کلاسرا سے میں ہرگز بحث نہ کروں گا: ہارون الرشید کا خط
Published on 28. Jul, 2011
(ٹاپ سٹوری آن لائن کے مینجنگ ایڈیٹر رؤف کلاسرا نے 17 جولائی کو ’اور میں ہارون الرشید سے بحث کرتا رہا‘ کے عنوان سے کالم لکھا تھا جس کا جواب ہارون صاحب نے یوں دیا ہے)میرے قرار کا ایک سبب ہے ؛چنانچہ رؤف کلاسرا صاحب سے میں ہرگز بحث نہ کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ تاریخ گھمنڈ کا قبرستان ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔میں جانتا ہوں کہ شریف برادران تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں ، کوئی چیز انہیں بچا نہیں سکتی ۔۔۔انہیں اور آصف علی زرداری کو۔
دریائے سندھ کے اس پار کا محاورہ یہ ہے : دلیل نہیں ، پشتون طعنے پر پلٹتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پشتون درحقیقت ایک نسل نہیں بلکہ ایک ذہنی رویہ ہے ۔ اس اعتبار سے اکثر پاکستانی پٹھان واقع ہوئے ہیں اور پشتونوں میں ایسے بہت جن کے تحمل اور تدبر پہ رشک کیا جا سکتاہے ۔۔۔یہ سطور لکھ چکا تو احساس ہوا کہ ایک اخبار اور ایک ویب سائٹ کے لیے لکھنے میں کتنا فرق ہے ۔ اخبار میں کتنی ہی آزادی ہو ، گاہے کچھ غیر ضروری احتیاط روا رکھنا ہوتی ہے۔ احتیاط لازم کہ شائستگی کی دلیل ہے اور شائستگی کے بغیر حیات بھدّی اور بے ذوق ۔ پاکستانی معاشرہ لیکن ابھی لڑکپن سے گزر رہا ہے۔رؤف کلاسراکا خیال یہ ہے کہ وہ مجھے طعنہ دیں گے تو میں بروئے کار آؤں گا ۔ صاف صاف میں نے ان سے کہا کہ حضور، ہرگزنہیں ۔ مضمون جب تک تخلیق بن کر نہ اترے ، لکھتا یہ نا چیز ہرگز نہیں۔ وہ بہرحال ایک اکسانے والے آدمی ہیں۔ ابھی کچھ دیر قبل میں نے ان سے عرض کیا: بھائی صاحب تاکید سے مجھے چڑ ہے ۔ لکھوں گا تو اپنی مرضی سے ۔ کلاسرہ بھی اپنی مرضی سے لکھتے ہیں ۔ میرے کہنے بلکہ فرمائش پر بھی کبھی ایک سطر بھی عنایت نہ کی۔ کبھی بے حد مہربان اور کبھی ایسے بخیل کہ اسد اللہ خاں غالبؔ یاد آئیں۔
ع صحرا مگر بہ تنگیِ چشمِ تھا
میرے بارے میں جو کچھ ارشاد کیا ، وہ ان کی ذاتی رائے ہے ۔ انگریزی میں کہتے ہیں
“Every body is entitled to his opinion”
ہر آدمی اپنی بات کا خود سزاوار۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار ۔ ایک مخلوق اور بھی ہے ۔ میرے خلاف، جن دوست کے نام سے مضمون چھپا، سینیٹر مشاہد اللہ خاں ، وزیر اعلیٰ کے ایک مشیر ، جن کا نام اپنی تحریروں میں ، آئندہ نہ لکھنے کا ارادہ کیاہے اور ان کے سرپرست شریف برادران ۔ ان صاحب کا معاملہ وہ ہے ، ایک صدی ہوتی ہے جو اقبال نے بیان کیا تھاشریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جوہرِ ادراکتحریری طور پر انہوں نے مجھے دھمکی دی ہے کہ تمہارا حق تمہیں دے دیا جائے گا۔ حال مگر یہ ہے کہ ان کے دونوں سرپرست ، جناب شہباز شریف اور میاں محمد نواز شریف مکر گئے۔اپنے نام میاں محمد شہباز شریف کا پیغام میں من و عن نقل کرتا ہوں۔
“Yes I have read Mushahidullah’s article but I have no idea that D.G.P.R has any role in this. I will check from him.”
