▓▓░ پاکستان : انقلاب کابھوت او ر حکمران اشر&#1

ibn-e-Umeed

Citizen
▓▓░ پاکستان : انقلاب کابھوت او ر حکمران اشر&am

▓▓░ پاکستان : انقلاب کابھوت او ر حکمران اشرافیہ ۔ اِبنِ اُمید ░▓▓
ஜ۩۞۩ஜ اِبنِ اُمید ஜ۩۞۩ஜ
http://www.ibn-e-Umeed.com/

71516_161707137195128_124089857623523_347418_3005060_n.jpg

ہمارا پیارا ملک پاکستان جسے 1947ء میں گورا صاحب تو آذاد کرکے چل دئیے مگر تب سے ان کے گماشتہ بھورے صاحب (جنہیں ہم عرفِ عام میں حکمران اشرافیہ بھی کہتے ہیں) نے ہمیں غلام بنارکھا ھے جو مٹھی گرم کرنے پر کبھی تو پرائیویٹائزیشن کے نام پر قیمتی صنعتی اور معدنی اثاثے اونے پو نے داموں دورِ حاضر کی ایسٹ انڈیا کمپنیوں کے نام کر دیتے ہیں تو کبھی وسیع و عریض ذرخیز نہری زمینیں کارپوریٹ فارمنگ کی آڑ میں غیر ملکی آقاﺅں کو انعام میں دے دیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اپنے شہریوں کو غیر ملکی زرِمبادلہ کمانے کےلئے بیچنے سے بھی نہیں چوکتے ۔ حتی کہ سامراج کی جنگ میں پیسے لے کر اپنے ہی شہریوں کا قتلِ عام کر کے فرنٹ لائن سٹیٹ کہلوانے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔

مشہور دانشور ایلن وڈذ کے بقول ہم تاریخ ِانسانی کے اس دور میں رہ رھے ہیں جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیش رفت نے معجزات کو انسان کیلئے معمول بناکے رکھ دیا ھے۔ آج ایک انسان کو چاند پر بھیجا جاسکتا ھے اور انسان کئی سیٹلائٹ خلاءمیں بھیج کر کائنات اور ارض وسماء کی ان دیکھی وسعتوں اور ان کے اسرارورموز کو اپنی مٹھی میں لاسکتے ہیں اور لا رھے ہیں نیز نت نئی ایجادات نے انسانی زندگی کو نہایت پرآسائش بنا دیا ھے۔ لیکن اسی ترقی یافتہ اکیسویں صدی میں ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں کروڑوں انسان انتہائی ابتدائی اور قدیم ترین سطح کے معیارزندگی کی طرف بتدریج کھنچے چلے جارھے ہیں ۔ پاکستان جیسے ملک میں حالیہ ہولناک سیلاب سے پہلے بھی یہی کیفیت تھی اور مہنگائی، بیروزگاری ، دہشت گردی اورلوڈشیڈنگ کی ماری بیچاری غریب عوام کا جینا پہلے بھی دوبھر ہوا ہوا تھا جبکہ سیلاب کے بعد کروڑوں انسان زندگی کی رمق ڈھونڈنے میں سرگرداں ہوچکے ہیں اور زندگی ھے کہ اس کا دامن ان کروڑوں محروم ومقہورانسانوں کے ہاتھوں سے چھوٹتاہی چلا جارہاھے۔

آج نفرت،بغاوت اور احساس محرومی کی آگ میں جلتا ہوا پاکستان آتش فشاں کے دھانے پرکھڑا ھے۔ اشرافیہ کا نافذ کردہ موجودہ نظام یا نوٹنکی کی اصلیت اب عوام پر واضح ہو چکی ھے کہ یہ ایک مخصوص طبقے کے مفادات کا تحفظ کر رہا ھے لہذا عوام کی اکثر یت اس نظام سے نا لاں ھے اور اس سے نجات چا ہتی ھے لیکن مراعات یا فتہ طبقہ اس نظام کو ہر حال میں قائم و دائم رکھنا چا ہتا ھے کیونکہ یہ انکے مفادات کا ترجمان اور محافظ ھے۔ پچھلے63سالوں میں چند خاندا نو ں کے غلبے نے پاکستانی عوام کو بغاوت پر آمادہ کر دیا ھے وہی چند چہرے، وہی چند خاندان اور وہی چند نام جو اس ملک کے مقدر کے ساتھ جونکو ں کی طرح چمٹے ہو ئے ہیں اور اسکا خون چوس چوس کر اسے حالتِ نزا ع تک لے آئے ہیں لہذ ا اب عوام ان سے مکمل نجات چا ہتے ہیں۔ کارخا نوں، جا گیرو ں اور بینکوں کے یہ مالکان جنکی مٹھی میں اسٹیبلشمنٹ کی ساری قوت بند ھے غریب عوام کو اپنی خوا ہشوں کا اسیر بنا کر انھیں انتہا ئی کسمپر سی کی زندگی گزا نے پر مجبور کر ر ھے ہیں لیکن عوام غلامی کی ان زنجیروں کو توڑ کر اپنے مقدر کا باب خود اپنے ہا تھوں سے لکھنا چا ہتے ہیں لیکن انہیں کوئی راہ سجھا ئی نہیں دے رہی۔ بقولِ شاعر

آذاد ہُوا تھا دیس مگر
ہم آج تلک آذاد نہیں
یاں چور لٹیرے قابض ہیں
اور خلقِ خُدا کا راج نہیں
اَب نصف صدی کے پار کھڑے
اِک سوچ میں ہیں، یاں اہلِ وطن
نسلوں کی اِس فرمانبرداری میں
کیا کھویا اور کیا پایا ھے؟

طبقات میں بانٹ کے رکھا ھے
جیون کو، علم و دولت کو
لفظوں کے گورکھ دھندے میں
خوشحالی کے بہلاوے ہیں
غُربت کی با تیں فیشن ہیں
اِن اُمراء کے درباروں میں
محروم کھڑی ھے خلقِ خُدا
یاں دولت کے انباروں میں
(اِبنِ اُمید)
www.ibn-e-Umeed.com


یہ 2جولائی 1789ء کا دن تھا اور پیرس شہر تھا۔پیرس کی مشہورزمانہ سٹرک “شانزے لیزے”کے ایک سرے پرلوگوں کا مجمع لگاتھا۔مجمعے کے اندر ایک شاہی محافظ ایک غریب اور مسکین شخص کو پیٹ رہا تھا۔ محافظ اس شخص کوٹھڈوں ،مکوں اورڈنڈوں سے مار رہا تھا او ر درجنوں لوگ یہ منظر دیکھ رھے تھے جبکہ پٹنے والا دہائی دے رہا تھا، منتیں کر رہا تھا اورمحافظ کے پاؤں پڑ رہا تھا۔ پٹائی کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ مجمعے کے اندر سے کسی نے محافظ کو ایک پتھر ماردیا۔محافظ تڑپ کرمجمعے کی طرف مڑا اور مجمعے کو گالی دے کرپوچھا : ”یہ کون گستاخ ھے؟ “ مجمعے میں سے کوئی شخص باہر نہ نکلا۔ محافظ بپھر گیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مجمعے پرلاٹھیاں برسانا شروع کردی۔مجمعے نے “ری ایکٹ”کیا۔ لوگوں نے محافظوں کوپکڑا اور مارنا شروع کردیا۔محافظوں کوبچانے کے لیے نئے محافظ آئے لیکن وہ بھپرے ہوئے مجمعے کا مقابلہ نہ کرسکے اور میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس حادثے میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور شاہی محافظوں کی یہ دونعشیں آگے چل کرانقلاب فرانس کی بنیاد بنیں۔لوگوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوا اور طاقت کے اس اندازے سے 14جولائی 1789ء کا سورج نویدِ انقلاب بن کر طلوع ہوا اور بلآخربادشاہت کاخاتمہ ہوگیا۔

انقلاب فرانس کی وجوہات پر اگر غور کریں تو فرانس میں ان دنوں بادشاہ کے پاس وسیع اختیارات تھے اور اس نے یہ اختیارات اپنے منظور نظر لوگوں میں تقسیم کررکھے تھے۔مثلا :آپ عدالتی نظام کو لیجئیے۔فرانس میں تمام عدالتی منصب باقاعدہ فروخت کیے جاتے تھے۔دولت مند لوگ عدالتی منصب خریدتے تھے اور ان کے مرنے کے بعد یہ عہدے وراثت میں چلے جاتے تھے۔یہ لوگ یہ عہدے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں بیچ بھی سکتے تھے۔اس زمانے میں ججوں کی تنخواہیں قلیل تھیں لہذا وہ مقدمہ بازوں سے بھاری بھاری رشوتیں لیتے تھے اور ان رشوتوں کو جائز سمجھاجاتا تھا اوربادشاہ کوکسی بھی شخص کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار تھا۔ آپ پارلیمنٹ کولے لیجیئے۔فرانس میں پارلیمنٹ آف پیرس کے علاوہ بارہ صوبائی پارلیمنٹس تھیں اور ان پارلیمنٹس کا صرف ایک ہی کام ہوتا تھا۔یعنی بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اورآئینی شکل دینا۔فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے۔ یہ ٹیکس صرف اورصرف عوام پرلاگو تھے جبکہ امراء جاگیردار ،بیوروکریٹس ،شاہی خاندان اورپادری ٹیکسوں سے مادرا تھے۔ حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی کاکام ٹھیکے داروں کے حوالوں کررکھا تھا اوریہ ٹھیکیدار ٹیکسوں کی وصولی کے لیے کسی شخص کی جان تک لے سکتے تھے۔ٹھیکداروں کے ملازمین ملک بھر میں پھیل جاتے تھے اورٹیکس جمع کرنے کے بہانے لوگوں کوخوب لوٹتے تھے۔ فرانس میں فوجی اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی بھاری ٹیکس تھا۔اس ٹیکس کو ٹیلی ٹیکس کہا جاتا تھا۔ٹیکسوں کا یہ عالم تھاکہ حکومت نے عوام پرنمک ٹیکس تک لگا رکھاتھاجس کے تحتفرانس میں سات سال سے زائد عمر کے ہرشخص کو نمک استعمال کرنے پرسالانہ ٹیکس دینا پڑتا تھا اور اس ٹیکس کی عدم ادائیگی پرفرانس میں ہرسال تین ہزار سے زائد افراد کو قید ،کوڑوں اور ملک بدری کی سزا دی جاتی تھی۔

