26 ویں ترمیم کا فیصلہ آئینی کمیٹی کرے گی،چیف جسٹس کا جسٹس منصور سے اختلاف

4justicemansnootkktlalalf.png


اسلام آباد: سپریم کورٹ کے اندرونی اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ کے ذریعے سماعت کرنے کی تجویز پر سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے درمیان اختلاف سامنے آیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے موقف اختیار کیا کہ اس آئینی ترمیم کے خلاف زیر التوا درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔ تاہم، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جو کہ آئینی ترمیم کے ممکنہ فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں، نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ آئینی معاملات کی سماعت کے لیے درخواستوں کا تعین آئینی کمیٹی کرے گی، اور یہ جوڈیشل کمیشن کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آئینی معاملات پر فیصلے کرنا جوڈیشل کمیشن کا دائرہ اختیار نہیں ہے بلکہ اس کے لیے آئینی کمیٹی ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتی مقدمات کی سماعت کا تعین کمیٹی کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔

https://twitter.com/x/status/1865021278194729443
چیف جسٹس کی اس رائے کو کمیشن کے اکثریتی ارکان، جو حکومتی حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں، نے حمایت فراہم کی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار اور رولز بنانے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ اس دوران یہ فیصلہ ہوا کہ اس معاملے کے لیے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، اور اس کمیٹی کے قیام کا اختیار چیف جسٹس کو سونپ دیا گیا۔

واضح رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے قبل چیف جسٹس کو خط لکھا تھا جس میں تجویز دی گئی تھی کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف زیر التوا درخواستوں پر فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کر دیا جائے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی گئی تھی، اور اس ترمیم کے خلاف متعدد درخواستیں عدالت میں موجود ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہ درخواستیں منظور ہو گئیں تو کمیشن کے فیصلوں کی قانونی حیثیت متاثر ہو سکتی ہے۔

خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے مشورہ دیا کہ چیف جسٹس رجسٹرار سپریم کورٹ کو 26ویں آئینی ترمیم کے مقدمات فوری طور پر سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیں اور ان مقدمات کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے تاکہ اس حساس مسئلے پر عدالت کا متفقہ فیصلہ سامنے آ سکے۔

اجلاس میں جسٹس شاہد بلال حسن کو آئینی بینچ میں شامل کرنے پر بھی غور کیا گیا۔ غور و خوض کے بعد اکثریتی اراکین کی حمایت سے انہیں آئینی بینچ کا حصہ بنا لیا گیا۔ یہ معاملہ خاص اہمیت کا حامل تھا کیونکہ بینچ کی تشکیل آئندہ مقدمات کی سماعت پر براہ راست اثر ڈال سکتی ہے۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس اجلاس کو 29 نومبر کو طلب کیا تھا تاکہ سویلینز کے ملٹری ٹرائلز سے متعلق مقدمات کے لیے آئینی بینچ تشکیل دیا جا سکے۔ آئینی بینچ کے حوالے سے جسٹس عائشہ اے ملک کی جگہ نئے جج کی شمولیت کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔ سپریم کورٹ کی آئینی بینچز کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ جسٹس عائشہ ملک کو ان مقدمات کی سماعت کا حصہ نہ بنایا جائے کیونکہ وہ پہلے ہی انٹرا کورٹ اپیلوں سے متعلق مقدمات کا حصہ رہ چکی ہیں۔

اس سے قبل 13 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں سپریم کورٹ نے وضاحت کی تھی کہ جسٹس عائشہ ملک شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف فیصلہ دینے والے 7 رکنی بینچ کا حصہ تھیں، اس لیے وہ انٹرا کورٹ اپیلوں پر آئینی بینچ میں خدمات انجام نہیں دے سکتیں۔ اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے رولز اور بینچز کی تشکیل جیسے اہم امور پر بھی غور کیا گیا، جن کا اثر آئندہ عدالتی کارروائیوں پر پڑے گا۔

https://twitter.com/x/status/1865251124808200512
 
Last edited by a moderator:

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
ان کھوتی کے پتروں پالتو کتوں کو کوئی سمجھائے فل کورٹ اور ایک آئینی چکلے میں فرق ہوتا ہے
 

zarian

Citizen
Apni Rooh bech ker Aya hai tou what to expect.
He will put himself into same shit-hole as Qazi aour iss kai beechay kowee aur bhee ready ho ga..
 

Mocha7

Chief Minister (5k+ posts)
Youthiye judge what law or what constitutional provision allows the full Court to hear constitutional matters?
 

Back
Top