
لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے کشمیر کے سابق وزیر اور سابق صحافی مشتاق منہاس کی درخواست کو خارج کر دیا ہے، جس میں انہوں نے پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی (فاٹا) کی جانب سے غیرقانونی قبضے کیے گئے پلاٹوں کی واپسی کی کارروائی کو روکنے کی درخواست کی تھی۔ جسٹس جواد حسن نے پیر کو درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ چونکہ درخواست گزار نے نجی اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے، اس لیے وہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں کسی عبوری ریلیف کا حقدار نہیں ہے۔
مشتاق منہاس کو پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی نے میڈیا ٹاؤن، راولپنڈی میں غیرقانونی طور پر قبضے والے پلاٹوں سے تجاوزات ہٹانے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔ ایجنسی کے نوٹس میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ منہاس کے پاس 10 مرلہ کے تین پلاٹ ہیں، لیکن منظور شدہ لے آؤٹ پلان کے مطابق، انہوں نے دو اضافی پلاٹوں کے رقبے پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ ایجنسی نے انہیں تجاوزات رضاکارانہ طور پر ہٹانے کی ہدایت کی تھی اور متنبہ کیا تھا کہ ناکامی کی صورت میں انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل آپریشن کریں گے۔
درخواست گزار کے وکیل توفیق آصف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 18 فروری 2025 کا نوٹس غیرقانونی تھا، کیونکہ انہیں پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی آرڈیننس 2002 کے سیکشن 32 اور 33 کے تحت سماعت کا موقع فراہم کیے بغیر جاری کیا گیا تھا۔ وکیل نے کہا کہ اتھارٹی کی جانب سے کی گئی کارروائی قانونی دفعات اور مناسب عمل کی خلاف ورزی ہے۔
تاہم، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عابد عزیز راجوری نے نوٹس کے جاری ہونے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ سابقہ عدالتی احکامات کی تعمیل ہے، جس میں متعلقہ حکام کو تجاوزات کے خاتمے اور پلاٹوں کا قبضہ قانونی الاٹیوں کے حوالے کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
جسٹس جواد حسن نے فریقین کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ نوٹس پیشگی عدالتی ہدایات کے مطابق جاری کیا گیا تھا۔ انہوں نے درخواست کو خارج کر دیا، جس کے بعد پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی کی جانب سے غیرقانونی قبضے کی کارروائی جاری رہے گی۔
یہ کیس اس وقت سامنے آیا ہے جب وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبے بھر میں بڑے پیمانے پر انسداد تجاوزات مہم شروع کی ہے۔ اس مہم کا مقصد غیرقانونی قبضوں کو ختم کرنا اور قانونی الاٹیوں کو ان کے حقوق دلانا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مشتاق منہاس کے خلاف کارروائی کس طرح آگے بڑھتی ہے اور کیا وہ مزید قانونی چارہ جوئی کریں گے۔