آپ فرانس کے معاشرتی ڈھانچے کوبھی لے لیجئیے۔فرانس کا معاشرتی نظام طبقاتی تقسیم کا شکار تھا۔آبادی پادری ،امرا اورعوام میں بٹی ہوئی تھی۔چرچ کی آمدنی پادریوں کی جیبوں میں چلی جاتی تھی۔ اسٹراس برگ کا پادری سال میں چار لاکھ لیراکمالیتا تھا جبکہ عام پادر کی آمدن بھی ایک لاکھ سے دولاکھ تھی۔فرانس میں امر ااورجاگیر دار خاندانوں کی تعداد بیس سےتیس ہزار تھی جبکہ ملک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پادری تھے اور ان میں سے دس ہزار اعلی پادری تھے جبکہ چھوٹے پادریوں کی تعدادساٹھ ہزار تھی۔ اس وقت فرانس کی آبادی اڑھائی کروڑ تھی اور ان اڑھائی کروڑ لوگوں میں سے چار پانچ لاکھ لوگ مراعات یافتہ تھے۔گویا چار لاکھ لوگ اڑھائی کروڑ لوگوں کی کمائی کھاتے تھے۔ ان دنوں فرانس میں ایک قول بہت مشہور تھا: ”امرا جنگ کرتے ہیں۔پادری دعامانگتے ہیں جبکہ عوام ان کا مالی بوجھ برداشت کرتے ہیں“ ۔ فرانس ایک زرعی ملک تھا جس میں دوکروڑ سے زائد لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن ان لوگوں کی کمائی ٹیکسوں کی نذرہوجاتی تھی۔کسان جاگیرداروں کے رحم وکرم پرتھے۔وہ جاگیر داروں کی اجازت کے بغیر اپنی زمینوں کے گردباڑھ نہیں لگاسکتے تھے اور فصلوں کوخراب کرنے والے جنگلی جانوروں اورپرندوں کوہلاک نہیں کرسکتے تھے۔اس دور میں فرانس میں قانون کی تمام کتابیں لاطینی زبان میں تھیں اور عوام اس زبان سے واقف نہیں تھے۔ملک میں 360 اقسام کے قوانین تھے۔عوام کومعمولی جرائم پرکڑی سزائیں دی جاتی تھیں جبکہ امر قانون سے بالاتر تھے۔ بادشاہ پیرس سے بارہ میل دور ” ورسائی“ کے محلات میں رہتا تھا۔اس کے دربار میں اٹھارہ ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔محل میں سولہ ہزار شاہی خادم تھے۔صرف ملکہ کی خادماؤں کی تعداد پانچ سوتھی۔شاہی اصطبل میں انیس سوگھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے چالیس لاکھ لیرا سالانہ خرچ ہوتے تھے اورباورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ لیرا تھا۔ بادشاہ کی ان شاہ خرچیوں کے سبب فرانس چار بار دیوالیہ ہوچکا تھا۔دولاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوچکے تھے۔فرانس میں روٹی کی قمیت چارلیراتک پہنچ چکی تھی۔ سالانہ خسارہ 15 کروڑ لیرا اورقرضوں کی رقم چار ارب چالیس کروڑ لیرا تھی اور 23کروڑ 60 لاکھ لیرا سالانہ بطورسُود اداکیا جاتا تھا اور فرانس کی کل آمدنی کا تین چوتھائی حصہ فوجی اخراجات پرصرف ہوجاتا تھا۔ملک کے جیل خانے معصوم اوربے قصورلوگوں سے بھرے پڑے تھے لہذا ان حالات میں عوام کے اندر نظام کے خلاف نفر ت ابلنے لگی۔ اس نفرت کو 14جولائی 1789ء میں میٹریل لائز ہونے کا موقع مل گیا۔پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔

اکثرکہا جاتا ھے کہ آج کے پاکستان اور 18ویں صدی کے قبل از انقلاب فرانس میں بہت مماثلت ھے اور پاکستان کے اندر بھی ایک ایسا ہی لاوا ابل رہا ھے جو باہر نکلنے کا راستہ تلاش کررہا ھے جوبلا شبہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت بھی ھے لیکن اگر ہم انقلابات کی تاریخ اور سائینسی میکنزم کو فرانسیسی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش میں انقلاب کے اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیں تو ہمیں مماثلات کے باوصف واضح تضادات یا زمینی حقائق کوقطعاً نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً انقلابِ فرانس سے قبل فرانسیسی معاشرے میں ایک مضبوط علمی روایت اور ادبی تحریک کی بنیاد موجود تھی جس کے سرخیل ادیبوں اور مفکروں میں والٹیر او ر روسو نمایاں تھے. انہوں نے پرانی روایات کو مسلسل چیلنج کیا اور ایک روشن خیال معاشرہ تخلیق کرنے کی کوشش کی اور ان ہی کی کوششوں نے سیاسی طور پر ایک باشعور اور متحرک متوسط طبقہ پر مشتمل ایک نئی نسل کی تربیت کی جو آخر کارانقلابِ فرانس کا سبب بنی۔ نیز انقلاب کی ایک اور بنیادی شرط ایک فعال انقلابی تنظیم کی موجودگی ھے جس کے پاس متبادل نظام تشکیل دینے کیلئے ایک واضح لائحہ عمل ہو۔

ہمارے وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا فرماتے ہیں ”موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے اگر ریڈیکل اقدامات نہ کئے گئے تو متاثرہ کروڑوں انسان ،مایوسی اور غصے کی کیفیت میں،شہروں پر دھاوا بول سکتے ہیں“۔ یہ الفاظ دراصل پاکستان کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے اس خوف کی عکاسی کرتے ہیں،جو ان کے دماغوں پر ایک بھوت کی طرح سوار ہوچکاھے اور ان کی نیندیں حرام کررہاھے۔یہ الفاظ اسلام آباد اور وہاں سے دور بیٹھے حکمران طبقات کی سوچوں میں پیداہوچکی کھلبلی کی نشاندہی کررھے ہیں کیونکہ وہ محسوس کرچکے ہیں کہ صورتحال قابو سے باہر ہونا شروع ہوچکی ھے۔عالمی اور مقامی حکمران طبقہ یہ جان چکاھے کہ حکومت عوام الناس کا ستیا ناس کردینے والے مسائل سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ھے اوروہ ڈرے ہوئے ہیں کہ ان مسائل سے تنگ آچکے لوگ کہیں سرکشی پر اتر آئے تو شاید ان سامراج کے گماشتوں کو بھاگنے کا موقع بھی نہیں ملے گا اورعوام ظالم اشرافیہ کے ان کرداروں کو اسلام آباد کے کھمبوںسے لٹکا کر اپنے غصے کی آگ ٹھنڈی کریں گے۔

مشہور دانشور ایلن وڈذ کے بقول موجود ہ حکومت کے دن یقینی طورپر گنے جاچکے ہیں لیکن سوال یہ ھے کہ کون اس کی جگہ لے گا اور کیا کرے گا؟یہاں تک کہ اگر فوج بھی (ظاہر یا درپردہ) آتی ھے ( جس کا امکان موجودھے) توجرنیل کیا کریں گے؟ کیونکہ اب کاسمیٹک تبدیلی سے عوام کے مسائل حل ہونے والے نہیں اور اب شاید عوام کو زیادہ لمبے عرصے تک مذید بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا لہذا کسی بھی آنیوالے حکمران کی نااہلی و بانجھ پن بہت جلد سب پر عیاں ہو جائے گا اور ایک انتہاؤں کو چھوتی بدترین ابتری کی کیفیت میں فوج لمبے عرصے کیلئے اقتدار کے سنگھاسن پر نہیں بیٹھ سکے گی چونکہ اب کے کوئی بھی حکومت سماج میں موجودہ جھلستے مسائل سے مکمل انقلاب کے بغیرنہیں نمٹ سکے گی۔ بے روزگاری کو کوئی قید نہیں کرسکتا اور مہنگائی کو بندوقوں اور توپوں سے نہیں مارا جا سکتا۔ نپولین نے ایک بار کہاتھا کہ آپ سنگینوں سے ہر قسم کا کام لے سکتے ہیں لیکن ان پر بیٹھ نہیں سکتے۔ایک سماجی بنیاد سے محرومی کی حالت میں فوجی اقتدار زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ ایک سماجی دھماکہ اس فوجی اقتدار کو اپنا نشانہ بنا سکتاھے جیسا کہ1968ء میں جنرل ایوب کے ساتھ ہواتھا۔

آج کل ہمارے ہاں ہر روائتی لیڈراور دانشور بھی سماج میں ریڈیکل تبدیلی کی ضرورت کاواویلا کرتا نظرآتاھے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں انقلاب سیاسی اقتدار کی تبدیلی کو سمجھ لیا گیا ھے جو کہ انقلاب کا نہایت فرسودہ اور محدود تصور ھے حالانکہ انقلاب مکمل تبدیلی اور کامل تغیر کا نام ھے۔ اگر آپ کسی معاشرے کو بدلنا چاہتے اور تمام تر اجتماعی نظام کو کسی خاص ڈھنگ پر استوار کرنا اور کسی مخصوص فکر و نظریے پر ڈھالنا چاہتے ہیں تو اس کام کی ابتد ا فقط سیاسی جنگ کے میدان میں زور آزمائی کرنے سے نہیں ہو گی بلکہ اس کے لیے ضروری ہو گا کہ آپ اس فکر کو میدان میں لائیں ، اس نظریے کی قوت و برتری پر اس معاشرے کی اکثریت کو قائل کریں ، اس کے حوالے سے ان کے شکوک و شبہات، خدشات و خطرات اور سوالات و اعتراضات کا سامنا کرتے ہوئے ان کی تشفی اور اطمینان کا سامان کریں ، اس فکر و نظریے کے مخالفین کے پیدا کردہ شوشوں ، افوا ہوں اور بے جا تنقیدوں کی قلعی کھولتے ہوئے ان کی ہر ہر بات و اعتراض کا معقول و تسلی بخش جواب فراہم کریں۔ یہ ایک نہایت صبر آزما، کٹھن اور دقت طلب مرحلہ ہوتا ھے۔ لازمی ھے کہ اس مرحلے میں امن و تحمل کے اصول پر قائم رہا جائے ، کسی قیمت پر تشدد اور جھگڑ ا نہ کیا جائے ، مخالفین کی ڈالی ہوئی رکاوٹوں اور ان کی دی ہوئی اذیتوں اور تکلیفوں کا حوصلہ مندی و استقامت کے ساتھ سامنا کیا جائے اور اپنی تمام طاقت و صلاحیت اور قابلیت و لیاقت اپنے فکر و نظریہ کے حوالے سے افرادِ سماج کے ذہن کو صاف کرنے اور ان کے دلوں کو مطمئن کرنے پر صرف کی جائے۔

اس طرح جب آپ اپنے فکر و نظرئیے کی قوت افرادِ سماج کی ایک قابلِ قدر تعداد پر ثابت کر دیتے اور ان کو اپنا ہمنوا و حامی بنالینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ وقت آتا ھے جب خود افرادِ سماج اس فکر و نظریہ سے بغاوت و انحراف پر مبنی ماحول و نظام کو برداشت کرنے کے روادار نہیں رہتے اور بالکل فطری طریقے سے اس سماج میں خوبیاں جڑ پکڑ تی اور خرابیاں دم توڑ تی چلی جاتی ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ فکر و نظریہ اور اس کی بنیاد پر وجود میں آنے والا ماحول و نظام سماج میں رائج ماحول و نظام کو دیس نکالا دینا اور اس سماج کی زندگی سے باہر نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح بالکل قدرتی اور پائدار طریقے سے کوئی فکر و نظریہ کسی معاشرے میں اپنی جڑ یں جماتا اور مضبوط بناتا ھے اور دھیرے دھیرے آنے والا یہ انقلاب ایک دن اس مقام تک جاپہنچتا ھے کہ افرادِ معاشرہ کی اکثریت اور ان کے مؤثر و مقتدر طبقات سب اس فکر و نظریہ کے علمبردار بن جاتے اور اس پر مبنی ماحول و نظام کے طالب و متمنی نظر آتے ہیں اور پھر اس سوسائٹی میں اپنے آپ بغیر کسی جبر و تشدد کے کسی دوسری فکر کا غالب رہنا اور اس پر مبنی ماحول و نظام کا چلنا محال و ناممکن ہوجاتا ھے۔

تاہم ہماری حکمران اشرافیہ ( چاھے اس کی شکل کوئی بھی ہو) کے پاس حقیقتاً ایک ہی حل ھے کہ کسی نہ کسی طرح عوام کو بیوقوف بنا کرموجودہ نظام کو قا ئم و دائم رکھتے ہوئے سامراج کے وفا شعار گماشتے بن کر سامراجی جنگیں کرتے، آٹا نہ ہونے کے باوجودسامراج سے ناکارہ ہتھیارخریدنے کی آڑ میں, اس خدمت کے معاوضے کے طور پر بھاری غیر ملکی قرضوں کا بوجھ غریب عوام پر لادتے اور ان میں خرد برد سے اپنی بندر بانٹ کا سلسلہ جاری و ساری رکھیں۔ تاہم عوام کو ایک بات ضرور ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ موجودہ نظام سے کسی طرح بھی مستفید ہونیوالا کوئی گروہ اگر ایک بار پھر نجات دہندہ کا روپ دھار کر عوام کو بیوقوف بنانے کا قصد کرتا ھے تو یہ دراصل ایک بار پھر عوامی غیظ و غضب کو وقتی طور پر ٹالنے کی ایک ردِ انقلابی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ نیز یہ حقیقت ھے کہ پاکستان کی مٹھی بھر دولتمند اشرافیہ جو جاگیرداروں، بینکاروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ھے اور جسے کرپٹ ملا کی حمایت بھی حاصل ھے، نے آپس میں ایک مضبوط خفیہ عوام دشمن اتحاد تشکیل دیاہواھے ، جس نے یہ قسم اٹھارکھی ھے کہ سماج میں کسی قسم کی عمومی خوشحالی اور ترقی نہیں آنے دینی ،ہاں مگر صرف وہی ترقی اور خوشحالی جو کہ صرف ان کے اپنے لئے ہی ہو۔ چنانچہ جب تک اس اقلیتی استحصالی اشرافیہ کی غلاظت سے چھٹکارا حاصل نہیں کیاجاتا اور مڈل کلاس سے نئی انقلابی قیادت سامنے نہیں لائی جاتی جس کے پاس متبادل پروگرام اور عوامی مسائل کا واضح حل موجود ہو، پاکستان میں کسی بھی نوعیت کی تبدیلی کا سوال اور امکان ہی پیدانہیں ہوسکتا۔


ஜ۩۞۩ஜ اِبنِ اُمید ஜ۩۞۩ஜ
http://www.ibn-e-Umeed.com/

:pakistan-flag-wavin
 
Last edited:

ibn-e-Umeed

Citizen
- پاکستان: انقلاب کابھوت او رحکمران اشرافی&#17

▓▓░ پاکستان : انقلاب کابھوت او ر حکمران اشرافیہ ۔ اِبنِ اُمید ░▓▓
ஜ۩۞۩ஜ اِبنِ اُمید ஜ۩۞۩ஜ
http://www.ibn-e-Umeed.com/

71516_161707137195128_124089857623523_347418_3005060_n.jpg

ہمارا پیارا ملک پاکستان جسے 1947ء میں گورا صاحب تو آذاد کرکے چل دئیے مگر تب سے ان کے گماشتہ بھورے صاحب (جنہیں ہم عرفِ عام میں حکمران اشرافیہ بھی کہتے ہیں) نے ہمیں غلام بنارکھا ھے جو مٹھی گرم کرنے پر کبھی تو پرائیویٹائزیشن کے نام پر قیمتی صنعتی اور معدنی اثاثے اونے پو نے داموں دورِ حاضر کی ایسٹ انڈیا کمپنیوں کے نام کر دیتے ہیں تو کبھی وسیع و عریض ذرخیز نہری زمینیں کارپوریٹ فارمنگ کی آڑ میں غیر ملکی آقاﺅں کو انعام میں دے دیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اپنے شہریوں کو غیر ملکی زرِمبادلہ کمانے کےلئے بیچنے سے بھی نہیں چوکتے ۔ حتی کہ سامراج کی جنگ میں پیسے لے کر اپنے ہی شہریوں کا قتلِ عام کر کے فرنٹ لائن سٹیٹ کہلوانے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔

مشہور دانشور ایلن وڈذ کے بقول ہم تاریخ ِانسانی کے اس دور میں رہ رھے ہیں جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیش رفت نے معجزات کو انسان کیلئے معمول بناکے رکھ دیا ھے۔ آج ایک انسان کو چاند پر بھیجا جاسکتا ھے اور انسان کئی سیٹلائٹ خلاءمیں بھیج کر کائنات اور ارض وسماء کی ان دیکھی وسعتوں اور ان کے اسرارورموز کو اپنی مٹھی میں لاسکتے ہیں اور لا رھے ہیں نیز نت نئی ایجادات نے انسانی زندگی کو نہایت پرآسائش بنا دیا ھے۔ لیکن اسی ترقی یافتہ اکیسویں صدی میں ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں کروڑوں انسان انتہائی ابتدائی اور قدیم ترین سطح کے معیارزندگی کی طرف بتدریج کھنچے چلے جارھے ہیں ۔ پاکستان جیسے ملک میں حالیہ ہولناک سیلاب سے پہلے بھی یہی کیفیت تھی اور مہنگائی، بیروزگاری ، دہشت گردی اورلوڈشیڈنگ کی ماری بیچاری غریب عوام کا جینا پہلے بھی دوبھر ہوا ہوا تھا جبکہ سیلاب کے بعد کروڑوں انسان زندگی کی رمق ڈھونڈنے میں سرگرداں ہوچکے ہیں اور زندگی ھے کہ اس کا دامن ان کروڑوں محروم ومقہورانسانوں کے ہاتھوں سے چھوٹتاہی چلا جارہاھے۔

