ملک کے بڑوں کے بند کمرے کے اجلاس کے بعد پیغام آیا کہ بس بہت ہو گیا، ہم ایک سوفٹ ریاست تھے اب ہم ہارڈ ریاست بن کر دکھائیں گے، ملٹری زبان میں ہارڈ ریاست کا جو بھی مطلب ہو باہر ہمیں یہ پتا چلا کہ پھانسی گھاٹ ایک بار پھر آباد ہوں گے، لڑاکا جہاز اور گن شپ ہیلی کاپٹر اڑیں گے اور راکٹ برسائیں گے، دور دراز دیہاتوں میں ٹینک اور آرمرڈ کاریں گھسیں گی، دروازے توڑے جائیں گے دیواریں پھلانگی جائیں گی، اور وہ جو اپنے موبائل فونوں اور لیپ ٹاپ پر بیٹھ کر ریاست کو للکارتے ہیں اور کبھی کبھی ریاست کا مذاق اڑاتے ہیں ان کو ایسے تہہ خانوں میں رکھا جائے گا جہاں پر وائی فائی نام کی کوئی چیز نہیں ہو گی، پھر ریاست کے آہنی ہاتھ ہوں گے اور ان کی سسکیاں۔
یہ بھی کہا گیا کہ کب تک بیڈ گورننس کی وجہ سے ہم اپنے جوانوں کی قربانیاں دیتے رہیں گے، عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ فوج کا کام ہے اور گورننس سویلین حکومت کا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت الیکشن لڑ کر آئی ہو یا کسی بند کمرے میں یہ وعدہ کر کے آئی ہو کہ ہمیں گورننس آتی ہے، ہمیں ایک موقع اور دو۔ الیکشن تو ہوتے ہی رہتے ہیں، ہم وہی کریں گے جو آپ ہمیں کہیں گے۔ اب جو حکومت گڈ گورننس کیلئے ہارڈ سٹیٹ کے آہنی ہاتھوں کی محتاج ہو، جس کے بارے میں ہر روز یہ سوال اٹھتا ہو کہ یہ حکومت ہماری ہے بھی یا نہیں وہ ہمیں قربانیوں اور شہادتوں کے اس لامتناہی سلسلے سے کیسے بچائے گی؟