میرا تبصرہ یہ ہے
:He will never
۔ اترسوںِ مری میں نواز شریف اخبار نویسوں کو بتاتے رہے کہ مضمون مشاہداللہ خان ہی نے لکھا ہے ؛اگرچہ عمر بھر انہوں نے کبھی ایک سطر نہ لکھی۔ ڈیڑھ برس ہوتا ہے جب وزیر اعلیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ لاہور میں تحریکِ انصاف کے بینر اتارنے کی تحقیقات کرائیں گے ۔ مزیدچھ ماہ گزرے ہوں گے جب لاہور کے حلقہ پی پی 160میں عمران خاں پنجاب حکومت کے مخالف اٹھے ۔ 14000جعلی ووٹوں کے باوجود شہر لاہور کے کسی ایک بھی پولنگ سٹیشن سے نون لیگ جیت نہ سکی۔ ووٹوں کا تناسب 70 اور 30 تھا۔ یہ کمی دیہی علاقوں میں پوری کر لی گئی۔ پولیس اورپٹوار کی مدد سے ۔ جب تک پٹواری اور پولیس حکومتوں کے ہاتھ میں ہیں، دھاندلی رک سکتی ہے اور نہ قبضہ گروپوں کا خاتمہ ممکن ہے ۔ اس لیے میاں شہباز شریف کے ان دعووں کو میں درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا کہ وہ پولیس کا کلچر بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرائیں گے ۔ جی نہیں ، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تین سال گزر گئے، کچھ نہ ہوا۔ آئندہ بھی کچھ نہ ہوگا۔ شعبدہ بازی تھی جو جاری رہے گی۔ احسن اقبال ایسے لوگ کرایے کی ویب سائٹس پر اخبار نویسوں اور نون لیگ سے اختلاف کرنے والے رہنماؤں کی کردار کشی کرتے رہیں گے۔ شہباز شریف اور نواز شریف پردہ پوشی فرماتے رہیں گے اور کیوں نہ فرمائیں ، آخر انہی کے حکم پر یہ تماشا جاری ہے ۔۔۔اور میرے عزیز دوست شعیب بن عزیز یہ مشورہ دیتے ہیں : بدگمانی سے کام نہیں لینا چاہیئے۔میرا اوّلین جرم یہی تھا اور اب بھی یہی ہے کہ میں جعل سازوں کے ذریعے کردار کشی پر احتجاج کرتا ہوں ۔ سب سے پہلے ، میں نے احسن اقبال کی کارندہ ویب سائٹ پر نذیر ناجی ، محمد مالک اور رؤف کلاسر۱ کے خلاف مہم پر اعتراض کیا ۔ ان میں سے اوّل الذکر سے مجھے اتنا ہی اختلاف ہے جتنا کہ کسی بھی شخص کو ہو سکتاہے ۔ محمد مالک میرے دوست ہیں مگر ان کی رائے سے بھی اکثر اختلاف ہوتا ہے ۔ رہے کلاسرہ صاحب تو اللہ کے فضل سے ، آج تک کسی بھی سیاسی موضوع پر ان سے اتفاق نہ ہو سکا اور آئندہ بھی امکان کوئی نہیں ۔۔۔یہ البتہ ہے کہ میں انہیں دیانت دار سمجھتا ہوں ۔جب تک میرا مشاہدہ تصدیق کرے گا ، نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کا احترام میں کرتا رہوں گا۔ہدف میں نہیں تھا ، بلکہ آزاد صحافت اور آزاد سیاستدان ۔ رؤف کلاسرہ ایسے اخبار نویس اور عمران خان جیسے سیاستدان۔ شہباز شریف تومیرے ایسے مدّاح تھے کہ میرے لیے دیسی مرغی پکواتے اور اپنی صاحبزادی سے میری ملاقات کرائی۔ وہ میری بیٹی کی ہم نام ہے ، نیک طینت ہے اور میں اسے اپنی بیٹی کی طرح عزیز سمجھتا ہوں ۔ ایک ایسے کارِ خیر میں وہ مصروف ہے کہ دل سے دعا نکلتی ہے ۔شہباز شریف نہیں ، نواز شریف مجھ سے نالاں ہیں۔ شہباز شریف تو میری اس رائے سے اتفاق کرتے رہے کہ عسکری قیادت اور قاف لیگ کے باب میں تکبر سے نون لیگ ہی کو خسارہ ہوا۔ مجھ سے انہوں نے فرمائش کی تھی کہ تین دن میں ان کے بڑے بھائی کے بارے میں خاموش رہوں تو وہ ا ن سے میری ملاقات کرائیں گے ۔عرض کیا : اگر میری غلطی ہو تو میں ان سے معذرت کرلوں گا ( لیکن میں ایک آزاد اخبار نویس ہوں اور انشا ء اللہ دائم ایسا ہی رہوں گا) ۔ مجھے معلوم تھا کہ ملاقات نہ ہوگی۔ بڑے میاں صاحب آزاد صحافت کی اتنی سی تاب بھی نہیں لا سکتے ، جتنی پاکستان کا سب سے زیادہ نا پسندیدہ سیاستدان آصف علی زرداری۔ ملاقات نہ ہوئی اور میرا نہیں خیال کہ مستقبل میں بھی ممکن ہوگی۔ دو بار وہ وزیر اعظم بنے ، دونوں بار سرکاری تقریبات میں میرے داخلے پر پابندی تھی ۔ خدا نخواستہ آئندہ بنے ، تب بھی ہوگی۔ چشمِ ما روشن ، دلِ ما شاد۔اس اثناء میں ، میرے محترم دوست چوہدری نثار نے ٹیلی فون پر مجھ سے رابطہ کیا : عرض کیا : جب اور جہاں آپ ارشاد کریں ، میں حاضر ہو جاؤنگا۔ انہوں نے ٹال دیا اورفقط یہ کہا: آپ ایک خام (Raw)قسم کی جرا ت کے حامل ہیں ؛ چنانچہ آپ کی رائے کو اہمیت بہت دی جاتی ہے ۔ آپ کو اس لیے احتیاط کرنی چاہیئے۔ خام جرات کا حامل احتیاط کیسے کرے ؟ خود چوہدری صاحب کا معاملہ بھی یہی ہے مگر میں نے حدّ ادب کا خیال رکھا۔اکثر وہ بھی رکھتے ہیں ۔ گاہے ناراض بھی ہوتے ہیں ، بیشتر مگر مروت ہی برتتے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ میاں محمد نواز شریف کے بارے میں ان کی حقیقی رائے کیا ہے ۔ وہ اس کا اظہار مگر معلوم نہیں کب کریں گے ۔ میرا اندازہ ہے کہ دو برس تک ۔ کسی دن عرض کروں گا کہ اس مدت کا تعین میں نے کس بنیاد پر کیا ہے ۔میرے خلاف لکھے گئے مضمون کا معاملہ عجیب ہے۔ بزرگ رہنما رانا نذر الرحمٰن کی معلومات پر اعتماد کیا جائے تو میرے تین محترم دوست اس معرکے میں شریک تھے ۔مدیرِ با تدبیر مجیب الرحمٰن شامی ، یارِ عزیز شعیب بن عزیز اور حضرت رؤف طاہر ۔ اگر دوسرے ذرائع پر بھروسہ کیا جائے تو پاکستانی صحافت کے شگفتہ نگار ، محترم عطاء الحق قاسمی بھی۔ اللہ جانتا ہے اور وہی تو جانتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک سے بھی ہرگز مجھے کوئی شکایت نہیں ۔ قطعاً نہیں، ہرگزنہیں۔تحقیق میں نے کی نہیں اور کرنے کا آرزومند بھی نہیں۔ میری حالت ان شیخ صاحب جیسی ہے ، جن کی چونی گم ہو گئی تو ایک کے سوا ساری جیبیں ٹٹول کر دیکھ لیں ۔ کسی نے پوچھا : آخری جیب میں بھی آپ کیوں نہیں جھانک لیتے؟ جواب ملا : اگر سکہّ اس میں بھی برامد نہ ہوا ؟ دوستوں کے باب میں حسنِ ظن ہی بہتر ہے ۔ یہ خیال بھی پختہ ہے کہ ان شرکا ہی کی وجہ سے مضمون گالم گلوچ سے پاک ہے ۔وگرنہ ، یہ تو وہ لوگ ہیں ، جو عمران خان ہی نہیں ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے خلاف ایسی ایسی مہم چلا چکے کہ شیطان بھی کان پکڑے۔