آج نفرت،بغاوت اور احساس محرومی کی آگ میں جلتا ہوا پاکستان آتش فشاں کے دھانے پرکھڑا ھے۔ اشرافیہ کا نافذ کردہ موجودہ نظام یا نوٹنکی کی اصلیت اب عوام پر واضح ہو چکی ھے کہ یہ ایک مخصوص طبقے کے مفادات کا تحفظ کر رہا ھے لہذا عوام کی اکثر یت اس نظام سے نا لاں ھے اور اس سے نجات چا ہتی ھے لیکن مراعات یا فتہ طبقہ اس نظام کو ہر حال میں قائم و دائم رکھنا چا ہتا ھے کیونکہ یہ انکے مفادات کا ترجمان اور محافظ ھے۔ پچھلے63سالوں میں چند خاندا نو ں کے غلبے نے پاکستانی عوام کو بغاوت پر آمادہ کر دیا ھے وہی چند چہرے، وہی چند خاندان اور وہی چند نام جو اس ملک کے مقدر کے ساتھ جونکو ں کی طرح چمٹے ہو ئے ہیں اور اسکا خون چوس چوس کر اسے حالتِ نزا ع تک لے آئے ہیں لہذ ا اب عوام ان سے مکمل نجات چا ہتے ہیں۔ کارخا نوں، جا گیرو ں اور بینکوں کے یہ مالکان جنکی مٹھی میں اسٹیبلشمنٹ کی ساری قوت بند ھے غریب عوام کو اپنی خوا ہشوں کا اسیر بنا کر انھیں انتہا ئی کسمپر سی کی زندگی گزا نے پر مجبور کر ر ھے ہیں لیکن عوام غلامی کی ان زنجیروں کو توڑ کر اپنے مقدر کا باب خود اپنے ہا تھوں سے لکھنا چا ہتے ہیں لیکن انہیں کوئی راہ سجھا ئی نہیں دے رہی۔ بقولِ شاعر

آذاد ہُوا تھا دیس مگر
ہم آج تلک آذاد نہیں
یاں چور لٹیرے قابض ہیں
اور خلقِ خُدا کا راج نہیں
اَب نصف صدی کے پار کھڑے
اِک سوچ میں ہیں، یاں اہلِ وطن
نسلوں کی اِس فرمانبرداری میں
کیا کھویا اور کیا پایا ھے؟

طبقات میں بانٹ کے رکھا ھے
جیون کو، علم و دولت کو
لفظوں کے گورکھ دھندے میں
خوشحالی کے بہلاوے ہیں
غُربت کی با تیں فیشن ہیں
اِن اُمراء کے درباروں میں
محروم کھڑی ھے خلقِ خُدا
یاں دولت کے انباروں میں
(اِبنِ اُمید)
www.ibn-e-Umeed.com


یہ 2جولائی 1789ء کا دن تھا اور پیرس شہر تھا۔پیرس کی مشہورزمانہ سٹرک شانزے لیزےکے ایک سرے پرلوگوں کا مجمع لگاتھا۔مجمعے کے اندر ایک شاہی محافظ ایک غریب اور مسکین شخص کو پیٹ رہا تھا۔ محافظ اس شخص کوٹھڈوں ،مکوں اورڈنڈوں سے مار رہا تھا او ر درجنوں لوگ یہ منظر دیکھ رھے تھے جبکہ پٹنے والا دہائی دے رہا تھا، منتیں کر رہا تھا اورمحافظ کے پاؤں پڑ رہا تھا۔ پٹائی کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ مجمعے کے اندر سے کسی نے محافظ کو ایک پتھر ماردیا۔محافظ تڑپ کرمجمعے کی طرف مڑا اور مجمعے کو گالی دے کرپوچھا : یہ کون گستاخ ھے؟ مجمعے میں سے کوئی شخص باہر نہ نکلا۔ محافظ بپھر گیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مجمعے پرلاٹھیاں برسانا شروع کردی۔مجمعے نے ری ایکٹکیا۔ لوگوں نے محافظوں کوپکڑا اور مارنا شروع کردیا۔محافظوں کوبچانے کے لیے نئے محافظ آئے لیکن وہ بھپرے ہوئے مجمعے کا مقابلہ نہ کرسکے اور میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس حادثے میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور شاہی محافظوں کی یہ دونعشیں آگے چل کرانقلاب فرانس کی بنیاد بنیں۔لوگوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوا اور طاقت کے اس اندازے سے 14جولائی 1789ء کا سورج نویدِ انقلاب بن کر طلوع ہوا اور بلآخربادشاہت کاخاتمہ ہوگیا۔

انقلاب فرانس کی وجوہات پر اگر غور کریں تو فرانس میں ان دنوں بادشاہ کے پاس وسیع اختیارات تھے اور اس نے یہ اختیارات اپنے منظور نظر لوگوں میں تقسیم کررکھے تھے۔مثلا :آپ عدالتی نظام کو لیجئیے۔فرانس میں تمام عدالتی منصب باقاعدہ فروخت کیے جاتے تھے۔دولت مند لوگ عدالتی منصب خریدتے تھے اور ان کے مرنے کے بعد یہ عہدے وراثت میں چلے جاتے تھے۔یہ لوگ یہ عہدے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں بیچ بھی سکتے تھے۔اس زمانے میں ججوں کی تنخواہیں قلیل تھیں لہذا وہ مقدمہ بازوں سے بھاری بھاری رشوتیں لیتے تھے اور ان رشوتوں کو جائز سمجھاجاتا تھا اوربادشاہ کوکسی بھی شخص کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار تھا۔ آپ پارلیمنٹ کولے لیجیئے۔فرانس میں پارلیمنٹ آف پیرس کے علاوہ بارہ صوبائی پارلیمنٹس تھیں اور ان پارلیمنٹس کا صرف ایک ہی کام ہوتا تھا۔یعنی بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اورآئینی شکل دینا۔فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے۔ یہ ٹیکس صرف اورصرف عوام پرلاگو تھے جبکہ امراء جاگیردار ،بیوروکریٹس ،شاہی خاندان اورپادری ٹیکسوں سے مادرا تھے۔ حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی کاکام ٹھیکے داروں کے حوالوں کررکھا تھا اوریہ ٹھیکیدار ٹیکسوں کی وصولی کے لیے کسی شخص کی جان تک لے سکتے تھے۔ٹھیکداروں کے ملازمین ملک بھر میں پھیل جاتے تھے اورٹیکس جمع کرنے کے بہانے لوگوں کوخوب لوٹتے تھے۔ فرانس میں فوجی اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی بھاری ٹیکس تھا۔اس ٹیکس کو ٹیلی ٹیکس کہا جاتا تھا۔ٹیکسوں کا یہ عالم تھاکہ حکومت نے عوام پرنمک ٹیکس تک لگا رکھاتھاجس کے تحتفرانس میں سات سال سے زائد عمر کے ہرشخص کو نمک استعمال کرنے پرسالانہ ٹیکس دینا پڑتا تھا اور اس ٹیکس کی عدم ادائیگی پرفرانس میں ہرسال تین ہزار سے زائد افراد کو قید ،کوڑوں اور ملک بدری کی سزا دی جاتی تھی۔

آپ فرانس کے معاشرتی ڈھانچے کوبھی لے لیجئیے۔فرانس کا معاشرتی نظام طبقاتی تقسیم کا شکار تھا۔آبادی پادری ،امرا اورعوام میں بٹی ہوئی تھی۔چرچ کی آمدنی پادریوں کی جیبوں میں چلی جاتی تھی۔ اسٹراس برگ کا پادری سال میں چار لاکھ لیراکمالیتا تھا جبکہ عام پادر کی آمدن بھی ایک لاکھ سے دولاکھ تھی۔فرانس میں امر ااورجاگیر دار خاندانوں کی تعداد بیس سےتیس ہزار تھی جبکہ ملک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پادری تھے اور ان میں سے دس ہزار اعلی پادری تھے جبکہ چھوٹے پادریوں کی تعدادساٹھ ہزار تھی۔ اس وقت فرانس کی آبادی اڑھائی کروڑ تھی اور ان اڑھائی کروڑ لوگوں میں سے چار پانچ لاکھ لوگ مراعات یافتہ تھے۔گویا چار لاکھ لوگ اڑھائی کروڑ لوگوں کی کمائی کھاتے تھے۔ ان دنوں فرانس میں ایک قول بہت مشہور تھا: امرا جنگ کرتے ہیں۔پادری دعامانگتے ہیں جبکہ عوام ان کا مالی بوجھ برداشت کرتے ہیں ۔ فرانس ایک زرعی ملک تھا جس میں دوکروڑ سے زائد لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن ان لوگوں کی کمائی ٹیکسوں کی نذرہوجاتی تھی۔کسان جاگیرداروں کے رحم وکرم پرتھے۔وہ جاگیر داروں کی اجازت کے بغیر اپنی زمینوں کے گردباڑھ نہیں لگاسکتے تھے اور فصلوں کوخراب کرنے والے جنگلی جانوروں اورپرندوں کوہلاک نہیں کرسکتے تھے۔اس دور میں فرانس میں قانون کی تمام کتابیں لاطینی زبان میں تھیں اور عوام اس زبان سے واقف نہیں تھے۔ملک میں 360 اقسام کے قوانین تھے۔عوام کومعمولی جرائم پرکڑی سزائیں دی جاتی تھیں جبکہ امر قانون سے بالاتر تھے۔ بادشاہ پیرس سے بارہ میل دور ورسائی کے محلات میں رہتا تھا۔اس کے دربار میں اٹھارہ ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔محل میں سولہ ہزار شاہی خادم تھے۔صرف ملکہ کی خادماؤں کی تعداد پانچ سوتھی۔شاہی اصطبل میں انیس سوگھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے چالیس لاکھ لیرا سالانہ خرچ ہوتے تھے اورباورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ لیرا تھا۔ بادشاہ کی ان شاہ خرچیوں کے سبب فرانس چار بار دیوالیہ ہوچکا تھا۔دولاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوچکے تھے۔فرانس میں روٹی کی قمیت چارلیراتک پہنچ چکی تھی۔ سالانہ خسارہ 15 کروڑ لیرا اورقرضوں کی رقم چار ارب چالیس کروڑ لیرا تھی اور 23کروڑ 60 لاکھ لیرا سالانہ بطورسُود اداکیا جاتا تھا اور فرانس کی کل آمدنی کا تین چوتھائی حصہ فوجی اخراجات پرصرف ہوجاتا تھا۔ملک کے جیل خانے معصوم اوربے قصورلوگوں سے بھرے پڑے تھے لہذا ان حالات میں عوام کے اندر نظام کے خلاف نفر ت ابلنے لگی۔ اس نفرت کو 14جولائی 1789ء میں میٹریل لائز ہونے کا موقع مل گیا۔پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔

اکثرکہا جاتا ھے کہ آج کے پاکستان اور 18ویں صدی کے قبل از انقلاب فرانس میں بہت مماثلت ھے اور پاکستان کے اندر بھی ایک ایسا ہی لاوا ابل رہا ھے جو باہر نکلنے کا راستہ تلاش کررہا ھے جوبلا شبہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت بھی ھے لیکن اگر ہم انقلابات کی تاریخ اور سائینسی میکنزم کو فرانسیسی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش میں انقلاب کے اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیں تو ہمیں مماثلات کے باوصف واضح تضادات یا زمینی حقائق کوقطعاً نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً انقلابِ فرانس سے قبل فرانسیسی معاشرے میں ایک مضبوط علمی روایت اور ادبی تحریک کی بنیاد موجود تھی جس کے سرخیل ادیبوں اور مفکروں میں والٹیر او ر روسو نمایاں تھے. انہوں نے پرانی روایات کو مسلسل چیلنج کیا اور ایک روشن خیال معاشرہ تخلیق کرنے کی کوشش کی اور ان ہی کی کوششوں نے سیاسی طور پر ایک باشعور اور متحرک متوسط طبقہ پر مشتمل ایک نئی نسل کی تربیت کی جو آخر کارانقلابِ فرانس کا سبب بنی۔ نیز انقلاب کی ایک اور بنیادی شرط ایک فعال انقلابی تنظیم کی موجودگی ھے جس کے پاس متبادل نظام تشکیل دینے کیلئے ایک واضح لائحہ عمل ہو۔

ہمارے وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا فرماتے ہیں موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے اگر ریڈیکل اقدامات نہ کئے گئے تو متاثرہ کروڑوں انسان ،مایوسی اور غصے کی کیفیت میں،شہروں پر دھاوا بول سکتے ہیں۔ یہ الفاظ دراصل پاکستان کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے اس خوف کی عکاسی کرتے ہیں،جو ان کے دماغوں پر ایک بھوت کی طرح سوار ہوچکاھے اور ان کی نیندیں حرام کررہاھے۔یہ الفاظ اسلام آباد اور وہاں سے دور بیٹھے حکمران طبقات کی سوچوں میں پیداہوچکی کھلبلی کی نشاندہی کررھے ہیں کیونکہ وہ محسوس کرچکے ہیں کہ صورتحال قابو سے باہر ہونا شروع ہوچکی ھے۔عالمی اور مقامی حکمران طبقہ یہ جان چکاھے کہ حکومت عوام الناس کا ستیا ناس کردینے والے مسائل سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ھے اوروہ ڈرے ہوئے ہیں کہ ان مسائل سے تنگ آچکے لوگ کہیں سرکشی پر اتر آئے تو شاید ان سامراج کے گماشتوں کو بھاگنے کا موقع بھی نہیں ملے گا اورعوام ظالم اشرافیہ کے ان کرداروں کو اسلام آباد کے کھمبوںسے لٹکا کر اپنے غصے کی آگ ٹھنڈی کریں گے۔

مشہور دانشور ایلن وڈذ کے بقول موجود ہ حکومت کے دن یقینی طورپر گنے جاچکے ہیں لیکن سوال یہ ھے کہ کون اس کی جگہ لے گا اور کیا کرے گا؟یہاں تک کہ اگر فوج بھی (ظاہر یا درپردہ) آتی ھے ( جس کا امکان موجودھے) توجرنیل کیا کریں گے؟ کیونکہ اب کاسمیٹک تبدیلی سے عوام کے مسائل حل ہونے والے نہیں اور اب شاید عوام کو زیادہ لمبے عرصے تک مذید بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا لہذا کسی بھی آنیوالے حکمران کی نااہلی و بانجھ پن بہت جلد سب پر عیاں ہو جائے گا اور ایک انتہاؤں کو چھوتی بدترین ابتری کی کیفیت میں فوج لمبے عرصے کیلئے اقتدار کے سنگھاسن پر نہیں بیٹھ سکے گی چونکہ اب کے کوئی بھی حکومت سماج میں موجودہ جھلستے مسائل سے مکمل انقلاب کے بغیرنہیں نمٹ سکے گی۔ بے روزگاری کو کوئی قید نہیں کرسکتا اور مہنگائی کو بندوقوں اور توپوں سے نہیں مارا جا سکتا۔ نپولین نے ایک بار کہاتھا کہ آپ سنگینوں سے ہر قسم کا کام لے سکتے ہیں لیکن ان پر بیٹھ نہیں سکتے۔ایک سماجی بنیاد سے محرومی کی حالت میں فوجی اقتدار زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ ایک سماجی دھماکہ اس فوجی اقتدار کو اپنا نشانہ بنا سکتاھے جیسا کہ1968ء میں جنرل ایوب کے ساتھ ہواتھا۔

آج کل ہمارے ہاں ہر روائتی لیڈراور دانشور بھی سماج میں ریڈیکل تبدیلی کی ضرورت کاواویلا کرتا نظرآتاھے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں انقلاب سیاسی اقتدار کی تبدیلی کو سمجھ لیا گیا ھے جو کہ انقلاب کا نہایت فرسودہ اور محدود تصور ھے حالانکہ انقلاب مکمل تبدیلی اور کامل تغیر کا نام ھے۔ اگر آپ کسی معاشرے کو بدلنا چاہتے اور تمام تر اجتماعی نظام کو کسی خاص ڈھنگ پر استوار کرنا اور کسی مخصوص فکر و نظریے پر ڈھالنا چاہتے ہیں تو اس کام کی ابتد ا فقط سیاسی جنگ کے میدان میں زور آزمائی کرنے سے نہیں ہو گی بلکہ اس کے لیے ضروری ہو گا کہ آپ اس فکر کو میدان میں لائیں ، اس نظریے کی قوت و برتری پر اس معاشرے کی اکثریت کو قائل کریں ، اس کے حوالے سے ان کے شکوک و شبہات، خدشات و خطرات اور سوالات و اعتراضات کا سامنا کرتے ہوئے ان کی تشفی اور اطمینان کا سامان کریں ، اس فکر و نظریے کے مخالفین کے پیدا کردہ شوشوں ، افوا ہوں اور بے جا تنقیدوں کی قلعی کھولتے ہوئے ان کی ہر ہر بات و اعتراض کا معقول و تسلی بخش جواب فراہم کریں۔ یہ ایک نہایت صبر آزما، کٹھن اور دقت طلب مرحلہ ہوتا ھے۔ لازمی ھے کہ اس مرحلے میں امن و تحمل کے اصول پر قائم رہا جائے ، کسی قیمت پر تشدد اور جھگڑ ا نہ کیا جائے ، مخالفین کی ڈالی ہوئی رکاوٹوں اور ان کی دی ہوئی اذیتوں اور تکلیفوں کا حوصلہ مندی و استقامت کے ساتھ سامنا کیا جائے اور اپنی تمام طاقت و صلاحیت اور قابلیت و لیاقت اپنے فکر و نظریہ کے حوالے سے افرادِ سماج کے ذہن کو صاف کرنے اور ان کے دلوں کو مطمئن کرنے پر صرف کی جائے۔

اس طرح جب آپ اپنے فکر و نظرئیے کی قوت افرادِ سماج کی ایک قابلِ قدر تعداد پر ثابت کر دیتے اور ان کو اپنا ہمنوا و حامی بنالینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ وقت آتا ھے جب خود افرادِ سماج اس فکر و نظریہ سے بغاوت و انحراف پر مبنی ماحول و نظام کو برداشت کرنے کے روادار نہیں رہتے اور بالکل فطری طریقے سے اس سماج میں خوبیاں جڑ پکڑ تی اور خرابیاں دم توڑ تی چلی جاتی ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ فکر و نظریہ اور اس کی بنیاد پر وجود میں آنے والا ماحول و نظام سماج میں رائج ماحول و نظام کو دیس نکالا دینا اور اس سماج کی زندگی سے باہر نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح بالکل قدرتی اور پائدار طریقے سے کوئی فکر و نظریہ کسی معاشرے میں اپنی جڑ یں جماتا اور مضبوط بناتا ھے اور دھیرے دھیرے آنے والا یہ انقلاب ایک دن اس مقام تک جاپہنچتا ھے کہ افرادِ معاشرہ کی اکثریت اور ان کے مؤثر و مقتدر طبقات سب اس فکر و نظریہ کے علمبردار بن جاتے اور اس پر مبنی ماحول و نظام کے طالب و متمنی نظر آتے ہیں اور پھر اس سوسائٹی میں اپنے آپ بغیر کسی جبر و تشدد کے کسی دوسری فکر کا غالب رہنا اور اس پر مبنی ماحول و نظام کا چلنا محال و ناممکن ہوجاتا ھے۔

تاہم ہماری حکمران اشرافیہ ( چاھے اس کی شکل کوئی بھی ہو) کے پاس حقیقتاً ایک ہی حل ھے کہ کسی نہ کسی طرح عوام کو بیوقوف بنا کرموجودہ نظام کو قا ئم و دائم رکھتے ہوئے سامراج کے وفا شعار گماشتے بن کر سامراجی جنگیں کرتے، آٹا نہ ہونے کے باوجودسامراج سے ناکارہ ہتھیارخریدنے کی آڑ میں, اس خدمت کے معاوضے کے طور پر بھاری غیر ملکی قرضوں کا بوجھ غریب عوام پر لادتے اور ان میں خرد برد سے اپنی بندر بانٹ کا سلسلہ جاری و ساری رکھیں۔ تاہم عوام کو ایک بات ضرور ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ موجودہ نظام سے کسی طرح بھی مستفید ہونیوالا کوئی گروہ اگر ایک بار پھر نجات دہندہ کا روپ دھار کر عوام کو بیوقوف بنانے کا قصد کرتا ھے تو یہ دراصل ایک بار پھر عوامی غیظ و غضب کو وقتی طور پر ٹالنے کی ایک ردِ انقلابی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ نیز یہ حقیقت ھے کہ پاکستان کی مٹھی بھر دولتمند اشرافیہ جو جاگیرداروں، بینکاروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ھے اور جسے کرپٹ ملا کی حمایت بھی حاصل ھے، نے آپس میں ایک مضبوط خفیہ عوام دشمن اتحاد تشکیل دیاہواھے ، جس نے یہ قسم اٹھارکھی ھے کہ سماج میں کسی قسم کی عمومی خوشحالی اور ترقی نہیں آنے دینی ،ہاں مگر صرف وہی ترقی اور خوشحالی جو کہ صرف ان کے اپنے لئے ہی ہو۔ چنانچہ جب تک اس اقلیتی استحصالی اشرافیہ کی غلاظت سے چھٹکارا حاصل نہیں کیاجاتا اور مڈل کلاس سے نئی انقلابی قیادت سامنے نہیں لائی جاتی جس کے پاس متبادل پروگرام اور عوامی مسائل کا واضح حل موجود ہو، پاکستان میں کسی بھی نوعیت کی تبدیلی کا سوال اور امکان ہی پیدانہیں ہوسکتا۔


ஜ۩۞۩ஜ اِبنِ اُمید ஜ۩۞۩ஜ
http://www.ibn-e-Umeed.com/

:pakistan-flag-wavin
 

ibn-e-Umeed

Citizen
پاکستان:انقلاب کابھوت او رحکمران اشرافیہ

▓▓░ پاکستان : انقلاب کابھوت او ر حکمران اشرافیہ ۔ اِبنِ اُمید ░▓▓
ஜ۩۞۩ஜ اِبنِ اُمید ஜ۩۞۩ஜ
http://www.ibn-e-Umeed.com/

71516_161707137195128_124089857623523_347418_3005060_n.jpg

ہمارا پیارا ملک پاکستان جسے 1947ء میں گورا صاحب تو آذاد کرکے چل دئیے مگر تب سے ان کے گماشتہ بھورے صاحب (جنہیں ہم عرفِ عام میں حکمران اشرافیہ بھی کہتے ہیں) نے ہمیں غلام بنارکھا ھے جو مٹھی گرم کرنے پر کبھی تو پرائیویٹائزیشن کے نام پر قیمتی صنعتی اور معدنی اثاثے اونے پو نے داموں دورِ حاضر کی ایسٹ انڈیا کمپنیوں کے نام کر دیتے ہیں تو کبھی وسیع و عریض ذرخیز نہری زمینیں کارپوریٹ فارمنگ کی آڑ میں غیر ملکی آقاﺅں کو انعام میں دے دیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اپنے شہریوں کو غیر ملکی زرِمبادلہ کمانے کےلئے بیچنے سے بھی نہیں چوکتے ۔ حتی کہ سامراج کی جنگ میں پیسے لے کر اپنے ہی شہریوں کا قتلِ عام کر کے فرنٹ لائن سٹیٹ کہلوانے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔

مشہور دانشور ایلن وڈذ کے بقول ہم تاریخ ِانسانی کے اس دور میں رہ رھے ہیں جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیش رفت نے معجزات کو انسان کیلئے معمول بناکے رکھ دیا ھے۔ آج ایک انسان کو چاند پر بھیجا جاسکتا ھے اور انسان کئی سیٹلائٹ خلاءمیں بھیج کر کائنات اور ارض وسماء کی ان دیکھی وسعتوں اور ان کے اسرارورموز کو اپنی مٹھی میں لاسکتے ہیں اور لا رھے ہیں نیز نت نئی ایجادات نے انسانی زندگی کو نہایت پرآسائش بنا دیا ھے۔ لیکن اسی ترقی یافتہ اکیسویں صدی میں ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں کروڑوں انسان انتہائی ابتدائی اور قدیم ترین سطح کے معیارزندگی کی طرف بتدریج کھنچے چلے جارھے ہیں ۔ پاکستان جیسے ملک میں حالیہ ہولناک سیلاب سے پہلے بھی یہی کیفیت تھی اور مہنگائی، بیروزگاری ، دہشت گردی اورلوڈشیڈنگ کی ماری بیچاری غریب عوام کا جینا پہلے بھی دوبھر ہوا ہوا تھا جبکہ سیلاب کے بعد کروڑوں انسان زندگی کی رمق ڈھونڈنے میں سرگرداں ہوچکے ہیں اور زندگی ھے کہ اس کا دامن ان کروڑوں محروم ومقہورانسانوں کے ہاتھوں سے چھوٹتاہی چلا جارہاھے۔

آج نفرت،بغاوت اور احساس محرومی کی آگ میں جلتا ہوا پاکستان آتش فشاں کے دھانے پرکھڑا ھے۔ اشرافیہ کا نافذ کردہ موجودہ نظام یا نوٹنکی کی اصلیت اب عوام پر واضح ہو چکی ھے کہ یہ ایک مخصوص طبقے کے مفادات کا تحفظ کر رہا ھے لہذا عوام کی اکثر یت اس نظام سے نا لاں ھے اور اس سے نجات چا ہتی ھے لیکن مراعات یا فتہ طبقہ اس نظام کو ہر حال میں قائم و دائم رکھنا چا ہتا ھے کیونکہ یہ انکے مفادات کا ترجمان اور محافظ ھے۔ پچھلے63سالوں میں چند خاندا نو ں کے غلبے نے پاکستانی عوام کو بغاوت پر آمادہ کر دیا ھے وہی چند چہرے، وہی چند خاندان اور وہی چند نام جو اس ملک کے مقدر کے ساتھ جونکو ں کی طرح چمٹے ہو ئے ہیں اور اسکا خون چوس چوس کر اسے حالتِ نزا ع تک لے آئے ہیں لہذ ا اب عوام ان سے مکمل نجات چا ہتے ہیں۔ کارخا نوں، جا گیرو ں اور بینکوں کے یہ مالکان جنکی مٹھی میں اسٹیبلشمنٹ کی ساری قوت بند ھے غریب عوام کو اپنی خوا ہشوں کا اسیر بنا کر انھیں انتہا ئی کسمپر سی کی زندگی گزا نے پر مجبور کر ر ھے ہیں لیکن عوام غلامی کی ان زنجیروں کو توڑ کر اپنے مقدر کا باب خود اپنے ہا تھوں سے لکھنا چا ہتے ہیں لیکن انہیں کوئی راہ سجھا ئی نہیں دے رہی۔ بقولِ شاعر

آذاد ہُوا تھا دیس مگر
ہم آج تلک آذاد نہیں
یاں چور لٹیرے قابض ہیں
اور خلقِ خُدا کا راج نہیں
اَب نصف صدی کے پار کھڑے
اِک سوچ میں ہیں، یاں اہلِ وطن
نسلوں کی اِس فرمانبرداری میں
کیا کھویا اور کیا پایا ھے؟

طبقات میں بانٹ کے رکھا ھے
جیون کو، علم و دولت کو
لفظوں کے گورکھ دھندے میں
خوشحالی کے بہلاوے ہیں
غُربت کی با تیں فیشن ہیں
اِن اُمراء کے درباروں میں
محروم کھڑی ھے خلقِ خُدا
یاں دولت کے انباروں میں
(اِبنِ اُمید)
www.ibn-e-Umeed.com


