے کی وجہ بتاتی ہے کہ کس کام سے ابو ناراض اور کس سے خوش ہوں گے۔ اسی طرح شروع ہی سے بچے کے دل اور دماغ میں اللہ تعالی کی محبت اور خوشی کا احساس دلانا چاہیے، کہ اللہ تعالی کس قدر مہربان ہے اور ہر چیز وہی عطا کرنے والا ہے۔
بچے کو احساس دلایا جائے کہ وہ محبت کرنے والی ہستی باری تعالی ناراض ہو جائے تو پھر سب ناراض ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی ہی سب کے دلوں میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ بچے سے محبت کی جائے، پیار کیا جائے، اس کو اچھی اچھی چیزیں لا کر دی جائیں۔ بچے کے دل میں یہ یقین بٹھا دیا جائے کہ اگر اللہ تعالی کوئی چیز دینا چاہے تو وہ مل سکتی ہے۔ اس لئے اللہ کو ہمیشہ راضی اور خوش رکھنے کے لئے ہر اچھا کام کرنے کا جذبہ بچے کے ذہن، قلب اور سانسوں تک میں اتار دیا جائے۔

اللہ تعالی کی محبت کو خوشبو کی طرح بچے کے دل میں بٹھا دیا جائے۔

اللہ تعالی کی ذات کا تعارف: مہربان، شفیق، پیار کرنے والا، ہر چیز سے آگاہ اور وحدہ لاشریک کے طور پر کرایا جائے۔

اسکول بھیجنے سے پہلے بچے میں اپنے مسلمان ہونے پر فخر کا جذبہ ضرور پیدا کر دینا چاہیے۔ اسکول کا ماحول گھر کے اور مسلمان والدین کے ذہن سے مطابقت رکھتا ہو تو بہت خوش نصیبی ہے ۔۔۔ ورنہ والدین کو بہت سمجھ بوجھ اور ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ دین داری کو احساس کمتری کا نشان نہ بنایا جائے۔ دین اسلام کے بارے میں کسی معذرت خواہانہ طرز عمل سے اسے بچایا جائے۔ بچے کے دل میں یہ جرأت پیدا کی جائے کہ وہ پورے یقین کے ساتھ جانے اور اظہار کرے کہ اس کا لباس اسلامی ہے اور یہی سب سے بہتر ہے۔ اس کا طریقہ سب سے اچھا ہے۔ والدین کے خود اپنے ایمان میں پختگی ہوگی تو وہ اپنے بچے کو بھی یہ چیز بہتر طریقہ سے منتقل کر سکیں گے۔ بچے کو اتنا طاقتور ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں کو دلیل اور شائستگی کے ساتھ بدل دینے کا اور خود کو بہتر
راستے پر گامزن رکھنے کا احساس زندہ رکھ سکے۔


مسلمان ہونے پر احساس تشکر و مسرت پیدا کیا جائے۔

دوسرے مسلمان بچوں کو اپنے اوپر استہزاء کا موقع نہ دیا جائے۔ بچے کو یہ یقین دلایا جائے کہ جو آپ کا لباس ہے، جو آپ کا طریقہ ہے وہی اللہ تعالی نے بتایا ہے۔ اللہ تعالی
سب سے اچھے ہیں تو ان کا بتایا ہوا طریقہ بھی سب سے اچھا ہے۔


بچے کے دل میں شیطان سے نفرت بٹھائی جائے۔

ساری گندی باتوں کا سکھانے والا شیطان ہے۔ وہ ہی اصل دشمن ہے۔ غصہ، نفرت،
حسد ، حرص ،[FONT=&amp]عداوت [/FONT]کے تمام احساسات اسی دشمن اور اس کا کہنا ماننے والوں کے ہیں , ان سے نفرت سکھائی جائے ۔
[FONT=&amp]
[/FONT]

والدین کا اپنا طرز عمل بچوں کے لئے سب سے بڑا استاد ہے۔

بچے خاموشی سے اس طرز عمل کو دیکھتے اور اسی پر عمل کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے، یا آپس میں کھیلتے اور پلاننگ پر غور کرتے ہوئے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین، رشتہ داروں اور استادوں سے حقیقت میں کیا سیکھ رہے ہیں ۔

بچوں کو کن کلمات کے ساتھ پناہ دی جائے​

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو ان کلمات کے ساتھ پناہ دیا کرتے تھے

أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ
صحیح بخاری:3371، سنن ترمذی:2060

میں تم کو اللہ کے کامل کلمات کے ساتھ ہر شیطان اور زہریلے جانور سے اور ہر لگ جانے والی نظر سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔








15095090_1244967435561946_833103092092923223_n.jpg
 
Last edited: