Haroon Rashid Reply to Rauf Klasra's Column.

GraanG2

Chief Minister (5k+ posts)
کلاسرا سے میں ہرگز بحث نہ کروں گا: ہارون الرشید کا خط

Published on 28. Jul, 2011

(ٹاپ سٹوری آن لائن کے مینجنگ ایڈیٹر رؤف کلاسرا نے 17 جولائی کو ’اور میں ہارون الرشید سے بحث کرتا رہا‘ کے عنوان سے کالم لکھا تھا جس کا جواب ہارون صاحب نے یوں دیا ہے)میرے قرار کا ایک سبب ہے ؛چنانچہ رؤف کلاسرا صاحب سے میں ہرگز بحث نہ کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ تاریخ گھمنڈ کا قبرستان ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔میں جانتا ہوں کہ شریف برادران تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں ، کوئی چیز انہیں بچا نہیں سکتی ۔۔۔انہیں اور آصف علی زرداری کو۔

دریائے سندھ کے اس پار کا محاورہ یہ ہے : دلیل نہیں ، پشتون طعنے پر پلٹتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پشتون درحقیقت ایک نسل نہیں بلکہ ایک ذہنی رویہ ہے ۔ اس اعتبار سے اکثر پاکستانی پٹھان واقع ہوئے ہیں اور پشتونوں میں ایسے بہت جن کے تحمل اور تدبر پہ رشک کیا جا سکتاہے ۔۔۔یہ سطور لکھ چکا تو احساس ہوا کہ ایک اخبار اور ایک ویب سائٹ کے لیے لکھنے میں کتنا فرق ہے ۔ اخبار میں کتنی ہی آزادی ہو ، گاہے کچھ غیر ضروری احتیاط روا رکھنا ہوتی ہے۔ احتیاط لازم کہ شائستگی کی دلیل ہے اور شائستگی کے بغیر حیات بھدّی اور بے ذوق ۔ پاکستانی معاشرہ لیکن ابھی لڑکپن سے گزر رہا ہے۔رؤف کلاسراکا خیال یہ ہے کہ وہ مجھے طعنہ دیں گے تو میں بروئے کار آؤں گا ۔ صاف صاف میں نے ان سے کہا کہ حضور، ہرگزنہیں ۔ مضمون جب تک تخلیق بن کر نہ اترے ، لکھتا یہ نا چیز ہرگز نہیں۔ وہ بہرحال ایک اکسانے والے آدمی ہیں۔ ابھی کچھ دیر قبل میں نے ان سے عرض کیا: بھائی صاحب تاکید سے مجھے چڑ ہے ۔ لکھوں گا تو اپنی مرضی سے ۔ کلاسرہ بھی اپنی مرضی سے لکھتے ہیں ۔ میرے کہنے بلکہ فرمائش پر بھی کبھی ایک سطر بھی عنایت نہ کی۔ کبھی بے حد مہربان اور کبھی ایسے بخیل کہ اسد اللہ خاں غالبؔ یاد آئیں۔
ع صحرا مگر بہ تنگیِ چشمِ تھا
میرے بارے میں جو کچھ ارشاد کیا ، وہ ان کی ذاتی رائے ہے ۔ انگریزی میں کہتے ہیں
“Every body is entitled to his opinion”
ہر آدمی اپنی بات کا خود سزاوار۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار ۔ ایک مخلوق اور بھی ہے ۔ میرے خلاف، جن دوست کے نام سے مضمون چھپا، سینیٹر مشاہد اللہ خاں ، وزیر اعلیٰ کے ایک مشیر ، جن کا نام اپنی تحریروں میں ، آئندہ نہ لکھنے کا ارادہ کیاہے اور ان کے سرپرست شریف برادران ۔ ان صاحب کا معاملہ وہ ہے ، ایک صدی ہوتی ہے جو اقبال نے بیان کیا تھا
شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جوہرِ ادراک
تحریری طور پر انہوں نے مجھے دھمکی دی ہے کہ تمہارا حق تمہیں دے دیا جائے گا۔ حال مگر یہ ہے کہ ان کے دونوں سرپرست ، جناب شہباز شریف اور میاں محمد نواز شریف مکر گئے۔اپنے نام میاں محمد شہباز شریف کا پیغام میں من و عن نقل کرتا ہوں۔
“Yes I have read Mushahidullah’s article but I have no idea that D.G.P.R has any role in this. I will check from him.”
میرا تبصرہ یہ ہے
:He will never
۔ اترسوںِ مری میں نواز شریف اخبار نویسوں کو بتاتے رہے کہ مضمون مشاہداللہ خان ہی نے لکھا ہے ؛اگرچہ عمر بھر انہوں نے کبھی ایک سطر نہ لکھی۔ ڈیڑھ برس ہوتا ہے جب وزیر اعلیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ لاہور میں تحریکِ انصاف کے بینر اتارنے کی تحقیقات کرائیں گے ۔ مزیدچھ ماہ گزرے ہوں گے جب لاہور کے حلقہ پی پی 160میں عمران خاں پنجاب حکومت کے مخالف اٹھے ۔ 14000جعلی ووٹوں کے باوجود شہر لاہور کے کسی ایک بھی پولنگ سٹیشن سے نون لیگ جیت نہ سکی۔ ووٹوں کا تناسب 70 اور 30 تھا۔ یہ کمی دیہی علاقوں میں پوری کر لی گئی۔ پولیس اورپٹوار کی مدد سے ۔ جب تک پٹواری اور پولیس حکومتوں کے ہاتھ میں ہیں، دھاندلی رک سکتی ہے اور نہ قبضہ گروپوں کا خاتمہ ممکن ہے ۔ اس لیے میاں شہباز شریف کے ان دعووں کو میں درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا کہ وہ پولیس کا کلچر بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرائیں گے ۔ جی نہیں ، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تین سال گزر گئے، کچھ نہ ہوا۔ آئندہ بھی کچھ نہ ہوگا۔ شعبدہ بازی تھی جو جاری رہے گی۔ احسن اقبال ایسے لوگ کرایے کی ویب سائٹس پر اخبار نویسوں اور نون لیگ سے اختلاف کرنے والے رہنماؤں کی کردار کشی کرتے رہیں گے۔ شہباز شریف اور نواز شریف پردہ پوشی فرماتے رہیں گے اور کیوں نہ فرمائیں ، آخر انہی کے حکم پر یہ تماشا جاری ہے ۔۔۔اور میرے عزیز دوست شعیب بن عزیز یہ مشورہ دیتے ہیں : بدگمانی سے کام نہیں لینا چاہیئے۔
میرا اوّلین جرم یہی تھا اور اب بھی یہی ہے کہ میں جعل سازوں کے ذریعے کردار کشی پر احتجاج کرتا ہوں ۔ سب سے پہلے ، میں نے احسن اقبال کی کارندہ ویب سائٹ پر نذیر ناجی ، محمد مالک اور رؤف کلاسر۱ کے خلاف مہم پر اعتراض کیا ۔ ان میں سے اوّل الذکر سے مجھے اتنا ہی اختلاف ہے جتنا کہ کسی بھی شخص کو ہو سکتاہے ۔ محمد مالک میرے دوست ہیں مگر ان کی رائے سے بھی اکثر اختلاف ہوتا ہے ۔ رہے کلاسرہ صاحب تو اللہ کے فضل سے ، آج تک کسی بھی سیاسی موضوع پر ان سے اتفاق نہ ہو سکا اور آئندہ بھی امکان کوئی نہیں ۔۔۔یہ البتہ ہے کہ میں انہیں دیانت دار سمجھتا ہوں ۔جب تک میرا مشاہدہ تصدیق کرے گا ، نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کا احترام میں کرتا رہوں گا۔ہدف میں نہیں تھا ، بلکہ آزاد صحافت اور آزاد سیاستدان ۔ رؤف کلاسرہ ایسے اخبار نویس اور عمران خان جیسے سیاستدان۔ شہباز شریف تومیرے ایسے مدّاح تھے کہ میرے لیے دیسی مرغی پکواتے اور اپنی صاحبزادی سے میری ملاقات کرائی۔ وہ میری بیٹی کی ہم نام ہے ، نیک طینت ہے اور میں اسے اپنی بیٹی کی طرح عزیز سمجھتا ہوں ۔ ایک ایسے کارِ خیر میں وہ مصروف ہے کہ دل سے دعا نکلتی ہے ۔شہباز شریف نہیں ، نواز شریف مجھ سے نالاں ہیں۔ شہباز شریف تو میری اس رائے سے اتفاق کرتے رہے کہ عسکری قیادت اور قاف لیگ کے باب میں تکبر سے نون لیگ ہی کو خسارہ ہوا۔ مجھ سے انہوں نے فرمائش کی تھی کہ تین دن میں ان کے بڑے بھائی کے بارے میں خاموش رہوں تو وہ ا ن سے میری ملاقات کرائیں گے ۔عرض کیا : اگر میری غلطی ہو تو میں ان سے معذرت کرلوں گا ( لیکن میں ایک آزاد اخبار نویس ہوں اور انشا ء اللہ دائم ایسا ہی رہوں گا) ۔ مجھے معلوم تھا کہ ملاقات نہ ہوگی۔ بڑے میاں صاحب آزاد صحافت کی اتنی سی تاب بھی نہیں لا سکتے ، جتنی پاکستان کا سب سے زیادہ نا پسندیدہ سیاستدان آصف علی زرداری۔ ملاقات نہ ہوئی اور میرا نہیں خیال کہ مستقبل میں بھی ممکن ہوگی۔ دو بار وہ وزیر اعظم بنے ، دونوں بار سرکاری تقریبات میں میرے داخلے پر پابندی تھی ۔ خدا نخواستہ آئندہ بنے ، تب بھی ہوگی۔ چشمِ ما روشن ، دلِ ما شاد۔اس اثناء میں ، میرے محترم دوست چوہدری نثار نے ٹیلی فون پر مجھ سے رابطہ کیا : عرض کیا : جب اور جہاں آپ ارشاد کریں ، میں حاضر ہو جاؤنگا۔ انہوں نے ٹال دیا اورفقط یہ کہا: آپ ایک خام (Raw)قسم کی جرا ت کے حامل ہیں ؛ چنانچہ آپ کی رائے کو اہمیت بہت دی جاتی ہے ۔ آپ کو اس لیے احتیاط کرنی چاہیئے۔ خام جرات کا حامل احتیاط کیسے کرے ؟ خود چوہدری صاحب کا معاملہ بھی یہی ہے مگر میں نے حدّ ادب کا خیال رکھا۔اکثر وہ بھی رکھتے ہیں ۔ گاہے ناراض بھی ہوتے ہیں ، بیشتر مگر مروت ہی برتتے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ میاں محمد نواز شریف کے بارے میں ان کی حقیقی رائے کیا ہے ۔ وہ اس کا اظہار مگر معلوم نہیں کب کریں گے ۔ میرا اندازہ ہے کہ دو برس تک ۔ کسی دن عرض کروں گا کہ اس مدت کا تعین میں نے کس بنیاد پر کیا ہے ۔میرے خلاف لکھے گئے مضمون کا معاملہ عجیب ہے۔ بزرگ رہنما رانا نذر الرحمٰن کی معلومات پر اعتماد کیا جائے تو میرے تین محترم دوست اس معرکے میں شریک تھے ۔مدیرِ با تدبیر مجیب الرحمٰن شامی ، یارِ عزیز شعیب بن عزیز اور حضرت رؤف طاہر ۔ اگر دوسرے ذرائع پر بھروسہ کیا جائے تو پاکستانی صحافت کے شگفتہ نگار ، محترم عطاء الحق قاسمی بھی۔ اللہ جانتا ہے اور وہی تو جانتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک سے بھی ہرگز مجھے کوئی شکایت نہیں ۔ قطعاً نہیں، ہرگزنہیں۔تحقیق میں نے کی نہیں اور کرنے کا آرزومند بھی نہیں۔ میری حالت ان شیخ صاحب جیسی ہے ، جن کی چونی گم ہو گئی تو ایک کے سوا ساری جیبیں ٹٹول کر دیکھ لیں ۔ کسی نے پوچھا : آخری جیب میں بھی آپ کیوں نہیں جھانک لیتے؟ جواب ملا : اگر سکہّ اس میں بھی برامد نہ ہوا ؟ دوستوں کے باب میں حسنِ ظن ہی بہتر ہے ۔ یہ خیال بھی پختہ ہے کہ ان شرکا ہی کی وجہ سے مضمون گالم گلوچ سے پاک ہے ۔وگرنہ ، یہ تو وہ لوگ ہیں ، جو عمران خان ہی نہیں ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے خلاف ایسی ایسی مہم چلا چکے کہ شیطان بھی کان پکڑے۔
ہدف میں نہیں ، عمران خان ہے ۔ سو فیصد مجھے یقین ہے کہ وہ اس کے خلا ف ایک بڑی اور خوفناک مہم برپا کریں گے ۔ سو فیصد یقین یہ بھی ہے کہ یہ کاوش ناکام رہے گی ، جس طرح کہ بیسوی صدی کے چوتھے عشرے میں قائد اعظم ، ساتویں میں ذوالفقار علی بھٹو اور آٹھویں میں بے نظیر بھٹو کے خلاف ناکام رہی تھی ۔ جیسی شریف خاندان کے خلاف متحدہ نے کی۔ جیسی عمران خان کے خلاف الطاف حسین نے کی، جب کراچی کی دیواریں غلاظت سے اٹیں اور صاف کرنا پڑیں۔اس قوم کا مزاج ہی ایسا ہے کہ ایسے میں الٹا ہمدردی جنم لیتی ہے ۔ زندگی دوسروں کے عیوب نہیں ، اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے ۔ یہ بات مگر میاں محمد نواز شریف کو کون سمجھائے ۔ ان پر انتقام سوار ہے ۔صرف عمران خان ہی نہیں ، پوری قوم سے وہ ناراض ہیں کہ 12 اکتوبر 1999ء کو لوگ ان کا اقتدار بچانے کے لیے گھروں سے باہر کیوں نہ نکلے، سینوں پر گولیاں کیوں نہ کھائیں۔ نواز شریف سے ہمدردی رکھنے والے ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے گیلپ کا سروے یہ تھا : 70 فیصد لوگ شریف حکومت کی برطرفی پہ شاداں تھے، اگرچہ جانشین ان سے بھی بدتر تھا ، پرویز مشرف ۔۔۔ اور اس کا انتخاب عالی جناب ہی نے کیا تھا۔جہاں تک اس معمولی اخبار نویس کا تعلق ہے ، خوف زدہ ہونے کا سوال ہی نہیں ، الحمد للہ ہر روز سو بار میں پڑھتا ہوں : ان ربی علیٰ کل شیء حفیظ، بے شک میرا رب ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے ۔رؤف کلاسرا ہر چند اکساتے رہے لیکن میں مشتعل بھی ہر گزنہ ہوں گا ۔ پارٹی کبھی نہ بنوں گا ۔ اگر کبھی کوئی اچھا کام میاں صاحبان سے سرزد ہوگیا تو کھلے دل سے اس کی تحسین بھی کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ تاریخ گھمنڈ کا قبرستان ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی ۔ کل من علیہا فان و یبقیٰ وجہہ ربّک ذوالجلال والاکرام ۔ ہر چیز فنا ہو جانے والی ہے اور باقی رہے گا ، تیرے رب کا چہرہ ، بے پناہ عظمت اور بے حساب بزرگی والا ! رؤف کلاسرہ سے ہرگز ہرگز میں بحث نہ کروں گا۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی ، وہ دیا رہ جائے گا

http://www.topstoryonline.com/haroon-rashid-letter-klasra

 
Last edited by a moderator:

GraanG2

Chief Minister (5k+ posts)
Ab dekhna Bhade ke tattu moo phad phad ke ise gaaliyan denge...Aur ajeeb ajeeb naam denge.
 

ishwaq

Minister (2k+ posts)
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی ، وہ دیا رہ جائے گا


Inshallah ab faisley ka waqt buhut qareeb a gaya hey.
 