یہ 2جولائی 1789ء کا دن تھا اور پیرس شہر تھا۔پیرس کی مشہورزمانہ سٹرک شانزے لیزےکے ایک سرے پرلوگوں کا مجمع لگاتھا۔مجمعے کے اندر ایک شاہی محافظ ایک غریب اور مسکین شخص کو پیٹ رہا تھا۔ محافظ اس شخص کوٹھڈوں ،مکوں اورڈنڈوں سے مار رہا تھا او ر درجنوں لوگ یہ منظر دیکھ رھے تھے جبکہ پٹنے والا دہائی دے رہا تھا، منتیں کر رہا تھا اورمحافظ کے پاؤں پڑ رہا تھا۔ پٹائی کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ مجمعے کے اندر سے کسی نے محافظ کو ایک پتھر ماردیا۔محافظ تڑپ کرمجمعے کی طرف مڑا اور مجمعے کو گالی دے کرپوچھا : یہ کون گستاخ ھے؟ مجمعے میں سے کوئی شخص باہر نہ نکلا۔ محافظ بپھر گیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مجمعے پرلاٹھیاں برسانا شروع کردی۔مجمعے نے ری ایکٹکیا۔ لوگوں نے محافظوں کوپکڑا اور مارنا شروع کردیا۔محافظوں کوبچانے کے لیے نئے محافظ آئے لیکن وہ بھپرے ہوئے مجمعے کا مقابلہ نہ کرسکے اور میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس حادثے میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور شاہی محافظوں کی یہ دونعشیں آگے چل کرانقلاب فرانس کی بنیاد بنیں۔لوگوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوا اور طاقت کے اس اندازے سے 14جولائی 1789ء کا سورج نویدِ انقلاب بن کر طلوع ہوا اور بلآخربادشاہت کاخاتمہ ہوگیا۔

انقلاب فرانس کی وجوہات پر اگر غور کریں تو فرانس میں ان دنوں بادشاہ کے پاس وسیع اختیارات تھے اور اس نے یہ اختیارات اپنے منظور نظر لوگوں میں تقسیم کررکھے تھے۔مثلا :آپ عدالتی نظام کو لیجئیے۔فرانس میں تمام عدالتی منصب باقاعدہ فروخت کیے جاتے تھے۔دولت مند لوگ عدالتی منصب خریدتے تھے اور ان کے مرنے کے بعد یہ عہدے وراثت میں چلے جاتے تھے۔یہ لوگ یہ عہدے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں بیچ بھی سکتے تھے۔اس زمانے میں ججوں کی تنخواہیں قلیل تھیں لہذا وہ مقدمہ بازوں سے بھاری بھاری رشوتیں لیتے تھے اور ان رشوتوں کو جائز سمجھاجاتا تھا اوربادشاہ کوکسی بھی شخص کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار تھا۔ آپ پارلیمنٹ کولے لیجیئے۔فرانس میں پارلیمنٹ آف پیرس کے علاوہ بارہ صوبائی پارلیمنٹس تھیں اور ان پارلیمنٹس کا صرف ایک ہی کام ہوتا تھا۔یعنی بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اورآئینی شکل دینا۔فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے۔ یہ ٹیکس صرف اورصرف عوام پرلاگو تھے جبکہ امراء جاگیردار ،بیوروکریٹس ،شاہی خاندان اورپادری ٹیکسوں سے مادرا تھے۔ حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی کاکام ٹھیکے داروں کے حوالوں کررکھا تھا اوریہ ٹھیکیدار ٹیکسوں کی وصولی کے لیے کسی شخص کی جان تک لے سکتے تھے۔ٹھیکداروں کے ملازمین ملک بھر میں پھیل جاتے تھے اورٹیکس جمع کرنے کے بہانے لوگوں کوخوب لوٹتے تھے۔ فرانس میں فوجی اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی بھاری ٹیکس تھا۔اس ٹیکس کو ٹیلی ٹیکس کہا جاتا تھا۔ٹیکسوں کا یہ عالم تھاکہ حکومت نے عوام پرنمک ٹیکس تک لگا رکھاتھاجس کے تحتفرانس میں سات سال سے زائد عمر کے ہرشخص کو نمک استعمال کرنے پرسالانہ ٹیکس دینا پڑتا تھا اور اس ٹیکس کی عدم ادائیگی پرفرانس میں ہرسال تین ہزار سے زائد افراد کو قید ،کوڑوں اور ملک بدری کی سزا دی جاتی تھی۔

آپ فرانس کے معاشرتی ڈھانچے کوبھی لے لیجئیے۔فرانس کا معاشرتی نظام طبقاتی تقسیم کا شکار تھا۔آبادی پادری ،امرا اورعوام میں بٹی ہوئی تھی۔چرچ کی آمدنی پادریوں کی جیبوں میں چلی جاتی تھی۔ اسٹراس برگ کا پادری سال میں چار لاکھ لیراکمالیتا تھا جبکہ عام پادر کی آمدن بھی ایک لاکھ سے دولاکھ تھی۔فرانس میں امر ااورجاگیر دار خاندانوں کی تعداد بیس سےتیس ہزار تھی جبکہ ملک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پادری تھے اور ان میں سے دس ہزار اعلی پادری تھے جبکہ چھوٹے پادریوں کی تعدادساٹھ ہزار تھی۔ اس وقت فرانس کی آبادی اڑھائی کروڑ تھی اور ان اڑھائی کروڑ لوگوں میں سے چار پانچ لاکھ لوگ مراعات یافتہ تھے۔گویا چار لاکھ لوگ اڑھائی کروڑ لوگوں کی کمائی کھاتے تھے۔ ان دنوں فرانس میں ایک قول بہت مشہور تھا: امرا جنگ کرتے ہیں۔پادری دعامانگتے ہیں جبکہ عوام ان کا مالی بوجھ برداشت کرتے ہیں ۔ فرانس ایک زرعی ملک تھا جس میں دوکروڑ سے زائد لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن ان لوگوں کی کمائی ٹیکسوں کی نذرہوجاتی تھی۔کسان جاگیرداروں کے رحم وکرم پرتھے۔وہ جاگیر داروں کی اجازت کے بغیر اپنی زمینوں کے گردباڑھ نہیں لگاسکتے تھے اور فصلوں کوخراب کرنے والے جنگلی جانوروں اورپرندوں کوہلاک نہیں کرسکتے تھے۔اس دور میں فرانس میں قانون کی تمام کتابیں لاطینی زبان میں تھیں اور عوام اس زبان سے واقف نہیں تھے۔ملک میں 360 اقسام کے قوانین تھے۔عوام کومعمولی جرائم پرکڑی سزائیں دی جاتی تھیں جبکہ امر قانون سے بالاتر تھے۔ بادشاہ پیرس سے بارہ میل دور ورسائی کے محلات میں رہتا تھا۔اس کے دربار میں اٹھارہ ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔محل میں سولہ ہزار شاہی خادم تھے۔صرف ملکہ کی خادماؤں کی تعداد پانچ سوتھی۔شاہی اصطبل میں انیس سوگھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے چالیس لاکھ لیرا سالانہ خرچ ہوتے تھے اورباورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ لیرا تھا۔ بادشاہ کی ان شاہ خرچیوں کے سبب فرانس چار بار دیوالیہ ہوچکا تھا۔دولاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوچکے تھے۔فرانس میں روٹی کی قمیت چارلیراتک پہنچ چکی تھی۔ سالانہ خسارہ 15 کروڑ لیرا اورقرضوں کی رقم چار ارب چالیس کروڑ لیرا تھی اور 23کروڑ 60 لاکھ لیرا سالانہ بطورسُود اداکیا جاتا تھا اور فرانس کی کل آمدنی کا تین چوتھائی حصہ فوجی اخراجات پرصرف ہوجاتا تھا۔ملک کے جیل خانے معصوم اوربے قصورلوگوں سے بھرے پڑے تھے لہذا ان حالات میں عوام کے اندر نظام کے خلاف نفر ت ابلنے لگی۔ اس نفرت کو 14جولائی 1789ء میں میٹریل لائز ہونے کا موقع مل گیا۔پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔

اکثرکہا جاتا ھے کہ آج کے پاکستان اور 18ویں صدی کے قبل از انقلاب فرانس میں بہت مماثلت ھے اور پاکستان کے اندر بھی ایک ایسا ہی لاوا ابل رہا ھے جو باہر نکلنے کا راستہ تلاش کررہا ھے جوبلا شبہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت بھی ھے لیکن اگر ہم انقلابات کی تاریخ اور سائینسی میکنزم کو فرانسیسی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش میں انقلاب کے اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیں تو ہمیں مماثلات کے باوصف واضح تضادات یا زمینی حقائق کوقطعاً نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً انقلابِ فرانس سے قبل فرانسیسی معاشرے میں ایک مضبوط علمی روایت اور ادبی تحریک کی بنیاد موجود تھی جس کے سرخیل ادیبوں اور مفکروں میں والٹیر او ر روسو نمایاں تھے. انہوں نے پرانی روایات کو مسلسل چیلنج کیا اور ایک روشن خیال معاشرہ تخلیق کرنے کی کوشش کی اور ان ہی کی کوششوں نے سیاسی طور پر ایک باشعور اور متحرک متوسط طبقہ پر مشتمل ایک نئی نسل کی تربیت کی جو آخر کارانقلابِ فرانس کا سبب بنی۔ نیز انقلاب کی ایک اور بنیادی شرط ایک فعال انقلابی تنظیم کی موجودگی ھے جس کے پاس متبادل نظام تشکیل دینے کیلئے ایک واضح لائحہ عمل ہو۔