ہدف میں نہیں ، عمران خان ہے ۔ سو فیصد مجھے یقین ہے کہ وہ اس کے خلا ف ایک بڑی اور خوفناک مہم برپا کریں گے ۔ سو فیصد یقین یہ بھی ہے کہ یہ کاوش ناکام رہے گی ، جس طرح کہ بیسوی صدی کے چوتھے عشرے میں قائد اعظم ، ساتویں میں ذوالفقار علی بھٹو اور آٹھویں میں بے نظیر بھٹو کے خلاف ناکام رہی تھی ۔ جیسی شریف خاندان کے خلاف متحدہ نے کی۔ جیسی عمران خان کے خلاف الطاف حسین نے کی، جب کراچی کی دیواریں غلاظت سے اٹیں اور صاف کرنا پڑیں۔اس قوم کا مزاج ہی ایسا ہے کہ ایسے میں الٹا ہمدردی جنم لیتی ہے ۔ زندگی دوسروں کے عیوب نہیں ، اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے ۔ یہ بات مگر میاں محمد نواز شریف کو کون سمجھائے ۔ ان پر انتقام سوار ہے ۔صرف عمران خان ہی نہیں ، پوری قوم سے وہ ناراض ہیں کہ 12 اکتوبر 1999ء کو لوگ ان کا اقتدار بچانے کے لیے گھروں سے باہر کیوں نہ نکلے، سینوں پر گولیاں کیوں نہ کھائیں۔ نواز شریف سے ہمدردی رکھنے والے ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے گیلپ کا سروے یہ تھا : 70 فیصد لوگ شریف حکومت کی برطرفی پہ شاداں تھے، اگرچہ جانشین ان سے بھی بدتر تھا ، پرویز مشرف ۔۔۔ اور اس کا انتخاب عالی جناب ہی نے کیا تھا۔جہاں تک اس معمولی اخبار نویس کا تعلق ہے ، خوف زدہ ہونے کا سوال ہی نہیں ، الحمد للہ ہر روز سو بار میں پڑھتا ہوں : ان ربی علیٰ کل شیء حفیظ، بے شک میرا رب ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے ۔رؤف کلاسرا ہر چند اکساتے رہے لیکن میں مشتعل بھی ہر گزنہ ہوں گا ۔ پارٹی کبھی نہ بنوں گا ۔ اگر کبھی کوئی اچھا کام میاں صاحبان سے سرزد ہوگیا تو کھلے دل سے اس کی تحسین بھی کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ تاریخ گھمنڈ کا قبرستان ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی ۔ کل من علیہا فان و یبقیٰ وجہہ ربّک ذوالجلال والاکرام ۔ ہر چیز فنا ہو جانے والی ہے اور باقی رہے گا ، تیرے رب کا چہرہ ، بے پناہ عظمت اور بے حساب بزرگی والا ! رؤف کلاسرہ سے ہرگز ہرگز میں بحث نہ کروں گا۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی ، وہ دیا رہ جائے گا
http://www.topstoryonline.com/haroon-rashid-letter-klasra
Published on 28. Jul, 2011