GraanG2

Chief Minister (5k+ posts)
By the way this is the Rauf Kalsra's Column....

اور میں ہارون الرشید سے بحث کرتا رہا! رؤف کلاسرا کا کالم
Published on 17. Jul, 2011


آخر کیوں؟ہارون الرشید میرے وہ واحد دوست ہیں جن کے خیالات سے میں سو فیصد تو نہیں لیکن ننانوے فیصد ضرور اختلاف کرتا ہوں۔ ہارون صاحب کا ذکر چلا ہے تو بتاتا چلوں کہ زندگی بھی بڑی عجیب چیز ہے۔ ایسی چیزیں ہوتی ہیں اور ایسے لوگ ملتے ہیں جو آپ کے کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔میں ڈگری کالج لیہ میں 1990-91ء میں بی اے کا طالبعلم تھا کہ ہارون الرشید کی کتاب ’’فاتح‘‘ کا چرچا سنا۔ اتنے پیسے نہیں تھے کہ خرید سکتا ۔ اپنے مہربان ہاسٹل وارڈن پروفیسر ظفر حسین ظفر کی سفارشی چٹ لیکر اپنے کالج کے لائبریرین کے بیٹے کی کالج روڈ پر واقع کتابوں کی دکان ’’دارلکتاب‘‘ گیا اور محض اس وعدے پر وہ کتاب مستعار لے آیا کہ رات کو پڑھ کر صبح واپس کرنی ہوگی۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ میں نے ساری رات جاگ کر وہ کتاب پڑھی اور ہارون الرشید کی تحریر سے آشنا ہوا۔ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے کہ جنرل اختر عبدالرحمن پر لکھی گئی اس کتاب نے ہمارے معاشرے میں جہاد کے کلچر کو پروموٹ کیا اور ایسے رومانوی کردار تخلیق کیے گئے جنہوں نے کچے ذہنوں کو بری طرح متاثر کیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر ہارون صاحب کو اس طرح کا ایک رومانوی کردار تخلیق کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ایک دفعہ پھر میرے گھر پر بیٹھے ہارون صاحب سے بہت شدید بحث ہوگئی۔ جب میں نے کہا کہ ہارون صاحب آپ ایسے کردار تخلیق کرتے رہتے ہیں اور خوب دل جمعی کے ساتھ ان کی کہانیاں اپنے کالموں میں لکھتے ہیں کہ پڑھنے والوں کو یوں لگتا ہے کہ خدا کے بعد اگر کوئی اس دنیا کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ وہی صاحب ہیں۔ ہارون صاحب نے مختصراً پوچھا مثلاً؟ میں نے جواب دیا کہ آپ کچھ عرصے بعد اپنے ہی کردار سے بور ہو جاتے ہیں اور نئے کردار کی تلاش میں پھر مگن۔ ہارون صاحب کو میں نے ان کے تخلیق کردہ انسانی بتوں کی تفصیل بتانا شروع کی۔ میں نے کہا آپ نے گلبدین حکمت یار کو ایک ایسا وار لارڈ بنا کر پیش کیا کہ لگتا تھا کہ وہ اکیلا اس دنیا کی سپر پاور تھا۔ اس کی ایسی ایسی کہانیاں ہمیں سنائیں کہ ہم بڑے عرصے تک تو سنبھل ہی نہ سکے۔ اب برسوں ہوئے ان کا ذکر بھی آپ کے کالموں میں نہیں آتا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کے بعد آپ نے جنرل حمید گل کی وہ کہانیاں ہمیں سنائیں کہ الامان۔ اب جنرل حمید گل اور آپ کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق آ چکا ہے۔ شعیب سڈل سے لیکر ذوالفقار چیمہ اور اب عمران خان تک ایسے کرداروں کی فہرست بڑی لمبی ہے جن سے ایک مرحلے پر آپ خود بھی تھک جاتے ہیں۔میں بولتا رہا اور وہ چپ کر کے سنتے رہے۔ میرا خیال تھا کہ اس کے جواب میں مجھے خاصی ڈوز سننے کو ملے گی۔ انہوں نے مختصراً اتنا کہا کہ یہ تمہاری سوچ ہے تم جو چاہو سوچتے رہو اور ساتھ ہی میری بیوی کو آواز لگائی کہ ذرا اچھی سی چائے بھجواؤ۔اس بیک گراونڈ میں جب روزنامہ جنگ میں 16 جولائی کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر مشاہد اللہ کا ہارون الرشید کے خلاف اخبار کے آدھے صفحے پر پھیلے حملے نے مجھے مجبور کیا ہے کہ کچھ اس پر بھی اظہار خیال کیا جائے۔ اگرچہ آج بروز اتوار ہارون الرشید نے اپنے کالم ’’ناتمام‘‘ میں ان اعتراضات اور حملوں کا جواب دیا ہے۔ ایک بات یقینی ہے کہ ہارون الرشید کا جواب پڑھ کر میں نے بھی سیکھا ہے کہ کیسے بعض دفعہ اپنے اوپر ہونے والے شدید حملوں کے باوجود ایک لکھاری کو کیسے اپنے ذاتی غصے کو ایک طرف رکھ کر محض پروفیشنل انداز میں جواب دینا چاہیے۔ شاید میرے جیسا کوئی اناڑی ہوتا تو کالم میں دلیل کے بجائے غصہ زیادہ جھلکتا۔ یہی بات ہارون الرشید کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ جارحانہ مزاج اور اپنی سخت پسند ناپسند کا خیال رکھنے کے باوجود ایسے موقعوں پر ایک پروفیشنل صحافی بن جاتے ہیں۔ صحافت کے کسی بھی طالبعلم کیلئے مشاہد اللہ کا ہارون الرشید کے خلاف لکھا گیا کالم اور اس کے جواب میں ہارون الرشید کا کالم ایک دلچسپ سٹڈی کے برابر ہے۔میں ہارون صاحب کو 12 سال سے جانتا ہوں۔ وہ دوست کم اور فیملی ممبر زیادہ ہیں۔ ان برسوں میں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ وہ کونسا روز ہوگا جس دن میری ان سے ان کے بعض خیالات اور تحریروں پر تلخی کی حد تک بحث نہ ہوئی ہو۔ مجال ہے کہ بعض دفعہ میری گستاخی کے باوجود اس تعلق میں کوئی تھوڑی سی دراڑ بھی آئی ہو۔ بعض دفعہ تو گھر پر بیٹھے ہماری اونچی آوازیں سن کر میری اپنی بیوی پریشان ہو کر گھر کے چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں جھانک کر لوٹ جاتی ہے۔ کچھ دیر بعد کسی لطیفے پر ہمارے قہقہے سن کر وہ پھر یہ دیکھنے آتی ہے کہ یہ اچانک لڑائی جھگڑے کے دوران ایسا کونسا واقعہ ہو گیا تھا کہ دونوں صاحبان بیٹھے اب کسی بات پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔
عمران خان کو انہوں نے کالموں میں پروموٹ کرنا شروع کیا تو بھی میں نے ان سے بحث کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ حضور آپ خود بھی کالم لکھتے ہیں اگر آپ کو عمران خان کی پالیسیاں پسند نہیں ہیں تو آپ خود تکلیف کیوں نہیں دیتے۔ میں مسکرا پڑا اور کہا ہارون صاحب عمران خان سے بہت سے اختلافات کے باوجود میرے پاس اس کے خلاف نہ لکھنے کی تین وجوہات ہیں۔ہارون صاحب بڑے حیران ہوئے اور کہا کہ جناب یہ معجزہ کب سے ہوا کہ کسی کی پالیسیوں کو آپ ناپسند بھی کرتے ہوں اور پھر بھی آپ کے پاس ایسی وجوہات ہیں کہ اس کے خلاف لکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ پہلی وجہ میرا دس سال کا چھوٹا بیٹا ہے جس نے کبھی عمران کو کرکٹ کھیلتے نہیں دیکھا لیکن وہ پچھلے ایک سال سے مجھے مسلسل کہہ رہا ہے کہ بابا مجھے عمران خان کی پارٹی کا ممبر بنوا دیں۔ سو میں اپنے بیٹے کے ہیرو کے خلاف لکھ کر خود شرمندہ نہیں ہونا چاہتا۔دوسری وجہ ہارون صاحب آپ ہیں۔ آپ عمران کے خیر خواہ ہیں اور مجھے پتہ ہے کہ آپ کو اس سے کوئی ذاتی لالچ یا کام نہیں ہے۔ عمران کے خلاف لکھنے والے اور میں نے لکھ بھی دیا تو اس سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ عمران کے خلاف نہ لکھنے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس ملک پر سیاسی جماعتوں سے لیکر فوج اور مذہبی گروپوں نے حکومت کی ہے اور سب نے اسے پہلے سے ذیادہ تباہ کیا۔ ایک موقع عمران کو بھی ملنا چاہیے ہو سکتا ہے بہت سارے معاملات پر کنفیویژن کے باوجود وہ محض اپنے اوپر طاری اوور کانفیڈنس کی وجہ سے میرے دس سالہ بیٹے جیسے نوجوانوں کو شاید نئی راہ دکھا سکے۔ میں ان تمام نوجوانوں کے خواب نہیں توڑنا چاہتا اگر وہ عمران سے مایوس ہونا چاہتے ہیں تو وہ اپنے تجربے کے بعد مایوس ہوں نہ کہ میری تحریریں پڑھ کر۔ہارون الرشید کی شخصیت کا ایک نیا پہلو میرے سامنے اس وقت آیا جب 10 ستمبر 2007ء کو نواز شریف جلا وطنی ختم کر کے لندن سے اسلام آباد آئے۔ میں ابھی اس تاریخی فلائیٹ کا حصہ تھا۔ جو کچھ نواز شریف کے ساتھ جنرل مشرف کی حکومت اور سعودیوں نے کیا وہ میں نے اپنی آنکھوں سے ایئر پورٹ پر دیکھا اور اس کا پورا احوال اپنی کتاب ’’ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ میں بڑی تفصیل سے دیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ جب میں ایئر پورٹ سے باہر نکلوں گا تو پورا پاکستانی میڈیا نواز شریف کے ساتھ اس برے سلوک کی کہانیاں سنا رہا ہوگا اور سعودی عرب کے اس رول پر تنقید ہو رہی ہوگی۔ جب میں ایئر پورٹ پر تین چار گھنٹوں کی لڑائی کے بعد گھر پہنچا اور ٹی وی آن کیا تو میں حیرانی سے بیہوش ہونے والا تھا کہ وہ سارے صحافی جنہیں میاں صاحب اپنے خرچے پر لندن سے ساتھ لائے تھے ٹی وی چینلز پر الٹا ان پر تنقید کر رہے تھے۔ کہیں بھی سعودیوں کا ذکر نہیں تھا۔اگلے دن میں دی نیوز اور جنگ کیلئے سٹوری لکھی کہ کیسے نواز شریف کو سعودیوں نے اغوا کیا تھا۔ اسی دن نواز شریف کے حق اور جنرل مشرف اور سعودیوں کے خلاف میری سٹوری سے بھی زیادہ سخت کالم ہارون الرشید نے لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے اس پر بس نہیں کیا اور اس موضوع پر سعودیوں کے خلاف ایک پاکستانی لیڈر کو یوں پاکستانی سرزمین سے زبردستی لے جانے پر ایک مہم شروع کی اور یوں جب مسلم لیگ نواز کے وہ بڑے بڑے لیڈر جو آج ہارون الرشید پر حملے کر رہے ہیں اپنے گھروں میں دبکے اور جنرل مشرف کے خوف سے گونگے بنے بیٹھے تھے وہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایک سچے اور بہادر صحافی کی طرح ہارون الرشید نے سعودیوں کے خلاف لکھا جن کے خلاف بولنا یا لکھنا ایک جرم سمجھا جاتا تھا ۔ اور تو اور مسلم لیگ نواز کے اپنے حامی صحافی اور کالم نگار بھی سعودیوں کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ یہ روایت بھی ہارون الرشید کے حصے میں آنی تھی جو آج اس سینیٹر کے حملوں کی زد میں ہیں جنہیں سینیٹ کا ٹکٹ بھی لندن میں واقع ریسٹورنٹ کے ایک مالک ریاض کے مرہون منت ہے جو شریف برادران اور ان کے سیاسی لیڈروں ورکروں اور ہمارے جیسے صحافیوں کے کھانے پینے کا خیال رکھتا تھا۔ میاں صاحب ریاض کے کھلائے گئے کھانوں اور وہ بھی مفت، سے بڑے خوش تھے۔ پاکستان میں اقتدار میں آنے کے بعد میاں صاحب نے جلالی انداز میں پوچھا کہ مانگو کیا مانگتے ہو۔ اس شریف النفس ریاض نے جسے میں نے لندن کے دنوں میں ایک اچھا انسان پایا تھا صرف اتنا بولا حضور مجھے خدا نے بہت کچھ دیا ہے اور میں لندن میں بہت خوش ہوں۔ آپ مناسب سمجھیں تو میرے دوست کو سینیٹ کا ٹکٹ دے دیں۔ یوں ریسٹورنٹ کے دو سال کے کھانوں کا بل سینٹ کا ٹکٹ دیکر ادا کر دیا گیا۔میرا تو اس دن شریف برادران سے دل بھر گیا تھا یا ایک طرح سے ایمان اٹھ گیا تھا جس دن مکہ اور مدینے میں قسمیں کھانے اور لندن میں مجھے لمبے لمبے بھاشن کہ جنرل مشرف کے کسی وزیر یا ساتھی کو پارٹی میں واپس نہیں آنے دیں گے، کے باوجود بھی پاکستان پہنچتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ جنرل مشرف کے وزیر قانون زاہد حامد کو سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا۔ یہ وہی زاہد حامد تھے جو 10 ستمبر 2007ء کو تمام ٹی وی چینلز پر میاں صاحب کے وہ دستاویزی معاہدے اور معافی نامے دکھا رہے تھے جو انہوں نے جنرل مشرف کے نام لکھے تھے۔تاہم ہارون صاحب کا میاں صاحبان کے ساتھ رومانس جاری رہا۔ ہارون صاحب کے پاس کسی کے خلاف یا حق میں لکھنے کی اپنی وجوہات ہوتی ہیں۔ ہارون صاحب سے میرا زیادہ بحث و مباحثہ اس بات پر ہوتا رہتا ہے کہ ان کے دل میں اچانک وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی محبت پتہ نہیں کہاں سے امڈ کر آتی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہر موقع پر جب بھی شہباز شریف پنجاب میں اپنی یا اپنے حواریوں کی وجہ سے کسی بحران میں گھرے تو ہارون صاحب نے سب سے پہلے ان کے حق میں کالم لکھنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھا۔ گورنر راج لگا تو وہ ایک طرح سے ان شریفوں کے ترجمان بن گئے۔ دانش سکولوں کے پراجیکٹ پر اربوں روپے ضائع ہونے لگے تو وہ اس طیارے میں سوار تھے جو عوام کے ٹیکسوں سے اسلام آباد ایئر پورٹ سے اڑا اور انہیں رحیم یار خان لے گیا۔ میں نے کہا ہارون صاحب یہ دکھاوے کا کام ہے۔ یہ سیاستدان بڑے سیانے ہیں یہ صحافیوں کو جہاز کی سیر، اپنے ساتھ چائے پانی اور تھوڑا سا مصنوعی احترام دکھا کر استعمال کرتے ہیں۔ میرے جیسے دیہاتوں سے آئے ہوئے لوئر مڈل کلاس کے صحافی جنہیں اگر کوئی دیہات میں سپاہی بھی سلام کر لے تو وہ کئی دنوں تک اپنا ہاتھ نہیں دھوتے اچانک جب شہروں میں آ کر صحافی بنتے ہیں اور ان کا میل جول صدر، وزیر اعظم، وزیروں اور بڑے بڑے بیورو کریٹس سے ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ بس انہوں نے گوتم بدھ کی طرح برگد کے درخت کے نیچے بیٹھ کر نروان پا لیا اور پھر پوری عمر ان سیاستدانوں کے طبلے بجانے میں گزر جاتی ہے۔ بڑا صحافی وہ سمجھا جاتا ہے جو حکمرانوں کے دربار میں اٹھتا بیٹھتا ہو اور اگلے دن ان کی شان میں قصیدے لکھے نہ کہ بڑا صحافی وہ ہوتا ہے جو بڑی خبر لائے اور عوام کے ساتھ کھڑا رہے۔ اگر حکمران اچھا کام کرتے ہیں تو کونسا احسان کرتے ہیں کہ اچھا کام کرنے کیلئے ہی تو وہ ہمارے اربوں روپے کے ٹیکسوں پر عیاشی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اچھا کام بھی ایک احسان کے طور پر کیا جاتا ہے نہ کہ اپنا فرض جان کر۔ہارون صاحب نے میرا یہ طویل وعظ سنا اور مختصراً بولے کہ بھائی یہ تمہارا پوائنٹ آف ویو ہے۔ میں تو جاؤں گا اور وہ گئے اور واپسی پر شہباز شریف کی شان میں کالم بھی لکھا۔
ہارون صاحب نے نواز شریف، شہباز شریف اور ان کی پارٹی کے لیڈروں کی شان میں کئی دفعہ ایسی تحریریں بھی لکھیں جن سے مجھے خاصا اختلاف تھا مثلاً جو حشر چوہدری نثار علی خان نے روالپنڈی کا کیا ہوا ہے اور جتنی رعونت اور تکبر میں نے اس انسان میں دیکھا ہے اور جیسے اس کے دل میں عام انسانوں کیلئے نفرت آنکھوں سے چھلکتی پائی ہے، اس کے باوجود بھی ہارون الرشید کے کالم میں اس کی شان میں لکھا گیا ایک فقرہ بھی چھبتا ہے۔
میرے اعتراضات سن کر ہارون صاحب ہمیشہ کہتے کہ تمہیں یہ پتہ ہے کہ میں کسی کے خلاف یا حق میں کوئی ذاتی لالچ کی وجہ سے نہیں لکھتا ہو سکتا ہے کہ میری ججمنٹ میں غلطی ہو نیت میں نہیں۔کئی دفعہ ان سے بحث ہوئی کہ سیاستدان صحافیوں کو استعمال کرنا جانتے ہیں۔ جب یہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو آپ کے نام کے ساتھ فوری طور پر بھائی کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ آپ سے بڑا انٹی اسٹیبلشمنٹ، بہادر، دلیر اور ایماندار صحافی اور کالم نگار کوئی نہیں ہوتا۔ جونہی یہی لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو پھر اپنی پارٹی کی صفوں میں موجود مشاہد اللہ جیسے کرداروں سے آپ پر حملے کراتے ہیں۔ میرا ایمان تو ان سیاستدانوں سے بہت پہلے سے اٹھ گیا تھا۔ اب تو نہ میں ان کی تعریف سے متاثر ہوتا ہوں اور نہ ان کی تنقید مجھے پریشان کرتی ہے کہ ہمارا تعلق گھوڑے اور گھاس والا ہے اگر دونوں دوستی کریں گے تو پھر صحافی بھوکا مرے گا۔میری اس پر بھی ہارون صاحب سے بڑی بحث ہوئی کہ آپ ابھی تک جنرل ضیاء کی امریکیوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں لڑی گئی جنگ کو تو جہاد سمجھتے رہے ہیں جس نے ملک کا بیڑا غرق کیا۔ یہ ضرور ہے کہ جب ہارون صاحب نے یہ سمجھا کہ وہی جنگجو مذہبی عناصر جن کے حق میں وہ کبھی لکھتے تھے اس ملک کیلئے شدید خطرہ بن چکے تھے تو میرا خیال ہے کہ وہ پہلے کالم نگار تھے جنہوں نے طالبان کے خلاف اس وقت پوری شدت کے ساتھ لکھنا اور بولنا شروع کیا جب کسی کو ایک لفظ بولنے کی بھی جرات نہیں ہوتی تھی۔بہت سارے لوگ ان کی اس لائن بدلنے پر حیران بھی ہوئے اور دشمن بھی بنے۔ اور تو اور ایک دفعہ میرے دوست حسن نثار نے مجھ سے حیرانی سے پوچھا کہ یار استاد ہارون الرشید میں اتنی بڑی تبدیلی کیسے آ گئی۔ میں نے مسکرا کر کہا کہ ذہین لوگ اپنی زندگی میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے سامنے اپنے خیالات کے خلاف نئی دلیلیں دیکھ کر اپنی سوچ بدل لیتے ہیں اور یہ کام صرف ایک ذہین اور پڑھا لکھا شخص کر سکتا ہے۔ جاہل لوگ ساری عمر اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ آج بھی اسی بات پر قائم تھے جو انہوں نے تیس برس پہلے کی تھی۔