ہمارے وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا فرماتے ہیں موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے اگر ریڈیکل اقدامات نہ کئے گئے تو متاثرہ کروڑوں انسان ،مایوسی اور غصے کی کیفیت میں،شہروں پر دھاوا بول سکتے ہیں۔ یہ الفاظ دراصل پاکستان کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے اس خوف کی عکاسی کرتے ہیں،جو ان کے دماغوں پر ایک بھوت کی طرح سوار ہوچکاھے اور ان کی نیندیں حرام کررہاھے۔یہ الفاظ اسلام آباد اور وہاں سے دور بیٹھے حکمران طبقات کی سوچوں میں پیداہوچکی کھلبلی کی نشاندہی کررھے ہیں کیونکہ وہ محسوس کرچکے ہیں کہ صورتحال قابو سے باہر ہونا شروع ہوچکی ھے۔عالمی اور مقامی حکمران طبقہ یہ جان چکاھے کہ حکومت عوام الناس کا ستیا ناس کردینے والے مسائل سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ھے اوروہ ڈرے ہوئے ہیں کہ ان مسائل سے تنگ آچکے لوگ کہیں سرکشی پر اتر آئے تو شاید ان سامراج کے گماشتوں کو بھاگنے کا موقع بھی نہیں ملے گا اورعوام ظالم اشرافیہ کے ان کرداروں کو اسلام آباد کے کھمبوںسے لٹکا کر اپنے غصے کی آگ ٹھنڈی کریں گے۔

مشہور دانشور ایلن وڈذ کے بقول موجود ہ حکومت کے دن یقینی طورپر گنے جاچکے ہیں لیکن سوال یہ ھے کہ کون اس کی جگہ لے گا اور کیا کرے گا؟یہاں تک کہ اگر فوج بھی (ظاہر یا درپردہ) آتی ھے ( جس کا امکان موجودھے) توجرنیل کیا کریں گے؟ کیونکہ اب کاسمیٹک تبدیلی سے عوام کے مسائل حل ہونے والے نہیں اور اب شاید عوام کو زیادہ لمبے عرصے تک مذید بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا لہذا کسی بھی آنیوالے حکمران کی نااہلی و بانجھ پن بہت جلد سب پر عیاں ہو جائے گا اور ایک انتہاؤں کو چھوتی بدترین ابتری کی کیفیت میں فوج لمبے عرصے کیلئے اقتدار کے سنگھاسن پر نہیں بیٹھ سکے گی چونکہ اب کے کوئی بھی حکومت سماج میں موجودہ جھلستے مسائل سے مکمل انقلاب کے بغیرنہیں نمٹ سکے گی۔ بے روزگاری کو کوئی قید نہیں کرسکتا اور مہنگائی کو بندوقوں اور توپوں سے نہیں مارا جا سکتا۔ نپولین نے ایک بار کہاتھا کہ آپ سنگینوں سے ہر قسم کا کام لے سکتے ہیں لیکن ان پر بیٹھ نہیں سکتے۔ایک سماجی بنیاد سے محرومی کی حالت میں فوجی اقتدار زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ ایک سماجی دھماکہ اس فوجی اقتدار کو اپنا نشانہ بنا سکتاھے جیسا کہ1968ء میں جنرل ایوب کے ساتھ ہواتھا۔

آج کل ہمارے ہاں ہر روائتی لیڈراور دانشور بھی سماج میں ریڈیکل تبدیلی کی ضرورت کاواویلا کرتا نظرآتاھے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں انقلاب سیاسی اقتدار کی تبدیلی کو سمجھ لیا گیا ھے جو کہ انقلاب کا نہایت فرسودہ اور محدود تصور ھے حالانکہ انقلاب مکمل تبدیلی اور کامل تغیر کا نام ھے۔ اگر آپ کسی معاشرے کو بدلنا چاہتے اور تمام تر اجتماعی نظام کو کسی خاص ڈھنگ پر استوار کرنا اور کسی مخصوص فکر و نظریے پر ڈھالنا چاہتے ہیں تو اس کام کی ابتد ا فقط سیاسی جنگ کے میدان میں زور آزمائی کرنے سے نہیں ہو گی بلکہ اس کے لیے ضروری ہو گا کہ آپ اس فکر کو میدان میں لائیں ، اس نظریے کی قوت و برتری پر اس معاشرے کی اکثریت کو قائل کریں ، اس کے حوالے سے ان کے شکوک و شبہات، خدشات و خطرات اور سوالات و اعتراضات کا سامنا کرتے ہوئے ان کی تشفی اور اطمینان کا سامان کریں ، اس فکر و نظریے کے مخالفین کے پیدا کردہ شوشوں ، افوا ہوں اور بے جا تنقیدوں کی قلعی کھولتے ہوئے ان کی ہر ہر بات و اعتراض کا معقول و تسلی بخش جواب فراہم کریں۔ یہ ایک نہایت صبر آزما، کٹھن اور دقت طلب مرحلہ ہوتا ھے۔ لازمی ھے کہ اس مرحلے میں امن و تحمل کے اصول پر قائم رہا جائے ، کسی قیمت پر تشدد اور جھگڑ ا نہ کیا جائے ، مخالفین کی ڈالی ہوئی رکاوٹوں اور ان کی دی ہوئی اذیتوں اور تکلیفوں کا حوصلہ مندی و استقامت کے ساتھ سامنا کیا جائے اور اپنی تمام طاقت و صلاحیت اور قابلیت و لیاقت اپنے فکر و نظریہ کے حوالے سے افرادِ سماج کے ذہن کو صاف کرنے اور ان کے دلوں کو مطمئن کرنے پر صرف کی جائے۔

اس طرح جب آپ اپنے فکر و نظرئیے کی قوت افرادِ سماج کی ایک قابلِ قدر تعداد پر ثابت کر دیتے اور ان کو اپنا ہمنوا و حامی بنالینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ وقت آتا ھے جب خود افرادِ سماج اس فکر و نظریہ سے بغاوت و انحراف پر مبنی ماحول و نظام کو برداشت کرنے کے روادار نہیں رہتے اور بالکل فطری طریقے سے اس سماج میں خوبیاں جڑ پکڑ تی اور خرابیاں دم توڑ تی چلی جاتی ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ فکر و نظریہ اور اس کی بنیاد پر وجود میں آنے والا ماحول و نظام سماج میں رائج ماحول و نظام کو دیس نکالا دینا اور اس سماج کی زندگی سے باہر نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح بالکل قدرتی اور پائدار طریقے سے کوئی فکر و نظریہ کسی معاشرے میں اپنی جڑ یں جماتا اور مضبوط بناتا ھے اور دھیرے دھیرے آنے والا یہ انقلاب ایک دن اس مقام تک جاپہنچتا ھے کہ افرادِ معاشرہ کی اکثریت اور ان کے مؤثر و مقتدر طبقات سب اس فکر و نظریہ کے علمبردار بن جاتے اور اس پر مبنی ماحول و نظام کے طالب و متمنی نظر آتے ہیں اور پھر اس سوسائٹی میں اپنے آپ بغیر کسی جبر و تشدد کے کسی دوسری فکر کا غالب رہنا اور اس پر مبنی ماحول و نظام کا چلنا محال و ناممکن ہوجاتا ھے۔

تاہم ہماری حکمران اشرافیہ ( چاھے اس کی شکل کوئی بھی ہو) کے پاس حقیقتاً ایک ہی حل ھے کہ کسی نہ کسی طرح عوام کو بیوقوف بنا کرموجودہ نظام کو قا ئم و دائم رکھتے ہوئے سامراج کے وفا شعار گماشتے بن کر سامراجی جنگیں کرتے، آٹا نہ ہونے کے باوجودسامراج سے ناکارہ ہتھیارخریدنے کی آڑ میں, اس خدمت کے معاوضے کے طور پر بھاری غیر ملکی قرضوں کا بوجھ غریب عوام پر لادتے اور ان میں خرد برد سے اپنی بندر بانٹ کا سلسلہ جاری و ساری رکھیں۔ تاہم عوام کو ایک بات ضرور ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ موجودہ نظام سے کسی طرح بھی مستفید ہونیوالا کوئی گروہ اگر ایک بار پھر نجات دہندہ کا روپ دھار کر عوام کو بیوقوف بنانے کا قصد کرتا ھے تو یہ دراصل ایک بار پھر عوامی غیظ و غضب کو وقتی طور پر ٹالنے کی ایک ردِ انقلابی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ نیز یہ حقیقت ھے کہ پاکستان کی مٹھی بھر دولتمند اشرافیہ جو جاگیرداروں، بینکاروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ھے اور جسے کرپٹ ملا کی حمایت بھی حاصل ھے، نے آپس میں ایک مضبوط خفیہ عوام دشمن اتحاد تشکیل دیاہواھے ، جس نے یہ قسم اٹھارکھی ھے کہ سماج میں کسی قسم کی عمومی خوشحالی اور ترقی نہیں آنے دینی ،ہاں مگر صرف وہی ترقی اور خوشحالی جو کہ صرف ان کے اپنے لئے ہی ہو۔ چنانچہ جب تک اس اقلیتی استحصالی اشرافیہ کی غلاظت سے چھٹکارا حاصل نہیں کیاجاتا اور مڈل کلاس سے نئی انقلابی قیادت سامنے نہیں لائی جاتی جس کے پاس متبادل پروگرام اور عوامی مسائل کا واضح حل موجود ہو، پاکستان میں کسی بھی نوعیت کی تبدیلی کا سوال اور امکان ہی پیدانہیں ہوسکتا۔


ஜ۩۞۩ஜ اِبنِ اُمید ஜ۩۞۩ஜ
http://www.ibn-e-Umeed.com/

:pakistan-flag-wavin