(ٹاپ سٹوری آن لائن کے مینجنگ ایڈیٹر رؤف کلاسرا نے 17 جولائی کو ’اور میں ہارون الرشید سے بحث کرتا رہا‘ کے عنوان سے کالم لکھا تھا جس کا جواب ہارون صاحب نے یوں دیا ہے)میرے قرار کا ایک سبب ہے ؛چنانچہ رؤف کلاسرا صاحب سے میں ہرگز بحث نہ کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ تاریخ گھمنڈ کا قبرستان ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔میں جانتا ہوں کہ شریف برادران تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں ، کوئی چیز انہیں بچا نہیں سکتی ۔۔۔انہیں اور آصف علی زرداری کو۔
دریائے سندھ کے اس پار کا محاورہ یہ ہے : دلیل نہیں ، پشتون طعنے پر پلٹتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پشتون درحقیقت ایک نسل نہیں بلکہ ایک ذہنی رویہ ہے ۔ اس اعتبار سے اکثر پاکستانی پٹھان واقع ہوئے ہیں اور پشتونوں میں ایسے بہت جن کے تحمل اور تدبر پہ رشک کیا جا سکتاہے ۔۔۔یہ سطور لکھ چکا تو احساس ہوا کہ ایک اخبار اور ایک ویب سائٹ کے لیے لکھنے میں کتنا فرق ہے ۔ اخبار میں کتنی ہی آزادی ہو ، گاہے کچھ غیر ضروری احتیاط روا رکھنا ہوتی ہے۔ احتیاط لازم کہ شائستگی کی دلیل ہے اور شائستگی کے بغیر حیات بھدّی اور بے ذوق ۔ پاکستانی معاشرہ لیکن ابھی لڑکپن سے گزر رہا ہے۔رؤف کلاسراکا خیال یہ ہے کہ وہ مجھے طعنہ دیں گے تو میں بروئے کار آؤں گا ۔ صاف صاف میں نے ان سے کہا کہ حضور، ہرگزنہیں ۔ مضمون جب تک تخلیق بن کر نہ اترے ، لکھتا یہ نا چیز ہرگز نہیں۔ وہ بہرحال ایک اکسانے والے آدمی ہیں۔ ابھی کچھ دیر قبل میں نے ان سے عرض کیا: بھائی صاحب تاکید سے مجھے چڑ ہے ۔ لکھوں گا تو اپنی مرضی سے ۔ کلاسرہ بھی اپنی مرضی سے لکھتے ہیں ۔ میرے کہنے بلکہ فرمائش پر بھی کبھی ایک سطر بھی عنایت نہ کی۔ کبھی بے حد مہربان اور کبھی ایسے بخیل کہ اسد اللہ خاں غالبؔ یاد آئیں۔
ع صحرا مگر بہ تنگیِ چشمِ تھا
میرے بارے میں جو کچھ ارشاد کیا ، وہ ان کی ذاتی رائے ہے ۔ انگریزی میں کہتے ہیں
“Every body is entitled to his opinion”
ہر آدمی اپنی بات کا خود سزاوار۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار ۔ ایک مخلوق اور بھی ہے ۔ میرے خلاف، جن دوست کے نام سے مضمون چھپا، سینیٹر مشاہد اللہ خاں ، وزیر اعلیٰ کے ایک مشیر ، جن کا نام اپنی تحریروں میں ، آئندہ نہ لکھنے کا ارادہ کیاہے اور ان کے سرپرست شریف برادران ۔ ان صاحب کا معاملہ وہ ہے ، ایک صدی ہوتی ہے جو اقبال نے بیان کیا تھاشریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جوہرِ ادراکتحریری طور پر انہوں نے مجھے دھمکی دی ہے کہ تمہارا حق تمہیں دے دیا جائے گا۔ حال مگر یہ ہے کہ ان کے دونوں سرپرست ، جناب شہباز شریف اور میاں محمد نواز شریف مکر گئے۔اپنے نام میاں محمد شہباز شریف کا پیغام میں من و عن نقل کرتا ہوں۔
“Yes I have read Mushahidullah’s article but I have no idea that D.G.P.R has any role in this. I will check from him.”