مشاہد اللہ کا ہارون صاحب کے بارے میں یہ طعنہ پڑھ کرکہ وہ اپنے خیالات بدلتے رہتے ہیں، مجھے اورینہ فلاسی کی شہرہ آفاق کتاب “An interview with history” میں بھٹو صاحب سے پوچھا گیا اسی سے ملتا جلتا ایک سوال یاد آ گیا۔
اورینہ فلاسی نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ اندرا گاندھی کہتی تھی کہ وہ ایک غیر متوازن شخصیت کے مالک انسان ہیں۔ بھٹو صاحب ایک دن ایک بات کرتے ہیں اور دوسرے دن دوسری۔ ان کے بارے میں کسی کو کوئی پتہ نہیں چلتا کہ ان کے ذہن میں کیا ہے۔ اپنے بارے میں اندرا گاندھی کا یہ تبصرہ سن کر بھٹو صاحب نے بڑی حیرانی سے پوچھا کہ واقعی انہوں نے یہ بات کی تھی۔
بھٹو صاحب بولے کہ ’’مجھے مشہور فلاسفر لاک کی صرف ایک بات اچھی لگتی ہے کہ Consistency is a virtue of small minds۔
بھٹو صاحب نے بتایا کہ آپ کا کوئی بنیادی اصول اور تصور ضرور ہونا چاہیے لیکن اس کے اندر بھی تبدیلی کی گنجائش رکھنی چاہیے آپ کبھی ایک پول پر چلے جائیں تو کبھی دوسرے پر۔ ایک دانشور کو صرف ایک خیال کے ساتھ چمٹ کر نہیں رہنا چاہیے۔ اس کے خیالات میں لچک ہونی چاہیے ورنہ اس کے خیالات کسی ڈرامے یا فلم کے کردار کی ایک لمبی تقریر جیسے ہی ہوں گے۔ یہ بات ایک سیاستدان پر بھی صادق آتی ہے۔ سیاست بھی ایک تحریک کی طرح ہوتی ہے اور ایک سیاستدان کو بھی موبائل رہنا چاہیے اسے کبھی رائٹ تو کبھی لیفٹ کی طرف گھومنا چاہیے تو کبھی اس کے اندر کے تضادات اور شکوک بھی ابھرنے چاہیں۔ اسے مسلسل اپنے آپ کو بدلتے رہنا چاہیے اور چیزوں کو ٹیسٹ کرتے رہنا چاہیے۔ اس شخص پر ترس کھانا چاہیے جو ہر وقت اپنے بنیادی خیالات سے چمٹا رہے۔ ایک غیر مستقل مزاجی کسی بھی ذہین شخص اور منجھے ہوئے انسان کی بہت بڑی خوبی ہوتی ہے۔ اگر یہ بات اندرا گاندھی کو سمجھ نہیں آتی تو پھر وہ اپنے سیاسی پیشے کی اس خوبصورتی سے ناآشنا ہے۔ یہ بات بہرحال مسز گاندھی کے والد نہرو کو اچھی طرح پتہ تھی۔‘‘اس لیے ہارون صاحب کو یہ طعنہ نہیں بلکہ تھپکی ملنی چاہیے کہ وہ ایک جگہ رکے ہوئے پانی کی طرح نہیں جس سے بو آنا شروع ہو جاتی ہے بلکہ ان کے اندر نئے نئے خیالات کو جذب کر کے اپنے پرانے اور فرسودہ نظریات اور سوچ کو بدلنے کی اہلیت ہے جو پاکستان میں بہت کم دانشور اور لکھاریوں میں ہے کیونکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے بڑا انسان وہ سمجھا جاتا ہے جو اپنی تیس سال پہلے کی گئی کسی بات اور خیال پر قائم رہے اور اس پر اتراتا پھرے۔مجھے بہت ساری ذاتی باتوں کا پتہ ہے کہ ہارون صاحب نے جنرل کیانی سے اچھا تعلق ہونے کے باوجود بھی ان سے بعض ملاقاتوں میں کتنی سخت باتیں کی ہیں۔ میں ابھی بھی ان کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ پاکستانیوں کو امریکہ یا امریکی سفیر سے ملاقاتیں نہیں کرنی چاہیں تھیں یا ہمیں ہر وقت اپنی ہر برائی کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ڈھونڈنا چاہیے۔جہاں عمران خان کے ساتھ دوستی کی بات ہے تو اس پر اتنی تنقید کی کہ ہمارے دوست حامد میرکو کہنا پڑ گیا کہ وہ زیادتی کر رہے تھے۔ ایک دو دفعہ تو عمران خان ان سے اتنے ناراض ہوئے کہ کئی دن رابطہ نہ رہا تو بھی پروا نہیں کی۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ طالبان بھی دشمن تھے، ان کے حامی اخبار نویس بھی، فوجی اعلیٰ قیادت بھی ناراض، عمران خان سے بول چال بند اور اسلام آباد کے پراپرٹی ڈیلر کی طرف سے قتل کی دھمکیاں لیکن پھر بھی میں نے انہیں کبھی پریشان نہیں دیکھا۔ہارون الرشید نے مشاہد اللہ کے لیڈروں کی طرح نہ جنرل پرویز مشرف سے ملک چھوڑنے کی ڈیلیں کیں اور نہ ہی معافی نامے لکھ کر دیئے۔ وہ اسی ملک میں پیدا ہوئے اور جنرل مشرف کے دور میں اپنی پوری قوت سے اس وقت لکھا جب پی ایم ایل نواز کے بڑے بڑے لیڈر جنرل مشرف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈر کے مارے نام لینے کے بجائے اپنا ہاتھ کندھوں پر لے جاتے جس سے یہ تاثر دینا ہوتا تھا کہ وہ فوجیوں کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ اس ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ جب ملک میں مارشل لاء لگتا ہے تو بینظیر ملک چھوڑ جاتی ہیں،چوہدری اور عمران خان جنرل مشرف کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں اور نواز شریف صاحب معافی نامے لکھ کر اس قوم، صحافیوں اور دیگر اداروں کو اکیلا چھوڑ کر خود سرور پیلس اور لندن کے مزے لیتے ہیں۔ جب ان کی عدم موجودگی میں بڑی مشکلوں اور محنتوں سے جمہوریت واپس آتی ہے تو ہمارے یہ لیڈران لوٹ آتے ہیں اور پہلی گالی ہارون الرشید جیسے صحافیوں کو ملتی ہے۔مجھے سینیٹر مشاہد اللہ کا یہ وعظ پڑھ کر وہ دن یاد آ رہا ہے جب 10 ستمبر 2007ء کو نواز شریف کو ان کے حواریوں نے یہ یقین دلایا ہوا تھا کہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر ان کا استقبال آیت اللہ خمینی کی طرح کیا جائے گا اور ابھی جہاز اسلام آباد کی فضا میں ہی تھا اور میاں صاحب مسلسل اپنے سیٹلائٹ فون سے اپنے لیڈروں کے فون ملا رہے تھے اور سب کے فون بند تھے۔ میاں صاحب کی کہانی فضا میں ہی ختم ہو گئی تھی اور پتہ نہیں اس وقت ٹی وی چینلز پر چنگھاڑتے اور منہ سے جھاگیں اڑانے والے پی ایم ایل نواز کے لیڈران کہاں تھے جو آج ہارون الرشید پر حملہ آور ہوئے ہیں۔
ہارون صاحب نے ایک بار خود مجھے کہا کہ جتنا انہوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف لکھا اور بولا ہے اور جنرل ضیاء تک کی تعریفیں لکھتے رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انہوں نے پی ایم ایل نواز پر اس طرح کبھی تنقید نہیں کی بلکہ کئی بار ان کے حق میں لکھا۔ تاہم پیپلز پارٹی کو یہ کریڈٹ جاتا تھا کہ انہوں نے کبھی ان کی تنقید پر انہیں گالی نہیں دی اور ان کے بقول پیپلز پارٹی میں برداشت مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔
میں مسکرا پڑا اور صرف ان سے اتنا کہا کہ ہارون صاحب میں اسی چیز پر تو آپ سے بحث کرتا رہا ہوں کہ اب نواز شریف، شہباز شریف اور باقی سیاسی لیڈروں کے حق میں نہ لکھا کریں کہ اپوزیشن کے دنوں میں آپ جیسے لکھاری ان کے ہیرو ہوتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد پہلی گالی آپ کو پڑتی ہے۔ اندر سے یہ سب ڈکٹیڑ ہیں کیونکہ ڈکٹیڑوں سے ہی سیاست سیکھی ہے۔
بھلا ہارون صاحب پہلے کب میری بات سنتے تھے کہ اب سنیں گے !

