98 فیصد مقبولیت رکھنے والے شخص کا زوال

musha1h1h11.jpg

آج سے 21 سال قبل 30 اپریل 2002ء کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف ایک متنازعہ ریفرنڈم میں واحد امیدوار کے طور پر 4 کروڑ 28 لاکھ 4 ہزار ووٹ لے کر پاکستان کے صدر ”منتخب“ ہوئے۔

اس ریفرنڈم میں جنرل پرویز مشرف کو 4 کروڑ 28 لاکھ 4 ہزار ووٹ جبکہ مخالفت میں 8 لاکھ 83 ہزار 676 ووٹ ملے۔ نامکمل ووٹوں کی تعداد 2 لاکھ 82 ہزار 676 تھی جب کہ ٹوٹل کاسٹ شدہ ووٹوں کی تعداد 4 کروڑ 39 لاکھ 70 ہزار 352 تھی۔

ووٹنگ کی شرح 56.10 فیصد تھی جس میں جنرل پرویز مشرف کے حق میں 97.97 فیصد پڑے۔

اسکے بعد پرویز مشرف مزید طاقتور بن کر ابھرے، چوہدری برادران ، ایم کیوایم رہنماؤں سمیت بڑے بڑے سیاستدان انکے نام کی مالا جپتے تھے، بڑے بڑے سرمایہ کار، بااثر شخصیات انکی چوکھٹ پر کھڑی ہوتی تھی لیکن ہر عروج کو زوال آنا ہی تھا۔

اکبر بگٹی، لال مسجد، افتخارچوہدری کی معزولی پرویز مشرف کے اقتدار کے غروب ہونے کا سبب بنی، رہی سہی کسر بے نظیر کی شہادت اور 2008 کے الیکشن نے پوری کردی جس میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ بڑی جماعتیں بن کر ابھریں اور انہوں نے پرویز مشرف کو چلتا کیا۔

لیکن پرویز مشرف اسکے باوجود بھی اسی زعم میں تھے کہ وہ انتہائی مقبول ہیں، پرویز مشرف کے فیس بک اکاؤنٹ پر لاکھوں فالورز نے انہیں خوش فہمی میں مبتلا کردیا کہ وہ پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان ہیں، انہوں نے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بنائی۔

اپنے فیس بک فالورز دیکھ کر پرویز مشرف کا خیال تھا کہ وہ 2013 میں الیکشن لڑیں گے اور پھر سے اقتدار میں آجائیں گے لیکن پاکستان پہنچتے ہی پرویز مشرف پر حقیقت کھلی جب وہ خود 2013 کا الیکشن نہ لڑسکے اور انکی جماعت سوائے چترال کی ایک سیٹ کے کوئی سیٹ نہ لے پائی

ن لیگ نے پرویز مشرف کی موجودگی کا فائدہ اٹھاکر خود کو سول سپریمیسی کا چہمئین ثابت کرنے اور پرانے حساب چکانے کی کوشش کی اور انکی حکومت نے کئی مقدمات قائم کردئیے۔

ان مقدمات سے جان چھڑانے کیلئے پرویز مشرف کو کئی پاپڑ بیلنا پڑے، کبھی بیماری کے سبب عدالت پیشی سے معذوری، کبھی فوج کے پیچھے چھپنا اور آخر کار فوج کی مہربانی سے پرویز مشرف باہر جانے میں کامیاب ہوگئے اور بیرون ملک ہی جاکر جان دی۔

ایسا ہی زعم ضیاء الحق کو بھی، ایوب خان کو بھی تھا، جنرل یحییٰ خان کو بھی تھا، جنرل باجوہ کوبھی تھا، مرزا اسلم بیگ کو بھی تھا جنہوں نے اپنی سیاسی جماعت بنائی، انکا خیال تھا کہ انہوں نے آئی جے آئی بنائی ہے اور وہ ابھی بھی اتنے طاقتور ہیں کہ آئی جے آئی جیسی جماعت بناکر اقتدار حاصل کرلیں لیکن انکی خوش فہمی جلد ہی دور ہوگئی۔

اسکے بعد مرزا اسلم بیگ صرف ٹاک شوز کی زینت ہی بن سکے اور وہ بھی اپنے اوپر الزامات کی وجہ سے جس کی صفائیاں دینے کیلئے وہ ٹاک شوز میں جاتے رہے۔آج کل مرزا اسلم بیگ اپنی زندگی کے آخری دن گن رہےہیں ۔

ہر عروج کو زوال ہے، ایک سال پہلے جنرل باجوہ سیاہ وسفید کے مالک تھے لیکن آج صرف ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں، یہی حال جنرل کیانی، جنرل راحیل، جنرل جہانگیرکرامت کا ہے۔
 

ڈاکٹر زبیر چودھری

Politcal Worker (100+ posts)
اگر اس ملک سے سیاست دان اقتدار کے لئے اپنی اپنی جماعتوں میں جمہوریت پیدا کر لیں تو ان کو کسی ادارے کا سہارا نہ لینا پڑے ، جب کچھ خلاف ہوتا ہے تو پھر ان ہی اداروں کے خلاف بولنا شروع کردیتے ہیں ، اس ملک میں ہر مارشل لا سے پہلے اور بعد میں یہ ہی کچھ ہوتا ہے ، یہ جماعتیں کچھ سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، اگر اس ملک کی دو سیاسی جماعتوں کو دیکھا جائے تو پچاس سال سے سیاست خاندان میں ہے اور بلاول اور مریم ولی عہد بننے کیلئے تیار کھڑے ہیں تا کہ یہ دور چلتا رہے​
 

Noworriesbehappy

Councller (250+ posts)
yeh tu inn ki mehbani hai kay 88% or 97% result inn ki favour main hota hai, agar yeh 100% bi show kar day tu kisi nay inn ka kaya ukhar lena hai.... 😁 😁 😁 😁