میرا تبصرہ یہ ہے
:He will never
۔ اترسوںِ مری میں نواز شریف اخبار نویسوں کو بتاتے رہے کہ مضمون مشاہداللہ خان ہی نے لکھا ہے ؛اگرچہ عمر بھر انہوں نے کبھی ایک سطر نہ لکھی۔ ڈیڑھ برس ہوتا ہے جب وزیر اعلیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ لاہور میں تحریکِ انصاف کے بینر اتارنے کی تحقیقات کرائیں گے ۔ مزیدچھ ماہ گزرے ہوں گے جب لاہور کے حلقہ پی پی 160میں عمران خاں پنجاب حکومت کے مخالف اٹھے ۔ 14000جعلی ووٹوں کے باوجود شہر لاہور کے کسی ایک بھی پولنگ سٹیشن سے نون لیگ جیت نہ سکی۔ ووٹوں کا تناسب 70 اور 30 تھا۔ یہ کمی دیہی علاقوں میں پوری کر لی گئی۔ پولیس اورپٹوار کی مدد سے ۔ جب تک پٹواری اور پولیس حکومتوں کے ہاتھ میں ہیں، دھاندلی رک سکتی ہے اور نہ قبضہ گروپوں کا خاتمہ ممکن ہے ۔ اس لیے میاں شہباز شریف کے ان دعووں کو میں درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا کہ وہ پولیس کا کلچر بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرائیں گے ۔ جی نہیں ، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تین سال گزر گئے، کچھ نہ ہوا۔ آئندہ بھی کچھ نہ ہوگا۔ شعبدہ بازی تھی جو جاری رہے گی۔ احسن اقبال ایسے لوگ کرایے کی ویب سائٹس پر اخبار نویسوں اور نون لیگ سے اختلاف کرنے والے رہنماؤں کی کردار کشی کرتے رہیں گے۔ شہباز شریف اور نواز شریف پردہ پوشی فرماتے رہیں گے اور کیوں نہ فرمائیں ، آخر انہی کے حکم پر یہ تماشا جاری ہے ۔۔۔اور میرے عزیز دوست شعیب بن عزیز یہ مشورہ دیتے ہیں : بدگمانی سے کام نہیں لینا چاہیئے۔میرا اوّلین جرم یہی تھا اور اب بھی یہی ہے کہ میں جعل سازوں کے ذریعے کردار کشی پر احتجاج کرتا ہوں ۔ سب سے پہلے ، میں نے احسن اقبال کی کارندہ ویب سائٹ پر نذیر ناجی ، محمد مالک اور رؤف کلاسر۱ کے خلاف مہم پر اعتراض کیا ۔ ان میں سے اوّل الذکر سے مجھے اتنا ہی اختلاف ہے جتنا کہ کسی بھی شخص کو ہو سکتاہے ۔ محمد مالک میرے دوست ہیں مگر ان کی رائے سے بھی اکثر اختلاف ہوتا ہے ۔ رہے کلاسرہ صاحب تو اللہ کے فضل سے ، آج تک کسی بھی سیاسی موضوع پر ان سے اتفاق نہ ہو سکا اور آئندہ بھی امکان کوئی نہیں ۔۔۔یہ البتہ ہے کہ میں انہیں دیانت دار سمجھتا ہوں ۔جب تک میرا مشاہدہ تصدیق کرے گا ، نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کا احترام میں کرتا رہوں گا۔ہدف میں نہیں تھا ، بلکہ آزاد صحافت اور آزاد سیاستدان ۔ رؤف کلاسرہ ایسے اخبار نویس اور عمران خان جیسے سیاستدان۔ شہباز شریف تومیرے ایسے مدّاح تھے کہ میرے لیے دیسی مرغی پکواتے اور اپنی صاحبزادی سے میری ملاقات کرائی۔ وہ میری بیٹی کی ہم نام ہے ، نیک طینت ہے اور میں اسے اپنی بیٹی کی طرح عزیز سمجھتا ہوں ۔ ایک ایسے کارِ خیر میں وہ مصروف ہے کہ دل سے دعا نکلتی ہے ۔شہباز شریف نہیں ، نواز شریف مجھ سے نالاں ہیں۔ شہباز شریف تو میری اس رائے سے اتفاق کرتے رہے کہ عسکری قیادت اور قاف لیگ کے باب میں تکبر سے نون لیگ ہی کو خسارہ ہوا۔ مجھ سے انہوں نے فرمائش کی تھی کہ تین دن میں ان کے بڑے بھائی کے بارے میں خاموش رہوں تو وہ ا ن سے میری ملاقات کرائیں گے ۔عرض کیا : اگر میری غلطی ہو تو میں ان سے معذرت کرلوں گا ( لیکن میں ایک آزاد اخبار نویس ہوں اور انشا ء اللہ دائم ایسا ہی رہوں گا) ۔ مجھے معلوم تھا کہ ملاقات نہ ہوگی۔ بڑے میاں صاحب آزاد صحافت کی اتنی سی تاب بھی نہیں لا سکتے ، جتنی پاکستان کا سب سے زیادہ نا پسندیدہ سیاستدان آصف علی زرداری۔ ملاقات نہ ہوئی اور میرا نہیں خیال کہ مستقبل میں بھی ممکن ہوگی۔ دو بار وہ وزیر اعظم بنے ، دونوں بار سرکاری تقریبات میں میرے داخلے پر پابندی تھی ۔ خدا نخواستہ آئندہ بنے ، تب بھی ہوگی۔ چشمِ ما روشن ، دلِ ما شاد۔اس اثناء میں ، میرے محترم دوست چوہدری نثار نے ٹیلی فون پر مجھ سے رابطہ کیا : عرض کیا : جب اور جہاں آپ ارشاد کریں ، میں حاضر ہو جاؤنگا۔ انہوں نے ٹال دیا اورفقط یہ کہا: آپ ایک خام (Raw)قسم کی جرا ت کے حامل ہیں ؛ چنانچہ آپ کی رائے کو اہمیت بہت دی جاتی ہے ۔ آپ کو اس لیے احتیاط کرنی چاہیئے۔ خام جرات کا حامل احتیاط کیسے کرے ؟ خود چوہدری صاحب کا معاملہ بھی یہی ہے مگر میں نے حدّ ادب کا خیال رکھا۔اکثر وہ بھی رکھتے ہیں ۔ گاہے ناراض بھی ہوتے ہیں ، بیشتر مگر مروت ہی برتتے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ میاں محمد نواز شریف کے بارے میں ان کی حقیقی رائے کیا ہے ۔ وہ اس کا اظہار مگر معلوم نہیں کب کریں گے ۔ میرا اندازہ ہے کہ دو برس تک ۔ کسی دن عرض کروں گا کہ اس مدت کا تعین میں نے کس بنیاد پر کیا ہے ۔میرے خلاف لکھے گئے مضمون کا معاملہ عجیب ہے۔ بزرگ رہنما رانا نذر الرحمٰن کی معلومات پر اعتماد کیا جائے تو میرے تین محترم دوست اس معرکے میں شریک تھے ۔مدیرِ با تدبیر مجیب الرحمٰن شامی ، یارِ عزیز شعیب بن عزیز اور حضرت رؤف طاہر ۔ اگر دوسرے ذرائع پر بھروسہ کیا جائے تو پاکستانی صحافت کے شگفتہ نگار ، محترم عطاء الحق قاسمی بھی۔ اللہ جانتا ہے اور وہی تو جانتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک سے بھی ہرگز مجھے کوئی شکایت نہیں ۔ قطعاً نہیں، ہرگزنہیں۔تحقیق میں نے کی نہیں اور کرنے کا آرزومند بھی نہیں۔ میری حالت ان شیخ صاحب جیسی ہے ، جن کی چونی گم ہو گئی تو ایک کے سوا ساری جیبیں ٹٹول کر دیکھ لیں ۔ کسی نے پوچھا : آخری جیب میں بھی آپ کیوں نہیں جھانک لیتے؟ جواب ملا : اگر سکہّ اس میں بھی برامد نہ ہوا ؟ دوستوں کے باب میں حسنِ ظن ہی بہتر ہے ۔ یہ خیال بھی پختہ ہے کہ ان شرکا ہی کی وجہ سے مضمون گالم گلوچ سے پاک ہے ۔وگرنہ ، یہ تو وہ لوگ ہیں ، جو عمران خان ہی نہیں ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے خلاف ایسی ایسی مہم چلا چکے کہ شیطان بھی کان پکڑے۔
ہدف میں نہیں ، عمران خان ہے ۔ سو فیصد مجھے یقین ہے کہ وہ اس کے خلا ف ایک بڑی اور خوفناک مہم برپا کریں گے ۔ سو فیصد یقین یہ بھی ہے کہ یہ کاوش ناکام رہے گی ، جس طرح کہ بیسوی صدی کے چوتھے عشرے میں قائد اعظم ، ساتویں میں ذوالفقار علی بھٹو اور آٹھویں میں بے نظیر بھٹو کے خلاف ناکام رہی تھی ۔ جیسی شریف خاندان کے خلاف متحدہ نے کی۔ جیسی عمران خان کے خلاف الطاف حسین نے کی، جب کراچی کی دیواریں غلاظت سے اٹیں اور صاف کرنا پڑیں۔اس قوم کا مزاج ہی ایسا ہے کہ ایسے میں الٹا ہمدردی جنم لیتی ہے ۔ زندگی دوسروں کے عیوب نہیں ، اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے ۔ یہ بات مگر میاں محمد نواز شریف کو کون سمجھائے ۔ ان پر انتقام سوار ہے ۔صرف عمران خان ہی نہیں ، پوری قوم سے وہ ناراض ہیں کہ 12 اکتوبر 1999ء کو لوگ ان کا اقتدار بچانے کے لیے گھروں سے باہر کیوں نہ نکلے، سینوں پر گولیاں کیوں نہ کھائیں۔ نواز شریف سے ہمدردی رکھنے والے ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے گیلپ کا سروے یہ تھا : 70 فیصد لوگ شریف حکومت کی برطرفی پہ شاداں تھے، اگرچہ جانشین ان سے بھی بدتر تھا ، پرویز مشرف ۔۔۔ اور اس کا انتخاب عالی جناب ہی نے کیا تھا۔جہاں تک اس معمولی اخبار نویس کا تعلق ہے ، خوف زدہ ہونے کا سوال ہی نہیں ، الحمد للہ ہر روز سو بار میں پڑھتا ہوں : ان ربی علیٰ کل شیء حفیظ، بے شک میرا رب ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے ۔رؤف کلاسرا ہر چند اکساتے رہے لیکن میں مشتعل بھی ہر گزنہ ہوں گا ۔ پارٹی کبھی نہ بنوں گا ۔ اگر کبھی کوئی اچھا کام میاں صاحبان سے سرزد ہوگیا تو کھلے دل سے اس کی تحسین بھی کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ تاریخ گھمنڈ کا قبرستان ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی ۔ کل من علیہا فان و یبقیٰ وجہہ ربّک ذوالجلال والاکرام ۔ ہر چیز فنا ہو جانے والی ہے اور باقی رہے گا ، تیرے رب کا چہرہ ، بے پناہ عظمت اور بے حساب بزرگی والا ! رؤف کلاسرہ سے ہرگز ہرگز میں بحث نہ کروں گا۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی ، وہ دیا رہ جائے گا
http://www.topstoryonline.com/haroon-rashid-letter-klasra