 
Last edited:

GraanG2

Chief Minister (5k+ posts)
Klasara is paid by chwal chahudharis

hahaha...really ???? Once he wrote something in favor of Haroon Rashi/Imran Khan and against Photocopy machine league...now he is paid by Choudaries...Wah Ji wah...Everybody knows People like Klasra are paid by who but How many are being paid by PMLN...lolz
 

pakistan2

Councller (250+ posts)
hahaha...really ???? Once he wrote something in favor of haroon rashi/imran khan and against photocopy machine league...now he is paid by choudaries...wah ji wah...everybody knows people like klasra are paid by who but how many are being paid by pmln...lolz

jnab klasra ko aj se aik doo mahina pehle talk shows meen dekh loo yeh pehle monis elahi k khlaf bolta tha aur wth proof aur aj kal monis k haq meen bool raha he plz dont get fool so easy
 

moodali

MPA (400+ posts)
کلاسرا سے میں ہرگز بحث نہ کروں گا: ہارون الرشید کا خط

published on 28. Jul, 2011

(ٹاپ سٹوری آن لائن کے مینجنگ ایڈیٹر رؤف کلاسرا نے 17 جولائی کو اور میں ہارون الرشید سے بحث کرتا رہا کے عنوان سے کالم لکھا تھا جس کا جواب ہارون صاحب نے یوں دیا ہے)میرے قرار کا ایک سبب ہے ؛چنانچہ رؤف کلاسرا صاحب سے میں ہرگز بحث نہ کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ تاریخ گھمنڈ کا قبرستان ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔میں جانتا ہوں کہ شریف برادران تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں ، کوئی چیز انہیں بچا نہیں سکتی ۔۔۔انہیں اور آصف علی زرداری کو۔

