
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں دکھ ہوتا ہے کہ ہم ہائی کورٹ میں بیٹھ کر بھی انصاف نہیں دے پاتے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں علی نواز اعوان کے بھائی عمر نواز اعوان کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے درخواست پر سماعت کی اورپولیس کو یکم اگست تک کی مہلت دیتے ہوئے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔
دوران سماعت چیف کمشنر اسلام آباد نورالامین مینگل، آئی جی اسلام آباد اکبر خان ناصر عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے استفسار کیا کہ اسلام آباد سے بندے کو اٹھایا گیا، بتائیں پولیس نے کیا تفتیش کی اور اس معاملے میں کیا پیش رفت ہوئی، وزارت دفاع کے مطابق عمر نواز ماتحت اداروں کے پاس نہیں ہے۔
https://twitter.com/x/status/1683491008284172290
عدالت نے مزید کہا کہ ایک شخص کو اس کی فیملی کے سامنے ، چار بچیوں کے سامنےاٹھالیا جاتا ہے، کچھ خدا کا خوف بھی نہیں ہے؟ عمر نواز جس کسی کے پاس بھی ہے اسے پتا ہونا چاہیے کہ اوپر اللہ بھی ہے، کیا وہ کوئی سیاسی کارکن ہے؟ یا وہ کسی جلسے جلوس یا حملے میں ملوث ہے۔
سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئی بی کو جیو فینسنگ کیلئے خط لکھا ہوا ہے، رپورٹ زیر التوا ہے، تاہم آج کل خود ساختہ لاپتہ ہونے کا بھی ایک ٹرینڈ چلا ہوا ہے، ایک بیوروکریٹ بھی خود لاپتہ ہوئے اور پھر خود ہی واپس آگئے۔
جسٹس طارق محمود نے کہا کہ اگر لاپتہ شخص کسی کیس میں ملوث ہیں تو انہیں عدالت کے سامنے پیش کریں، اسلام آباد کے ٹاپ باسز اس وقت عدالت میں موجود ہیں، ہم ان کو ہی کہہ سکتے ہیں، پولیس کو ہی تفتیش کرنی ہے، آئی جی کی تبدیلی کا حکم بھی دیں تب بھی ہدایات پولیس کو ہی دینی ہے۔
ایڈووکیٹ بابراعوان نے کہا کہ یہ باسز نہیں سول سرونٹس ہیں، اگر کوئی اپنا کام نہیں کرتا تو اس پر ایکشن ہونا چاہیے، ان کو دو ہفتوں کے بجائے ایک یا دو دن کا وقت دیا جائے، عدالت نے عمر نواز اعوان کی بازیابی کیلئےیکم اگست تک مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/7ihcdukhshshs.jpg