دریائے سندھ کے اس پار کا محاورہ یہ ہے : دلیل نہیں ، پشتون طعنے پر پلٹتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پشتون درحقیقت ایک نسل نہیں بلکہ ایک ذہنی رویہ ہے ۔ اس اعتبار سے اکثر پاکستانی پٹھان واقع ہوئے ہیں اور پشتونوں میں ایسے بہت جن کے تحمل اور تدبر پہ رشک کیا جا سکتاہے ۔۔۔یہ سطور لکھ چکا تو احساس ہوا کہ ایک اخبار اور ایک ویب سائٹ کے لیے لکھنے میں کتنا فرق ہے ۔ اخبار میں کتنی ہی آزادی ہو ، گاہے کچھ غیر ضروری احتیاط روا رکھنا ہوتی ہے۔ احتیاط لازم کہ شائستگی کی دلیل ہے اور شائستگی کے بغیر حیات بھدّی اور بے ذوق ۔ پاکستانی معاشرہ لیکن ابھی لڑکپن سے گزر رہا ہے۔رؤف کلاسراکا خیال یہ ہے کہ وہ مجھے طعنہ دیں گے تو میں بروئے کار آؤں گا ۔ صاف صاف میں نے ان سے کہا کہ حضور، ہرگزنہیں ۔ مضمون جب تک تخلیق بن کر نہ اترے ، لکھتا یہ نا چیز ہرگز نہیں۔ وہ بہرحال ایک اکسانے والے آدمی ہیں۔ ابھی کچھ دیر قبل میں نے ان سے عرض کیا: بھائی صاحب تاکید سے مجھے چڑ ہے ۔ لکھوں گا تو اپنی مرضی سے ۔ کلاسرہ بھی اپنی مرضی سے لکھتے ہیں ۔ میرے کہنے بلکہ فرمائش پر بھی کبھی ایک سطر بھی عنایت نہ کی۔ کبھی بے حد مہربان اور کبھی ایسے بخیل کہ اسد اللہ خاں غالبؔ یاد آئیں۔
ع صحرا مگر بہ تنگیِ چشمِ تھا
میرے بارے میں جو کچھ ارشاد کیا ، وہ ان کی ذاتی رائے ہے ۔ انگریزی میں کہتے ہیں
every body is entitled to his opinion
ہر آدمی اپنی بات کا خود سزاوار۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار ۔ ایک مخلوق اور بھی ہے ۔ میرے خلاف، جن دوست کے نام سے مضمون چھپا، سینیٹر مشاہد اللہ خاں ، وزیر اعلیٰ کے ایک مشیر ، جن کا نام اپنی تحریروں میں ، آئندہ نہ لکھنے کا ارادہ کیاہے اور ان کے سرپرست شریف برادران ۔ ان صاحب کا معاملہ وہ ہے ، ایک صدی ہوتی ہے جو اقبال نے بیان کیا تھا
شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جوہرِ ادراک
تحریری طور پر انہوں نے مجھے دھمکی دی ہے کہ تمہارا حق تمہیں دے دیا جائے گا۔ حال مگر یہ ہے کہ ان کے دونوں سرپرست ، جناب شہباز شریف اور میاں محمد نواز شریف مکر گئے۔اپنے نام میاں محمد شہباز شریف کا پیغام میں من و عن نقل کرتا ہوں۔
yes i have read mushahidullahs article but i have no idea that d.g.p.r has any role in this. I will check from him.
میرا تبصرہ یہ ہے
:he will never
۔ اترسوںِ مری میں نواز شریف اخبار نویسوں کو بتاتے رہے کہ مضمون مشاہداللہ خان ہی نے لکھا ہے ؛اگرچہ عمر بھر انہوں نے کبھی ایک سطر نہ لکھی۔ ڈیڑھ برس ہوتا ہے جب وزیر اعلیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ لاہور میں تحریکِ انصاف کے بینر اتارنے کی تحقیقات کرائیں گے ۔ مزیدچھ ماہ گزرے ہوں گے جب لاہور کے حلقہ پی پی 160میں عمران خاں پنجاب حکومت کے مخالف اٹھے ۔ 14000جعلی ووٹوں کے باوجود شہر لاہور کے کسی ایک بھی پولنگ سٹیشن سے نون لیگ جیت نہ سکی۔ ووٹوں کا تناسب 70 اور 30 تھا۔ یہ کمی دیہی علاقوں میں پوری کر لی گئی۔ پولیس اورپٹوار کی مدد سے ۔ جب تک پٹواری اور پولیس حکومتوں کے ہاتھ میں ہیں، دھاندلی رک سکتی ہے اور نہ قبضہ گروپوں کا خاتمہ ممکن ہے ۔ اس لیے میاں شہباز شریف کے ان دعووں کو میں درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا کہ وہ پولیس کا کلچر بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرائیں گے ۔ جی نہیں ، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تین سال گزر گئے، کچھ نہ ہوا۔ آئندہ بھی کچھ نہ ہوگا۔ شعبدہ بازی تھی جو جاری رہے گی۔ احسن اقبال ایسے لوگ کرایے کی ویب سائٹس پر اخبار نویسوں اور نون لیگ سے اختلاف کرنے والے رہنماؤں کی کردار کشی کرتے رہیں گے۔ شہباز شریف اور نواز شریف پردہ پوشی فرماتے رہیں گے اور کیوں نہ فرمائیں ، آخر انہی کے حکم پر یہ تماشا جاری ہے ۔۔۔اور میرے عزیز دوست شعیب بن عزیز یہ مشورہ دیتے ہیں : بدگمانی سے کام نہیں لینا چاہیئے۔
میرا اوّلین جرم یہی تھا اور اب بھی یہی ہے کہ میں جعل سازوں کے ذریعے کردار کشی پر احتجاج کرتا ہوں ۔ سب سے پہلے ، میں نے احسن اقبال کی کارندہ ویب سائٹ پر نذیر ناجی ، محمد مالک اور رؤف کلاسر۱ کے خلاف مہم پر اعتراض کیا ۔ ان میں سے اوّل الذکر سے مجھے اتنا ہی اختلاف ہے جتنا کہ کسی بھی شخص کو ہو سکتاہے ۔ محمد مالک میرے دوست ہیں مگر ان کی رائے سے بھی اکثر اختلاف ہوتا ہے ۔ رہے کلاسرہ صاحب تو اللہ کے فضل سے ، آج تک کسی بھی سیاسی موضوع پر ان سے اتفاق نہ ہو سکا اور آئندہ بھی امکان کوئی نہیں ۔۔۔یہ البتہ ہے کہ میں انہیں دیانت دار سمجھتا ہوں ۔جب تک میرا مشاہدہ تصدیق کرے گا ، نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کا احترام میں کرتا رہوں گا۔ہدف میں نہیں تھا ، بلکہ آزاد صحافت اور آزاد سیاستدان ۔ رؤف کلاسرہ ایسے اخبار نویس اور عمران خان جیسے سیاستدان۔ شہباز شریف تومیرے ایسے مدّاح تھے کہ میرے لیے دیسی مرغی پکواتے اور اپنی صاحبزادی سے میری ملاقات کرائی۔ وہ میری بیٹی کی ہم نام ہے ، نیک طینت ہے اور میں اسے اپنی بیٹی کی طرح عزیز سمجھتا ہوں ۔ ایک ایسے کارِ خیر میں وہ مصروف ہے کہ دل سے دعا نکلتی ہے ۔شہباز شریف نہیں ، نواز شریف مجھ سے نالاں ہیں۔ شہباز شریف تو میری اس رائے سے اتفاق کرتے رہے کہ عسکری قیادت اور قاف لیگ کے باب میں تکبر سے نون لیگ ہی کو خسارہ ہوا۔ مجھ سے انہوں نے فرمائش کی تھی کہ تین دن میں ان کے بڑے بھائی کے بارے میں خاموش رہوں تو وہ ا ن سے میری ملاقات کرائیں گے ۔عرض کیا : اگر میری غلطی ہو تو میں ان سے معذرت کرلوں گا ( لیکن میں ایک آزاد اخبار نویس ہوں اور انشا ء اللہ دائم ایسا ہی رہوں گا) ۔ مجھے معلوم تھا کہ ملاقات نہ ہوگی۔ بڑے میاں صاحب آزاد صحافت کی اتنی سی تاب بھی نہیں لا سکتے ، جتنی پاکستان کا سب سے زیادہ نا پسندیدہ سیاستدان آصف علی زرداری۔ ملاقات نہ ہوئی اور میرا نہیں خیال کہ مستقبل میں بھی ممکن ہوگی۔ دو بار وہ وزیر اعظم بنے ، دونوں بار سرکاری تقریبات میں میرے داخلے پر پابندی تھی ۔ خدا نخواستہ آئندہ بنے ، تب بھی ہوگی۔ چشمِ ما روشن ، دلِ ما شاد۔اس اثناء میں ، میرے محترم دوست چوہدری نثار نے ٹیلی فون پر مجھ سے رابطہ کیا : عرض کیا : جب اور جہاں آپ ارشاد کریں ، میں حاضر ہو جاؤنگا۔ انہوں نے ٹال دیا اورفقط یہ کہا: آپ ایک خام (raw)قسم کی جرا ت کے حامل ہیں ؛ چنانچہ آپ کی رائے کو اہمیت بہت دی جاتی ہے ۔ آپ کو اس لیے احتیاط کرنی چاہیئے۔ خام جرات کا حامل احتیاط کیسے کرے ؟ خود چوہدری صاحب کا معاملہ بھی یہی ہے مگر میں نے حدّ ادب کا خیال رکھا۔اکثر وہ بھی رکھتے ہیں ۔ گاہے ناراض بھی ہوتے ہیں ، بیشتر مگر مروت ہی برتتے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ میاں محمد نواز شریف کے بارے میں ان کی حقیقی رائے کیا ہے ۔ وہ اس کا اظہار مگر معلوم نہیں کب کریں گے ۔ میرا اندازہ ہے کہ دو برس تک ۔ کسی دن عرض کروں گا کہ اس مدت کا تعین میں نے کس بنیاد پر کیا ہے ۔میرے خلاف لکھے گئے مضمون کا معاملہ عجیب ہے۔ بزرگ رہنما رانا نذر الرحمٰن کی معلومات پر اعتماد کیا جائے تو میرے تین محترم دوست اس معرکے میں شریک تھے ۔مدیرِ با تدبیر مجیب الرحمٰن شامی ، یارِ عزیز شعیب بن عزیز اور حضرت رؤف طاہر ۔ اگر دوسرے ذرائع پر بھروسہ کیا جائے تو پاکستانی صحافت کے شگفتہ نگار ، محترم عطاء الحق قاسمی بھی۔ اللہ جانتا ہے اور وہی تو جانتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک سے بھی ہرگز مجھے کوئی شکایت نہیں ۔ قطعاً نہیں، ہرگزنہیں۔تحقیق میں نے کی نہیں اور کرنے کا آرزومند بھی نہیں۔ میری حالت ان شیخ صاحب جیسی ہے ، جن کی چونی گم ہو گئی تو ایک کے سوا ساری جیبیں ٹٹول کر دیکھ لیں ۔ کسی نے پوچھا : آخری جیب میں بھی آپ کیوں نہیں جھانک لیتے؟ جواب ملا : اگر سکہّ اس میں بھی برامد نہ ہوا ؟ دوستوں کے باب میں حسنِ ظن ہی بہتر ہے ۔ یہ خیال بھی پختہ ہے کہ ان شرکا ہی کی وجہ سے مضمون گالم گلوچ سے پاک ہے ۔وگرنہ ، یہ تو وہ لوگ ہیں ، جو عمران خان ہی نہیں ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے خلاف ایسی ایسی مہم چلا چکے کہ شیطان بھی کان پکڑے۔
ہدف میں نہیں ، عمران خان ہے ۔ سو فیصد مجھے یقین ہے کہ وہ اس کے خلا ف ایک بڑی اور خوفناک مہم برپا کریں گے ۔ سو فیصد یقین یہ بھی ہے کہ یہ کاوش ناکام رہے گی ، جس طرح کہ بیسوی صدی کے چوتھے عشرے میں قائد اعظم ، ساتویں میں ذوالفقار علی بھٹو اور آٹھویں میں بے نظیر بھٹو کے خلاف ناکام رہی تھی ۔ جیسی شریف خاندان کے خلاف متحدہ نے کی۔ جیسی عمران خان کے خلاف الطاف حسین نے کی، جب کراچی کی دیواریں غلاظت سے اٹیں اور صاف کرنا پڑیں۔اس قوم کا مزاج ہی ایسا ہے کہ ایسے میں الٹا ہمدردی جنم لیتی ہے ۔ زندگی دوسروں کے عیوب نہیں ، اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے ۔ یہ بات مگر میاں محمد نواز شریف کو کون سمجھائے ۔ ان پر انتقام سوار ہے ۔صرف عمران خان ہی نہیں ، پوری قوم سے وہ ناراض ہیں کہ 12 اکتوبر 1999ء کو لوگ ان کا اقتدار بچانے کے لیے گھروں سے باہر کیوں نہ نکلے، سینوں پر گولیاں کیوں نہ کھائیں۔ نواز شریف سے ہمدردی رکھنے والے ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے گیلپ کا سروے یہ تھا : 70 فیصد لوگ شریف حکومت کی برطرفی پہ شاداں تھے، اگرچہ جانشین ان سے بھی بدتر تھا ، پرویز مشرف ۔۔۔ اور اس کا انتخاب عالی جناب ہی نے کیا تھا۔جہاں تک اس معمولی اخبار نویس کا تعلق ہے ، خوف زدہ ہونے کا سوال ہی نہیں ، الحمد للہ ہر روز سو بار میں پڑھتا ہوں : ان ربی علیٰ کل شیء حفیظ، بے شک میرا رب ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے ۔رؤف کلاسرا ہر چند اکساتے رہے لیکن میں مشتعل بھی ہر گزنہ ہوں گا ۔ پارٹی کبھی نہ بنوں گا ۔ اگر کبھی کوئی اچھا کام میاں صاحبان سے سرزد ہوگیا تو کھلے دل سے اس کی تحسین بھی کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ تاریخ گھمنڈ کا قبرستان ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی ۔ کل من علیہا فان و یبقیٰ وجہہ ربّک ذوالجلال والاکرام ۔ ہر چیز فنا ہو جانے والی ہے اور باقی رہے گا ، تیرے رب کا چہرہ ، بے پناہ عظمت اور بے حساب بزرگی والا ! رؤف کلاسرہ سے ہرگز ہرگز میں بحث نہ کروں گا۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی ، وہ دیا رہ جائے گا

http://www.topstoryonline.com/haroon-rashid-letter-klasra

haroon rashid sahab aap pls sir rauf klasra hee nahi balke kisi se bhi as a journalist behas na kara karain kiyon ke ab aap bias ho gaye hain aap ko sirf internet party ka imran khan hi nazar aata hai aur journalist ko hamesha neutral hona chahiye.
 

ishwaq

Minister (2k+ posts)
Haroon Rasheed, he is not bais,wo aik dor andesh colum nigar hain aur jo haqeqat hey woh un ka saat dey rahey hain aur aaj ki haqeqat srif Imran Khan hey.